میر حاصل بزنجو: خداحافظ!


بلوچستان ایک بڑے قوم پرست رہنما سے محروم ہو گیا۔ ایک روشن چراغ بجھ گیا!

پاکستان کی سیاست میں میر حاصل بزنجو کا شمارچند ایسے سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے داتی مفادات کی خاظر کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اصولوں کی خاطر ڈتے رہے۔ قوم پرستی اور مفاہمت کی سیاست کرنے والے میر حاصل بزنجو بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو کے منجھلے بیٹے تھے۔ میر حاصل بزنجو نے بلوچستان کے ضلع خضدار کے گاؤں نال میں مقیم بزنجو کے سردار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد میر غوث بخش بزنجو قوم پرست رہنما تھے اور تقسیم سے قبل ریاست قلات کی سیاسی جماعت ”رستمان گل“ کے سربراہ کی حیثیت سے سیاست میں متحرک رہے اورتقسیم کے بعد جب بلوچستان پاکستان میں ضم ہوا تو ان کے والد نے اپنی سیاسی جماعت کا نام تبدیل کرکے ”قلات نیشنل پارٹی“ رکھ دیا اور بعدازاں بلوچستان کے پہلے سویلینگورنر منتخب ہوئے اور تا دم مرگ بلوچستان کی عوام کے حقوق اور محرومیوں کے لئے سراپا احتجاج رہے۔

میر غوث بخش بزنجو 1989 ءکو دنیا فانی سے رخصت ہوئے تو سیاسی وراثت کو ان کے بڑے بیٹے بزن بزنجو نے کاندھا دیا اور 1990 ءمیں بلوچستان سے دو نشستوں پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے لیکن بزن بزنجو صرف ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتے تھے اس لئے دوسری نشست سے ضمنی انتخابات میں میر حاصل بزنجو پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

اس سے قبل میر حاصل بزنجو 70 ء کی دہائی سے بائیں بازو کی طلبہ تحریکوں میں خاصے متحرک رہے اور 1985 ء کی ”تحریک بحالی جمہوریت“ میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ 1996 ءمیں اپنے بڑے بھائی بزن بزنجو کی سیاست سے کنارہ کشی کے بعد ”پاکستان نیشنل پارٹی“ کے صدر منتخب ہوئے اور 1997 میں ایک بار پھر اسی نشت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس دوران حاصل بزنجو نے کئی سیاسی جماعتیں تبدیل کی اور بعدازاں 1998 ء میں بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد ررکھی جسے 2003ء میں ڈاکٹر عبدالمالک کی بی این پی کے ساتھ ضم کر کے ایک نئی جماعت ”نیشنل پارٹی“ کی بنیاد رکھی۔

2009 ءمیں ”نیشنل پارٹی“ کے ٹکٹ پر دیگر جماعتوں کی حمایت سے سینیٹر منتخب ہوئے اور 2013 ءکے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حمایت سے بلوچستان میں مخلوط حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے، جس میں دونوں جماعتوں کے درمیان طے پایا کہ ڈھائی سال ”نیشنل پارٹی“ اور ڈھائی سال ”مسلم لیگ ن“ بلوچستان میں حکومت کرے گی لیکن اس دوران جہاں ”نیشنل پارٹی“ تقسیم ہوئی اور ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنا علیحدہ گروپ تشکیل دیا وہیں 2017ء میں ”مسلم لیگ ن“ کی بلوچستان حکومت کو ”پیپلزپارٹی“ اور دیگر عناصر نے چلتا کیا۔

اس دوران میر حاصل بزنجو 2015 ء میں ”نیشنل پارٹی“ کے ٹکٹ پرایک بار بھر سینیٹر منتخب ہوئے اور 2015 ءمیں ہی شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے بحری امور کے طور پر فرائض انجام دیے۔

2018 ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل وجود میں آئی ”بلوچستان عوامی پارٹی“ نے 2018 ء کے عام انتخابات میں بلوچستان سے کامیابی سمیٹی تو حاصل بزنجو نے انتخانات کے نتائج کو پولیٹیکل انجئیرنگ قرار دیا اور انتخابات کے نتائج سے مایوس دیگر اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ حکومت کے خلاف گرینڈ الائس کا حصہ بن گئے، اسی کے چلتے 2019 ء میں ا پوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور حاصل بزنجو کو چیئرمین کے عہدے کے لیے اپنا متفقہ امیدوار نامزد کیا۔

اپوزیشن کی جماعتوں کی اعوان میں اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی کے خلاف یہ تحریک غیر متوقع طور پر ناکام رہی۔ ناکامی کے بعد حاصل بزنجو نے الزام عائد کیا کہ ”ایوان سے بھی بڑی کسی طاقت نے چیئرمین سینٹ کا انتخاب کیا ہے“ ۔ (یاد رہے کہ پیپلز پارٹی نے 2015 ء میں جہاں صادق سنجرانی کو چئیرمین سینیٹ منتخب کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا وہیں 2019 ء میں صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں بھی پیش پیش رہی)

آج سے تین چار برس قبل بڑے بھائی عبداللہ دائیو کی بدولت میر حاصل بزنجو سے شناسائی ہوئی اور ٹیلی فون کے ذریعے گاہے بگاہے ان سے رابطے میں رہا اور جب بھی ان سے بات ہوئی تو بہت مدلل اور دلیل کے ساتھ بات کرنے والا سیاست دان پایا، ہمیشہ اپنی گفتگو کے دوران کہیں نہ کہیں بلوچستان کی عوام کی محرومیوں کا ذکر ہمیشہ کرتے تھے۔ لیکن ان سے کبھی براہ راست ملاقات نہ ہو سکی اور میں اسے اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ کئی بار ملاقات طے پانے کے باوجود بھی کچھ ایسے سامان پیدا ہوئے کہ نا چاہتے ہوئے بھی میں میر حاصل بزنجو سے ملاقات اور ان کی مہمان نوازی سے محروم رہا۔ گزشتہ شب میر حاصل بزنجو کی رحلت کی خبر موصول ہوئی تو ایک عجیب سی کیفیت کا شکار ہو گیا۔ یوں معلوم ہوا جیسے کسی نے دل پر بھاری پتھر رکھ دیا ہو اور میرا جسم اس پتھر کا بوجھ اٹھانے کا کفیل نا ہو۔۔۔ مجھے آخر ی بار میر حاصل بزنجو سے ٹیلی فون پرکی گفتگو اور ان کی مبہم مسکراہٹ شدت سے یاد آنے لگی۔

میر حاصل بزنجو پاکستان میں جہاں روشن خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کے لئے ایک تازہ ہوا تھے وہیں بلوچستان کی عوام کے لئے ایک مضبوط آواز تھے۔ ان کی یوں اچانک چلے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا اور ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).