ظلم دیکھ کر خاموش رہنے والوں کے نام


اس ابلاغ کے طوفان نے ہم سے ہماری اقدار، اخلاق، روایات یہاں تک کہ ہمارا نظریہ یا نقطہ نظر تک چھین لیا ہے، آج ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ کسی سانحہ، کسی واقعہ کسی المیہ پر ہم نے کیا ردعمل دینا ہے بلکہ ہم لاشعوری طور تقلید اور تعمیل کر رہے ہوتے ہیں ہیں اس عفریت کی جو آزاد میڈیا یا آزادی اظہار کے نام پر ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ جو مسلسل ہمارے عوام کی ذہن سازی کرتا ہے۔ جو ہماری سوچ کو ہمارے افکار کو مسلسل محدود کرنے میں لگا ہے، جس نے سرخ، سبز اور پیلی سرحدیں متعین کر رکھی ہیں ہماری سوچ کی، جس نے ہمیں ذہنی غلام بنا رکھا ہے، جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ یہاں تک سوچنا مناسب ہے، اس سے آگے سوچو گے تو گستاخ کہلاؤ گے، اس نشان سے آگے بات کرو گے تو قوم پرست شمار کیے جاؤ گے اور اگر نشان سے آگے سوال کرنے کی جرات کر دی تو تم ملک دشمن ثابت ہو چکے ہو،

مجھے بتائیے کہ کوئی سرکاری اہلکار بغیر کسی ثبوت و مقدمہ بغیر کسی جرم و سزا بغیر کسی اشتعال انگیزی کے کسی بلوچ لڑکے کو اس کے بوڑھے ماں باپ کے سامنے گولیاں مار کر شہید کر دیتا ہے اور ہم حدود و قیود میں رہ کر سوچنے والے، ہم میڈیا کی ذہن ساز فیکٹری میں تیار ہونے والے بونے لوگ کیا ردعمل دیتے ہیں کہ جی آخر کچھ تو کیا ہوگا، جب ہی تو مارا۔ ہمیں کیوں نہیں کوئی مارتا۔ تو صاحب جمع خاطر رکھیے یوں ہی چلتا رہا تو آپ یا آپ کے بچے کا نمبر بھی جلد ہی آ جائے گا۔

دوسرے نمبر پر آتے ہیں مجھ جیسے بزعم خود فلاسفر قسم کے لوگ جو بڑی سنجیدہ سی شکل بنا کر اور سگریٹ کا دھواں اگل کر ایک موٹا سا رٹا رٹایا مذمتی حملہ ادا کر دیں گے اور بس ان کا فرض ادا ہوا۔

تیسری قسم ہے ان لوگوں کی جن کی دل واقعی دکھتے ہیں جو سانحہ ساہیوال پر بھی روئے ہوں گے جن کو بارہ مئی کو بھی نیند نہیں آئی ہوگی جو ماڈل ٹاؤن واقعہ پر بھی بولائے بولائے پھرتے ہوں گے اور ہر حیات کا چراغ حیات گل ہونے پر ان کا دل خون رویا ہوگا مگر وہ سوائے اندر ہی اندر جلنے کی کچھ نہیں کر پاتے۔

میرے مخاطب وہی لوگ ہیں اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا اب بس کیجئے اور اپنے منہ سے چپ کا نقاب اتار پھنکیے۔

مجھے پتا ہے کہ آپ افواج پاکستان سے محبت کرتے ہیں، مجھے پتا ہے کہ آپ ارض پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ آپ اساس پاکستان اور اس کی سلامتی اور وحدت کے لئے فکرمند رہتے ہیں مجھے پتا ہے کہ ملک میں امن اور استحکام برقرار رکھنے کے لئے چپ رہتے ہیں مگر۔۔۔ کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ یوں چپ رہ کر کڑھتے رہنے سے آپ ملک کا بھلا کر رہے ہیں؟

یا یہ کہ ایسا کرنے سے چیزیں بہتر ہو جائیں گی تو مؤدبانہ عرض ہے کہ اپنا سر ریت سے باہر نکالیے اور سوال کرنا شروع کیجئے۔ بولنا شروع کیجئے پوچھنا شروع کیجئے کیوں کہ یہ آپ ہی لوگ ہیں جو توازن برقرار رکھتے ہو ئے ان عوامل کا محاسبہ بھی کر سکتے ہیں اور وہ ماں جو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئےپکار رہی تھی کہ یا اللٰہ انہوں نے میرے سامنے میرے بیٹے کو مار دیا۔ یا اللٰہ تو دیکھ رہا ہے تو انصاف کر۔ اس ماں کے درد کا درماں بھی ہو سکتا ہے۔

ورنہ یاد رکھیے کہ خدا تو دیکھ ہی رہا ہے اور وہ آپ کے بغیر بھی انصاف قائم کرنے پر اتنا ہی قادر ہے تو کہیں ایسا نا ہو کہ جب وہ انصاف قائم کرے تو ظلم دیکھ کر چپ رہنے والوں کو بھی ظالموں کی فہرست میں شامل کر لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).