خوابوں والی گلی کے قصے


میرے بچپن میں جب بندر اور ریچھ کا تماشا دکھانے والا مداری آتا، سپیرا اپنے سانپوں کی پٹاری لئے محلے میں داخل ہوتا تو مجھ سمیت گلی کے سب بچے اپنی مائوں سے جیب خرچ لے کر آ وارد ہوتے اور تماشا دکھانے والے کے گرد ایک حصار بنا لیتے۔ محلے کی بڑی بوڑھیاں اپنی اپنی پیڑھیوں پر بیٹھی یہ پورا منظر دیکھ رہی ہوتیں۔ بچے پلک جھپکے بغیر بندر کے آٹا گوندھنے، ریچھ کے سسرال جانے اور سانپ کے پھنکارنے کو دیکھتے جاتے اور جب تماشا ختم ہوجاتا تو اپنا جیب خرچ مداری گر کے حوالے کر کے گھروں کو لوٹ آتے۔ پھر ایک وقت آیا، جب مائیں اپنے بچوں کو تماشا دیکھنے کے لئے گھروں سے ہی نکلنے نہ دیتیں اور بچے اپنی کھڑکیوں سے باہر تاکتے رہ جاتے۔ ان مائوں کو ڈر تھا کہ یہ مداری ان کے بچوں کو اغوا کر کے کہیں اُڑا نہ لے جائیں۔ اس کے بعد المیہ یہ ہوا کہ مداری نے تماشا دکھانا ہی چھوڑ دیا۔ بندر، ریچھ بیچ دیئے یا بھوکے مر گئے اور وہ خود پیٹ بھرنے کے لئے مزدوری پر جانے لگا۔ نتیجے کے طور پر ہمارے بچوں کے پاس بندروں، ریچھوں، سانپوں کی من گھڑت کہانیوں کی جگہ کارٹونز نے لے لی۔

میری گلی میں ایک نیوز چینل بھی تھا، جہاں سے محلے کی سب خبریں نشر ہوتی تھیں اور اُن کے پاس وقوع پذیر ہونے والے ہر واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اپنی آنکھ کی صورت محفوظ ہوتی تھی۔ حادثہ دن کو پیش آئے، رات کو یا تپتی دوپہر میں۔ آنٹی بانو، آنٹی بیداں کی آنکھ سے اوجھل نہ ہو سکتا تھا۔ ان دونوں بہنوں کی اولادیں تو تھیں نہیں، اس لئے صبح سویرے ہی گھر کے سارے کام کاج کرکے اپنے دروازے کے آگے آ بیٹھتیں۔ رفتہ رفتہ گلی کی ساری بوڑھیاں ہاتھ میں کروشیا لئے اُن کے اردگرد جمع ہونے لگتیں اور پھر گلی میں ایک چارپائی بچھ جاتی۔ اس چارپائی پر ہیڈ لائنز نشر کی جاتیں، جو شام تک محلے کے ہر گھر میں نفوذ کر چکی ہوتیں۔

گلی میں چلنے والی عاشقیاں، آنکھ مٹکے، کسی گھر میں مہمانوں کا آنا، رشتہ کرانے والی کے اِدھر سے اُدھر پھیرے، غرض انہیں سب معلوم تھا۔ بس آپ کو ان کا درست بٹن دبانا تھا۔ ہماری گلی کی سیکورٹی گارڈ بھی یہی دو بہنیں تھیں۔ کوئی بھی ایرا غیرا ان کی نظروں سے بچ کر گلی سے کیسے گزر سکتا تھا۔۔۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی کرداروں کی چاشنی سے خوبصورت ہائوسنگ سوسائٹیز میں آنکھ کھولنے والے محروم ہی رہے۔ جدید مشینی زندگی نے فرد کو فرد سے اتنا دور کر دیا کہ ہم لوگ اپنے گھروں میں قیدی بن کر رہ گئے اور پھیری لگا کر سبزی بیچنے والوں، حتیٰ کہ چوڑیاں چڑھانے والے کرداروں سے بھی لطف نہ اٹھا سکے۔

جن پڑھنے والوں کی یادداشت میں ایسے کردار نہیں بستے یا جو پڑھنے والے ان کرداروں کو پھر سے جینا چاہتے ہیں، میرا ان دونوں کو مشورہ ہے کہ وہ محمود احمد قاضی کے افسانوی مجموعے ’’خواب گلی‘‘ کا مطالعہ کر لیں۔ گلی کا ہر ہر کردار اُن کی سوچ میں تعمیر ہو کر اُنہیں اپنی ذات کا حصہ بنتا محسوس ہو گا۔ محبتیں پروان چڑھانے والی اس گلی میں محبت کی پتنگ کٹتی بھی دکھائی دے گی، محلے کے جماندرو (پیدائشی) چاچا، ماما گلی کے وسط میں اپنا جہازی سائز منجھا بچھائے حقہ پیتے ملیں گے، جن کے پاس گلی میں پیدا ہونے اور مرنے والے ہر شخص کا حساب ہو گا، سوائے اپنے حساب کے۔ کسی تھڑے پر بیٹھی بڑھیا کے سفید بال، کسی وجود کا گھنگھورا، منّی سی گڑیا کی مسکراہٹ، بچوں کی قُلقاریاں، تھکی تھکی چوڑیوں کی کھنک، کھڑکی کے دوسری طرف کوئی زور کا قہقہہ، کبھی کبھار کی بھری ہوئی آہ، یہ سب چیزیں آپ کو اپنی طرف متوجہ کریں گی اور آپ کے کان ٹوہ لینے کے لئے چستی سے کھڑے ہو جائیں گے۔

رانی بین کرنے والی سے لے کر بشیر گولا گنڈا والے کا کردار، محمد دین تُونبے والا، شادی بیگم کا کردار، پوری گلی کے خوابوں کا محافظ، زنجیر ولا کا اکلاپے کا شکار رہائشی، کبوتر باز آدمی، گھر گھر میں کام کر کے گھس جانے والی عورت، شوہر کے مر جانے کے بعد گھر میں قید  چیختی چلاتی کھڑکی کی سلاخوں سے سر ٹکراتی خوبصورت لڑکی، طلاق یافتہ دو بہنوں کا اکیلے گھر میں رہتے ہوئے ایک رات ایک دوسرے کے اوپر برہنہ حالت میں پایا جانا اور خود گلی کے آسن میں لیٹی ہوئی مٹی کا اپنا کردار ۔۔۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے یہ سب کردار آپ کو اپنے لگیں گے۔ بلکہ یہ پوری گلی ہی آپ کو اپنی میراث محسوس ہوگی۔ قاضی صاحب کا کمال یہ ہے کہ اُنہوں نے ان تمام کہانیوں کی صورت اپنے خوابوں کی گلی میں بستے ان سب کرداروں کے مالکانہ حقوق “rights free” کر کے اپنے ہر قاری کو سونپ دیئے ہیں۔

’’خواب گلی ‘‘کے افسانوں کے ذریعے محمود احمد قاضی نے علامت، تجریدیت، سرئیلزم، ڈاڈاازم سے بہت پرے منفرد انداز میں کہانی کہنے کا ایک جاگتا خواب دیکھا تھا، جس کی تکمیل ڈاکٹر محمد اصغر انیس  ترمذی اور رانا عارف علی نے اس کتاب کی صورت کی۔ مطاف پبلی کیشن گوجرانوالہ نے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا۔ یوں، میرے آپ کے اردگرد ہنستے بستے یہ سب جیتے جاگتے کردار کاغذ کے کینوس پر قلم کے ذریعے بکھر گئے۔ اگر آپ بھی ’’خواب گلی‘‘ کے مرکزی کردار کی صورت اپنے ان خوابیدہ کرداروں کو پڑھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو اس افسانوی مجموعے کے محدود ایڈیشن میں سے ایک کتاب اپنے نام کر لیجئے اور خوابوں کی اِس گلی میں بسنے والے سب کرداروں کا بار بار لطف لیجئے۔ 

(مطاف پبلی کیشنز گوجرانوالہ : 0301-6457367)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).