کیا واقعی بحران ختم ہو چکے ہیں؟


پچھلے تین چار دنوں سے دو درجن بھر وزراء ہر روز ٹی وی پہ آکر گھنٹوں عوام کو یہ یقین دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ ان کے کپتان اپنی دو سالہ مثالی حکومتی کارکردگی کے تسلسل کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ جو تھوڑی بہت مشکلات درپیش تھیں وہ بھی ختم ہو گئی ہیں اور اب کپتان لمبی انگ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ لمبی انگ کھیلنے کی بونگی اس وزیر نے ماری جو کہ کپتان کی ٹیم کا اوپننگ بیٹسمین تھا اور شروع میں ہی ہک شاٹ کھیلنے کی کوشش میں زخمی ہو کر ریٹائرڈ ہرٹ ہو گیا اور پھر کچھ عرصے بعد صحتیاب ہوکر پھر کریز پہ آ چکا ہے۔

ایک اور وزیر نے فرمایا خان نہ خود کھاتا ہے نہ ہی کسی کو کھانے دیتا ہے۔ ایک نے فرمایا ہم سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں مگر مجموعی طور پر حالات ٹھیک ہیں، ہم مہنگائی اور بیروزگاری پہ واقعی کنٹرول نہیں کر سکے مگر اب سب بہتر ہو رہا ہے، ایک وزیر جھوٹے اور غلط اعداد و شمار کے ذریعے عوام کو ماموں بنانے کی کوشش کرتا رہا، غرض یہ کہ یہ دو درجن سے زائد وزراء پچھلے تین دن سے ٹی وی چینلوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں تاکہ عوام کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ حکومت کی کارکردگی دو سال میں بہت بہتر رہی ہے اور اس میں مزید بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔

بحران آہستہ آہستہ کپتان کی مثالی کپتانی میں ختم ہوتے جا رہے ہیں، کپتان مین آف کرائسس ہیں اور وہ بحرانوں پہ قابو پا لیں گے، کپتان خود بھلے ہی نہ کھاتا ہو مگر انہوں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں بیٹھے فرشتوں کو کھانے سے بالکل نہیں روکا، ان کا ایک ٹائیگرعوام کو چینی میں تین سؤ ارب کا چونا لگا کر لندن چلا گیا، ایک وزیر با تدبیر نے دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دے کر اربوں اپنی جیب میں ڈالے اور پھر وزارت چھوڑ کر پارٹی کا اہم عہدہ سنبھال لیا جبکہ دوسرے نے انڈیا سے دوائیاں منگوا کر اپنی معاون خصوصیت سے تو ہاتھ دھو لیے مگر کلین چٹ لے کر عوام کے کئی سؤ کروڑ جیب میں ڈال کر بیرون ملک سدھار لیے ، آٹے چینی، پیٹرول، آئی پی پیز، سمیت بی آر ٹی، بلین ٹری، مالم جبہ منصوبہ میں کھربوں کسی اور نے نہیں کپتان کے ساتھیوں نے ہڑپ کیے ہیں، کپتان خود نہیں کھاتا نہ ہی اپنے کھانے کمانے والے ساتھیوں پہ بھی کسی کو ہاتھ ڈالنے دیتا ہے، چاہے اس کے لیے انہیں عدالتوں سے اسٹے آرڈر ہی کیوں نہ لینا پڑیں۔ کپتان کی ٹیم آج بھی یہی سمجھ رہی ہے کہ خان صاحب کسی کرکٹ گراؤنڈ میں کسی ٹیسٹ میچ کی کپتانی کر رہے ہیں اور پہلی اننگ کا خسارہ اپنی کپتان اننگز کے ذریعے دوسری اننگ میں پورا کر دیں گے۔

عمران خان صاحب اور ان کے رفقاء کار کی نادانیاں، کرپشن، ناقص کارکردگی، اور غیر سیاسی حرکتیں ان کی حکومت کو دو سال میں آسمان کی بلندیوں سے زمین کی سطح پر لے آئی ہیں بس اب زمین بوس کرنا باقی ہے اور اگر یہی لچھن رہے تو زمین بوس ہونے میں بھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ خان صاحب کی طرز حکمرانی سے یہ بالکل بھی نہیں لگتا کہ ان کو گزرے دو سالوں میں کبھی یہ احساس بھی ہوا ہو کہ وہ اب کنٹینر پر نہیں بلکہ مسند اقتدار پر ہیں، انہوں نے ذہن میں میں ایک بیانیہ بنا لیا تھا کہ سیاسی مخالفین کو نہیں چھوڑنا اور وہ اسی پہ قائم ہیں، ان کی اسی ضد ہٹ دھرمی نے غیر سیاسی، غیر سنجیدہ اور غیر لچکدار رویوں نے آج پاکستان کو بحرانوں کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ ان کے وزراء فرماتے ہیں کہ خان صاحب اب لمبی اننگ کھیلنے کے لیے تیار ہیں حالانکہ خان صاحب نے اپنے پورے ٹیسٹ کیریئر میں کبھی لمبی اننگ نہیں کھیلی نہ ہی وہ کوئی زیادہ اچھے بیٹسمین تھے وہ ایک آل راؤنڈر تھے اور انہوں نے اپنے 88 ٹیسٹ میچز کے کیریئر میں صرف 3807 رنز اسکور کیے جس میں چھ سینچریاں بنائیں جبکہ بولنگ ان کی بہتر تھی جس میں انہوں نے 362 وکٹیں حاصل کیں، اگر بدقسمتی سے پاکستان کے لیے واحد ورلڈکپ ٹیم نے ان کی قیادت میں نہ جیتا ہوتا تو آج پاکستان کے عوام شاید اس عذاب اس کرب و مشکل حالات سے دوچار نہ ہوتے جن سے آج وہ ان کی سیاسی کپتانی میں دوچار ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی خارجہ پالیسی پہ ان کی ڈریم ٹیم کی اہم رکن وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے جو فرمایا وہ دراصل ایک ایسا آئینہ ہے جو خان صاحب دیکھنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ اس آئینے میں ان کی بدترین طرز حکمرانی اور انتہائی ناکام خارجہ پالیسی کی شکل بہت واضح نظر آتی ہے، خان صاحب سب بہترین ہے، سب خوش ہیں اور سب کچھ کنٹرول میں ہے سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جو انہیں ان کے خوشامدی غیر منتخب معاونین و مشیران بتا اور دکھا رہے ہیں، انہیں ملک میں دو گنی سے زیادہ ہوتی مہنگائی نظر نہیں آتی، انہیں ڈالرکی تیزی سے بڑھتی قیمت نظر نہیں آتی جس پہ وہ فرماتے تھے کہ ڈالر پہ ایک روپیہ بڑھے تو سمجھ لو کہ وزیراعظم چور ہے، انہیں پیٹرول، بجلی، گیس آٹے چینی، دالوں، کھانے کے تیل، مقامی طور پہ پیدا ہونے والی سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا بھی نظر نہیں آتا، مگر انہیں عوام کو یہ یاد دلانا کہ گھبرانا بالکل نہیں کبھی نہیں بھولتا، کیونکہ اگر یہاں چین و سکون نہیں ملا تو، قبر تو ہے ہی وہاں سکون ہی سکون ہے، اگر بحران ٹل گئے کپتان لمبی اننگ کھیل گئے تو زندگی میں ہی سکون کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی ورنہ موت کے بعد، جو مہنگائی بیروزگاری، بدحالی بھوک کی وجہ سے خودکشیوں کے نتیجے میں ملنی ہے سکون بلآخر ملنا ہی ملنا ہے۔

خان صاحب کی دو سالہ حکومت میں میڈیا کی آزادی سلب ہو چکی، پاکستان میڈیا کی آزادی کے لحاظ سے بدترین ممالک کی فہرست میں بہت سے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم ”رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اب صرف حکومتی تشہیر کے لیے آزاد ملک رہ گیا ہے، میڈیا کی آزادی آمرانہ دور سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا کر رہی ہے، انسانی اور شہری حقوق کی حالت یہ ہے کہ دن دھاڑے نامعلوم افراد پاکستانی شہریوں کو اسی طرح اغوا کرکے غائب کر دیتے ہیں جس طرح مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی فوج کشمیریوں کو کرتی ہے اور بعد میں یا تو بدترین تشدد کرکے انہیں کسی سڑک کنارے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر قتل کرکے پھینک دیا جاتا یا پھر سرے سے گم ہی کر دیا جاتا ہے۔

بلوچستان کے حیات بلوچ کی ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں وحشیانہ موت، سندھ و بلوچستان کے سیکڑوں افراد کی جبری گمشدگیوں کے تیزی سے بڑھتے واقعات نے خان صاحب کی کپتانی کی لمبی اننگ پہ سوالیہ نشان لگا دیا ہے، مطلب یہ کہ خان صاحب کی دو سالہ حکومتی کارکردگی میں شدید تر ہوتے بحران ان کے وزراء کی فوج کی پریس کانفرنسوں سے ٹلنے والے نہیں لگتے بلکہ آئندہ دنوں میں مزید شدید سے شدید تر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).