سوشل میڈیا کے بارے میں تلخ حقیقت


بہت سال پہلے جب فیکٹریاں نہیں تھیں، چیزوں کو گھر پر بنایا جاتا تھا ہینڈ ٹولز استعمال ہوتے تھے یا پھر چھوٹی موٹی مشینیں استعمال ہوتی تھیں۔ کوئی بڑا کاروبار نہیں تھا، کوئی بڑی فیکٹریاں نہیں تھیں۔ پھر صنعتی انقلاب آیا اور اچانک سے سب بدل گیا فیکٹریاں بننا شروع ہوگئیں اشیا کی پیداوار وسیع پیمانے پر ہونے لگی۔ جو لوگ گھروں یا کھیتوں پر کام کر رہے تھے ان کو فیکٹریوں میں لایا گیا اور اس وقت جو لوگ لوگ مالدار تھے جن کے پاس دولت تھی انھوں نے ان فیکٹریوں میں اپنا پیسا لگایا، فیکٹریوں کو کھڑا کیا، مشینری خریدی، جدید آلات خریدے اور ان ورکرز کو کام پر لگا دیا لیکن ان کے ساتھ بہت ناروا سلوک اختیار کیا جاتا تھا۔ ان کی تنخواہ بہت کم تھی، کام کا دورانیہ بہت زیادہ تھا، کام کرنے کی جگہ اور ماحول غیرموزوں تھا اور کبھی کبھی ان فیکٹریوں میں کام کرتے کرتے لوگوں کی موت واقع ہو جاتی تھی۔

اگر میں اس کو ایک لائن میں بیان کرنا چاہوں تو کچھ امیر لوگ مل کر ان ورکرز کا فائدہ اٹھاتے تھے۔

اور یہ تب کی بات تھی۔ آج 2020 ہے زمانہ الگ ہے سوچ الگ ہے قوانین الگ ہیں اور ہاں اگر آپ دھیان دیں تو فیکٹریاں بھی الگ ہیں۔

کل چیزوں کی فیکٹریز کا بول بالا تھا، سامان کی پیداوار وسیع پیمانے پر ہوتی تھی مگر آج، آج انفارمیشن (معلومات) کی فیکٹریز ہیں۔ ڈیٹا کی پیداوار وسیع پیمانے پر ہوتی ہے حالانکہ ورکرز عام آدمی ہی ہیں تب بھی تھے اور آج بھی ہیں اور جہاں تک ورک کنڈیشن کی بات ہے تو وہ اتنی بری نہیں ہے۔

لیکن ایک فرق جو کل اور آج میں ہے وہ یہ کہ کل ورکرز کو ان کی محنت کے لیے نوازا جاتا تھا انھیں کم ہی سہی مگر تنخواہ دی جاتی تھی۔ لیکن آج کے ورکرز کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ جی ہاں کچھ نہیں۔

تو یہ آ ج کے ورکرز کون ہیں؟ یہ ڈیٹا اور انفارمیشن کی فیکٹریز کہاں ہیں؟

ورکرز ہیں ہم اور آپ اور یہ ڈیٹا فیکٹریز ہیں وہ ساری ویب سائٹس جو ہمارا ڈیٹا جمع کرتی ہیں، جہاں ہم اپنی مرضی سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔ عموماً تمام سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ڈیٹا فیکٹریز ہیں۔

ایک بات سمجھنے کی کوشش کریں

فیس بک ایک ڈیٹا فیکٹری ہے۔ اس کا اثاثہ ہے ہمارا ڈیٹا، ہماری معلومات۔ کیونکہ ہمارے ڈیٹا کے ذریعے وہ ٹارگٹڈ اشتہاروں کی تشہیر کرتی ہے اور ہمارا ڈیٹا تھرڈ پارٹی کو بیچتی ہے۔ حتٰی کہ آنے والے آرٹیفیشل انٹیلجینس کے دور میں، میں کون ہوں؟ یہ مجھ سے زیادہ آرٹیفیشل انٹیلجینس کو پتا ہوگا۔ اور یہ تب پتا ہوگا جب اس کے پاس میرا کافی ڈیٹا ہو میری سوچ سے لے کر میری ہر ایک پسند، ناپسند کے بارے میں وہ جانتا ہو۔ اگر آرٹیفیشل انٹیلجینس کے پاس کافی ڈیٹا ہو تو یہ ننانوے فیصد درستگی کے ساتھ اس بات کی پیشن گوئی کر سکتا ہے کہ اگلے ہی لمحے آپ کیا کرنے والے ہو۔

اور اگر کمرشل نظریے سے دیکھا جائے تو یہ کافی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر کسی کو یہ پتا ہے کہ میں اگلے لمحے کیا کرنے والا ہوں تو وہ اسی کے مطابق مجھے کچھ بیچ بھی سکتا ہے۔ اس لیے صرف فیس بک اور دیگر سوشل سائٹس ہی نہیں سب بڑی کارپوریشنز کے لیے ڈیٹا بہت ہی اہم ہے ایمیزون، گوگل، مائیکرو سافٹ، انسٹاگرام سب کے لیے۔

تو فیس بک انہیں میں سے ایک ہے ایک ڈیٹا فیکٹری جس کا اثاثہ ہے ہماری معلومات، ہمارا ڈیٹا اور صنعتی دور کی طرح یہاں بھی کچھ امیر لوگوں نے پیسہ لگا رکھا ہے جنہیں ہم شیئر ہولڈرز کہتے ہیں اور فیس بک کی اولین ترجیح نہ ہم لوگ ہیں جو اس کو استعمال کرتے ہیں اور نہ وہ لوگ جو فیس بک میں کام کرتے ہیں اس کی اولین ترجیح اس کے شیئر ہولڈرز یا تشہیر کرنے والے ہیں اور فیس بک ڈیٹا فیکٹری کا جو ٹول ہے، جو مشین ہے انہوں نے ہم سب کے ہاتھوں میں تھما دیا ہے۔ فیس بک ایپ۔ اس ٹول کے ذریعے ہم فیس بک کے لیے کونٹنٹ / مواد بناتے ہیں۔

ہم سب فیس بک کے لیے کام کر رہے ہیں کچھ لوگ تو اوور ٹائم بھی کرتے ہیں۔

انسٹاگرام ایک تصاویر شیئر کرنے والی ایپ نہیں یہ وہ ایپ ہے جس نے آپ کو ایک فوٹو گرافر کی نوکری دے رکھی ہے۔ لوگ ایک تصویر کے لیے بیس بیس بار کلک کرتے ہیں، دس بار فلٹر بدلتے ہیں، سارے کومینٹس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ ایک فل ٹائم جاب ہے اور لوگ اسے پورے دل سے کرتے ہیں۔ طالب علم اس کو اپنی تعلیم داؤ پر لگا کر کرتے ہیں، کچھ لوگ اپنی ذہنی صحت کو اس کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اپنی سوشل میڈیا پروفائل کو اپنی شناخت مانتے ہیں اور ہم اپنی پوسٹس اور اپلوڈز کے بارے میں خاصے فکر مند رہتے ہیں۔

اس تمام جدوجہد کے بعد، اتنی محنت کرنے کے بعد ہمیں کیا ملتا ہے؟

کچھ لائکس، کچھ کومینٹس اور ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ٹائم لائن جسے ہم فری میں اوپر نیچے کر سکتے ہیں اور ہم ہمیشہ سکرول ہی تو کرتے ہیں اور ہم سب مجموعی طور پر دن رات ان سوشل میڈیا سائٹس کے لیے کام کرتے ہیں۔ کونٹنٹ بنا کر ہم ان کو بلینز آف ڈالرز کمانے میں مدد کرتے ہیں۔

انسانیت کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا اتنی زیادہ دولت صرف چند گنے چنے لوگوں کے ہاتھوں میں رہی ہو۔

میں یہ نہیں کہتا کے فیس بک پوری کی پوری غلط ہے یا پھر ہمیں ان سائٹس کو استعمال ہی نہیں کرنا چاہیے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم وسیع نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ سب ڈیٹا فیکٹریز ہیں اور ہم ان کے ورکرز اور کہیں ہم اپنے دوسرے اہم معمولات زندگی کی قربانی دے کر ان فیکٹریز میں اوور ٹائم تو نہیں کر رہے جو مستقبل میں ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).