اور آخر ابا مر گیا!


آج 21 اگست 2020ء ہے اور یکم محرم بھی۔ آج کے دن ہماری سماجی و سیاسی زندگی کا ’حاصل‘ رزق خاک ہوا۔ وہ اپنے قریبی دوستوں میں ’ابا‘ کہلاتا اور اس پر ناز بھی کرتا تھا۔

ہماری مادر علمی یعنی جامعہ کراچی نے یکم جولائی 1982ء کو گویا پہلی بار ہمیں ابا کے درشن کرائے۔ وہ نئے تعلیمی سال کا پہلا دن تھا اور ہم نوواردان جامعہ کراچی کا بھی جامعہ کراچی میں پہلا قدم۔ ایک عجیب منظر تھا سلورجوبلی یعنی جامعہ کراچی میں داخلے کے لئے اولین تاریخی داخلہ گاہ سے ہی ایک عجیب سی گہماگہمی اور اس گہماگہمی میں گندھا مبارک سلامت کا وہ شوراورخیر مقدم کی وہ نوید شروع ہو جاتی تھی جو اب مستقبل قریب میں شاید ہی نئے آنے والوں کو نصیب ہو پائے۔

جوں جوں آپ پوسٹ آفس کے اسٹاپ کے قریب پہنچتے جاتے تھے یہ سب اپنے بام عروج پر پہنچنے لگتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ ساتھ چلنے والے دورویہ درختوں کے سامنے لگے وہ مختلف ویلکم اسٹالز تھے جو مختلف طلبہ تنظیموں نے نئے آنے والے طلبا و طالبات کی معاونت کے لئے لگائے ہوئے تھے اور اپنے اپنے انداز سے انہیں گویا رجھانے میں مصروف تھے۔

بنیادی طور پر وہاں دو ناموں کے اسٹالز اور خوش آمدیدی بینرز نظر آرہے تھے ایک جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ کا جسے حرف عام میں جمیعت بھی کہا جاتا تھا اور دوسری قسم تھی یو ایس ایم کے نام سے یعنی یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ جو جمیعت کے مقابلے میں دیگر طلبہ تنظیموں کا عملی اتحاد ہوا کرتا تھا۔ اچانک اس ماحول میں نعروں کی آوازیں جڑنی شروع ہو کر جنون کی کیفیت اختیار کر گئیں اور پھر اس جنون میں جڑنے لگی گولیوں کی آواز جو فوراً ہی باقاعدہ فائرنگ میں تبدیل ہوگئی اور اچانک منظرنامہ بدل گیا اور ہم بھی اسی بدحواسی اور افراتفری کا شکار ہو کر اندر لابی کی طرف بھاگے۔

کسی نے بتایا کہ اسٹالز پر کوئی جھگڑا شروع ہوا تھا جو اب باقاعدہ فائرنگ پر منتج ہوا ہے۔ لابی میں کوئی قدیر عابد نام کا طالب علم گولی کا شکار ہوا تھا اسے ایک طالب علم اپنی گود میں اٹھایا ہوا تھا اور اسے لے کر شاید ایڈمنسٹریشن بلاک کے سامنے کھڑی گاڑیوں کی طرف بھاگ رہا تھا اور ہم اسی بدحواسی میں بھاگتے ہوئے اکنامکس ڈپارٹمنٹ پہنچے ہی تھے کہ اچانک سامنے جرنلزم کی طرف سے آتے ہوئے لڑکوں کی ایک ٹولی نے فائرنگ کر دی اور ہمارے سامنے کوئی اپنی ٹانگ پکڑے کراہنے لگا۔ پتہ چلا گولی لگی ہے۔ برابر سے بھاگتے ہوئے سینیئرز کے گروپ سے کوئی چلایا ”ارے یہ تو حاصل بلوچ ہے!“ یہ حاصل کون ہے؟ مین نے برابر چھپے لڑکے سے پوچھا جواب ملا ”یو ایس ایم کا صدر حاصل بزنجو“ ۔ ہم کچھ دیر وہیں چھپے کھڑے رہے اور دیکھا کہ حاصل بزنجو کو کچھ لڑکے ساتھ لے گئے۔

دیوار کی آڑ میں ساتھ چھپی حالت میں بننے والے دوست نے بتایا کہ اس کا نام اظہرعباس ہے اور یہ کہ اس کا بڑا بھائی مظہرعباس بھی حاصل بزنجو کا دوست ہے۔ ”لیکن یار اظہر حاصل بزنجو اور لوگوں سے بہت بڑا نہیں ہے“ ؟ میں نے پوچھا۔ ”یہ گاؤں کے لوگ ہیں نا اسی لئے ہم شہری لوگوں سے بڑے لگتے ہیں“۔ اظہر نے اپنی دانست میں ہمیں مطمئن کیا لیکن برابر چلتے ہوئے یو ایس ایم کا بیج لگائے راؤ کلیم نے ہنستے ہوئے کہا ”ہم اس کو ایسے ہی تو ابا نہیں کہتے باس“ ۔ ”کچھ بھی کہتے ہو گے تمہارا ابا بچ گیا آج۔ ورنہ مر جاتا“ میں نے راؤ کلیم سے کہا جو میرے لئے اس وقت صرف یو ایس ایم کا ایک کارکن تھا بعد میں پتہ چلا وہ ہماری ہی کلاس میں ہے اور اس کا نام راؤ کلیم ہے۔

فائرنگ میں قدیر عابد جاں بحق ہوگیا تو میرا خیال تھا یو ایس ایم اب بدلہ لے گی کیونکہ ان کا سربراہ خود گاؤں کا ہے اور وہ گاؤں والے ہی کیا جو بدلہ نہ لیں۔ لیکن مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب ہماری ویلکم پارٹی میں حاصل نے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہم نظریاتی لوگ بدلہ لینے پر سماج بدلنے کو ترجیٍح دیتے ہیں۔ بدلہ لینا تو فیوڈل رویہ ہے۔ یہ وہ شخص کہ رہا تھا جو مر جاتا تو اس کے ساتھی کہتے“ ہمارا ابا مر گیا یار ”

لیکن میرے دل میں اس دن سے ایک نیا جذبہ زندہ ہوگیا۔ ابا کی تعظیم کا جذبہ۔ میں نے ڈی ایس ایف میں شمولیت اختیار کر لی جو کمیونسٹ پارٹی کا طلبہ فرنٹ تھا اور طلبہ اتحاد یو ایس ایم کا ایک سرگرم رکن بھی ابا چونکہ یو ایس ایم کا سربراہ تھا اس لئے ابا کے ساتھ خاصا وقت گزرتا۔ ابا کی سوچ کسی بھی قسم کے پارٹی شاؤنزم سے بالاتر تھی، خالص نظریاتی۔ اس کا مطالعہ خاصہ وسیع تھا اس پر اس کا نرم لہجہ۔ مشفقانہ طرزعمل اور سب کو جوڑ کر رکھنے اور ساتھ لے کر چلنے کی فطرت نے اسے ہردلعزیز بنا رکھا تھا۔

ہم نے لابی میں کیفے ٹیریا میں اسٹڈی سرکلز میں یہاں تک کہ ہاسٹل میں بھی اس سے نہ صرف پاکستان کی سماجی اور سیاسی جدلیات کا علم حاصل کیا بلکہ اس زمانے میں پاکستان کو درپیش سماجی او معاشی مسائل کے حل کے لئے کمیونسٹ پارٹی کے اس وقت کے بیانیے یعنی قومی جمہوری انقلاب پر اس کے ساتھ مل کر رائے عامہ بھی ہموار کی۔ پھر 1983ء کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی مدوجزر بڑھتا محسوس ہوا۔ ضیائی آمریت میں خود تعلیمی اداروں میں جمہوری رویے جاں بلب نظر آنے لگے تھے اور یقین نہیں تھا کہ بڑھتی ہوئی فسطائیت میں طلبہ یونینوں کے الیکشن ہو پائیں گے۔

پھر ہوا یوں کہ جمیعت کو نہ صرف گرین سگنل دے دیا گیا بلکہ انہیں الیکشن کی تاریخ تک بتائی جا چکی تھی لہٰزا درون خانہ ان کی تیاریاں عروج پر تھیں جبکہ ہمیں مکمل ہفتہ بھی نہ مل سکا۔ اچانک ایک دن ابا نے کہا کہ پیسے ہیں نہیں اور انتخابی مہم شروع کرنی ہے۔ کل تک پینل بھی اناؤنس کرنا ہے، تم لوگ ایک کام کرو ہاسٹل آجاؤ ہم وہاں کچھ ہینڈ میڈ پوسٹرز تو بنا لیں کیونکہ اول تو پوسٹرز چھپوانے کے پیسے نہیں ہیں اور اگر ہو بھی گئے تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔

لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ انجینیئرڈ الیکشنز کی طرف جا رہی ہے۔ کیونکہ جتنے بڑے ریسورس بینک کے ساتھ جمیعت لڑ رہی ہے ہم تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ ”تو پھر لڑنے کی کیا ضرورت ہے؟“ ہم نے کہا۔ ابا کے چہرے پر وہی دلنشین مسکراہٹ پھیل گئی اور آنکھوں میں وہی ذہانت جو اس کی پہچان تھی۔ اس نے کہا ”جو انہوں نے کرنا ہے، وہ کریں گے لیکن جتنا ہم کر سکتے ہیں، ہم اتنا تو کم از کم کر گزریں“ اور اس کے بعد وہی ہوا جس کے لئے پوری ریاستی مشینری لگائی گئی تھی یعنی جمیعت جیت گئی۔

اس عمل کے دوران میں نے ابا کے اندر ایک ہمہ جہت لیڈر دریافت کیا۔ الائنز کیسے سنبھالنا ہے۔ اتحادیوں کو ساتھ لے کر کیسے چلا جاتا ہے مشترکہ لائحہ عمل کیسے ترتیب دیا جاتا ہے۔ جمہوری عمل چلاتے رہنے کے لئے کم سے کم نکات پہ زیادہ سے زیادہ لوگ کن اصولوں پہ جوڑے جا سکتے ہیں۔ سماجی بہتری کے لئے راہ کیسے نکالی جاتی ہے اور حریف سے نظریاتی جنگ میں ایک دوسرے کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔

یہ سب طلبہ سیاست نے ابا سے سیکھا اور ایسے ملک میں جہاں بڑے سیاسی اتحاد تک ہفتوں بھی نہیں چل پاتے جب تک ابا طلبہ سیاست میں سرگرم رہا یو ایس ایم جیسا طلبہ اتحاد بھی قائم رہا جس میں وہ طلبہ تنظیمیں بھی شامل تھیں جو نظریاتی طور پر آگ اور پانی کی مانند تھیں اور جن کی مدر پولیٹیکل پارٹیز یا لسانی و مذہبی جمیعتیں اس ملک اور خصوصاً کراچی میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی نظر آتی تھیں۔

اگر کھلے دل سے دیکھا جائے تو شاید بحیثیت قوم ہم نے ابا کے خوبیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور اگر سیکھا بھی تو اپنی پارٹی مصلحتوں کے تلے اس سیاسی تربیت کو کہیں دبا دیا جو ابا اور اس جیسے بے لوث ذہین لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر دے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایم آرڈی موومنٹ وہ آخری سیاسی موومنٹ نظر آتی ہے جس کی کامیابی کی بڑی وجہ اس اتحاد میں شامل ابا جیسی سوچ اور سیاسی قد و کاٹھ کے رہنماؤں کی موجودگی تھی لیکن ایم آر ڈی کے بعد کم وبیش ہر سیاسی اتحاد اور تحریک کے نتیجے پر ابا کئی کئی بار مرا۔ ابا کو اچھی ظرح معلوم ہو چلا تھا کہ اس ملک میں سیاست کو بتدریج ایک کاروبار کی شکل دی جا رہی ہے اور اس میں عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے نادیدہ قوتیں کیا کرتی ہیں اس کی حالیہ مثال چیئرمین سینیٹ کے گزشتہ انتخابی نتیجے پر ابا کی آخری تقریر تھی جس میں رندھے ہوئے گلے سے ابا نے ببانگ دہل کہا:

” میں سمجھتا ہوں آج پارلیمنٹ ہار چکا ہے۔ آج عملی طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بالادست طاقتیں آج پارلیمنٹ سے زیادہ بالادست ہیں۔ آج بالادست طبقے جیتے ہیں۔ آج پارلیمنٹ جیت جاتا اگر رضا ربانی کو آپ چیئرمین بناتے۔ آج مجھے شرم آتی ہے یہاں بیٹھتے ہوئے۔“

لیکن ہمیں شرم نہ آئی اور ابا کو اپنی پارلیمانی بے بسی کا گھن کھاتا چلا گیا۔ ابا کینسر کا مریض تھا وہ اس سے بھی لڑ رہا تھا۔ اس کا بیٹا، اس کے ایک ایک دوست سب کو یقین تھا اب وہ نہیں بچنے والا لیکن ہم نے اسے ہمیشہ ہنستے دیکھا۔ خدا کی قسم ہمارا ابا ہارنے والا نہیں تھا۔ وہ تو خود کہا کرتا تھا ”انہیں جو کرنا ہے وہ کریں گے لیکن ہم کم از کم وہ تو کریں جو ہم کر سکتے ہیں“ ۔ اس کو کسی کا خوف نہیں تھا ہمارے ابا نے پارلیمنٹ میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا ”ایک ہی تو جان ہے وہ لیں یا خدا لے“ لیکن کیا کیا ہم نے؟ اس کی پوری زندگی کی اخلاقی، سیاسی اور پارلیمانی جدوجہد سے آنکھیں پھیر لیں اور اسے ایسی محرومی کا شکار کر دیا جیسے ہارے لشکر کا ہو تنہا ایک سوار۔

اور کل ہمارا ابا بالآخر مر گیا!

میں جس وقت اپنی تحریر ختم کر رہا ہوں تقریباً اسی وقت مجھے یقین ہے کہ ابا نے اپنے آبائی علاقے نال میں اپنے لوگوں سے آنکھیں تو نہیں پھیری ہوں گی البتہ ہمیشہ کے لئے اپنا منہ پھیر لیا ہوگا جیسے کہ رہا ہو:

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).