میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پہ رکھ دو


گیارہ اگست کو اک اندوہناک خبر راحت اندوری صاحب کے دنیا سے کوچ کر جانے کی ملی۔ شاعری کا ایک اہم باب بند ہو گیا۔ عہد حاضر میں ان جیسا طرز کلام، انداز ادائیگی، منفرد موضوعات شاعری اور اچھوتے خیالات کی شاعری شاید ہی کسی نے کی ہو۔ جدید طرز پہ مزاحمتی شاعری، شعر پڑھتے ہوئے صوتی اتار چڑھاو، مجمع کو مٹھی میں رکھنا، مجمع کو رلا دینا، روتے روتے ہنسا دینا، سٹیج پہ کسی پر جگت کس دینا یہ سب راحت اندوری کا ہی طرہ امتیاز تھا۔

جب وہ شاعری پڑھتے تھے تو اس دوران چٹکلے سنانے سے بھی کبھی نہیں چوکتے تھے اور مجمع کو ایسے اپنے سحر میں جکڑ لیتے تھے کہ ہر کوئی ہمہ تن گوش رہتا تھا۔ مجمع میں اگر کوئی دوران شاعری بول پڑتا تو اس شخص کی شامت آ جاتی تھی اور پھر اپنی رگ ظرافت کا ایسا کاری وار کرتے تھے کہ وہ شخص پورے مشاعرے میں دوبارہ بولنے کی جرات نہ کرتا۔

راحت اندوری کا اصل نام راحت قریشی تھا۔ ان کی ولادت مدھیہ پردیش کے ضلع اندور میں ہوئی تو اسی نسبت سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اندوری کا تخلص استعمال کیا۔ انہوں نے اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کیا۔ سن 2016 میں ان کی کتاب ”میرے بعد“ کے عنوان سے شائع ہوئی جو کہ غزلیات کا مجموعہ ہے ان کی دیگر تصانیف میں رت، دو قدر اور سہی، دھوپ بہت ہے، چاند پاگل ہے، موجود، ناراض، شامل ہیں۔

ایک بار مشہور کامیڈین کپل شرما نے تین شعراء کا انٹرویو کیا جن میں وشواس کمار، شبینہ ادیب اور راحت صاحب شامل تھے۔ حالانکہ وشواس کمار نا صرف عام آدمی پارٹی کے اہم رکن ہیں اور ہندوستان کے مقبول شعرا میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس پروگرام میں راحت صاحب نے انہیں بولنے نہیں دیا۔ اور پورے پروگرام میں اپنے جداگانہ طرز شاعری اور حاضر دماغی کی وجہ سے چھائے رہے۔

اسی پروگرام میں انہوں نے مشہور پاکستانی شاعر جون ایلیاء کے متعلق ایک واقعہ سنایا کہ وہ مشاعرے کے سلسلے میں کراچی گئے اور دوسرے روز مشاعرے کے لئے بذریعہ سڑک سکھر جانا تھا۔ تو علی الصبح جون ایلیا مجھے لینے کے لئے ہوٹل پہنچ گئے۔ میں نے جون صاحب سے پوچھا کہ سکھر تک جانے میں کتنا وقت لگے گا۔ تو انہوں نے کہا کہ ”تین پیگ بس“ فاصلے کو پیگ سے ناپنے کا کام صرف جون ایلیا ہی کر سکتے تھے۔

کوئٹہ میں ہونے والے ایک مشاعرہ جو احمد ندیم قاسمی کی صدارت میں ہو رہا تھا اس کا احوال راحت صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص قاسمی صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے اور جب بھی کوئی شعر پڑھا جاتا تو اونچی آواز میں ”سبحان اللہ، سبحان اللہ“ کہتے، چاہے شعر سمجھ میں آئے یا نا آئے۔ جب قاسمی صاحب تنگ آ گئے اور اس بندے کی اونچی آواز ان کے کانوں کو بوجھ لگنے لگی تو وہ اس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ”کہ آپ اللہ کو اتنی زور زور سے یاد کرتے ہو، اگر اللہ نے آپ کو دھیرے سے بھی یاد کر لیا تو آپ کا یہ مشاعرہ آخری ہو جائے گا“

حال ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے جو متنازع شہریت کا قانون پاس کیا راحت اندوری نے واشگاف الفاظ میں اس کی مخالفت کی اور پورے ہندوستان میں ہونے والے مظاہروں کی بھرپور حمایت کی۔ ان کی مشہور نظم کا ایک شعر عرض ہے

سبھی کا خون شامل ہے یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

راحت اب جب اس دنیا میں نہیں رہے اور اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں اور جب فرشتوں سے ان کا ٹاکرا ہوا ہو گا تو راحت ان سے کچھ اس طرح مخاطب ہوئے ہوں گے

خواب، دوا، زہر، جام، کیا کیا ہے
میں آ گیا ہوں، بتا انتظام کیا کیا ہے

راحت نا صرف اردو زبان میں پی ایچ ڈی تھے بلکہ وہ ایک اچھے پینٹر بھی تھے اور اس سے اچھے نغمہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ ایک انٹرویو میں وہ کہہ رہے تھے کہ پینٹنگ ان کا پہلا شوق تھا۔ ان کے بقول شاعری اور پینٹنگ یہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ اور بہت عرصے تک وہ ان دونوں مشاغل کو اکٹھے پروان چڑھاتے رہے۔ لیکن اچانک انہیں ایسا لگا کہ جیسے شاعر نے اعلان کر دیا کہ میں ہوں، اکیلا میں ہوں اور اس جسم پر، اس دماغ پر اس سوچ پر صرف میرا حق ہے۔ اور اس کے بعد انہوں نے صرف شاعری ہی کی۔

ان کی شاعری کا عرصہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پہ محیط ہے۔ انہوں نے کئی مشہور بالی ووڈ فلموں کی گانے بھی لکھے۔ ان مشہور فلموں میں منا بھائی ایم بی بی ایس، قریب، خوددار، یارانہ، گھاتک اور میناکشی شامل ہیں۔

کووڈ 19 کے زمانے اور حوالے سے بھی انہوں ایک غزل لکھی جو کہ ان زندگی کی آخری غزل ثابت ہوئی اور بے حد مقبول ہوئی۔ اسی غزل کا ایک شعر بے حد مقبول ہوا۔ جو کچھ یوں ہے :

وبا پھیلی ہوئی ہے ہر طرف
ابھی ماحول مر جانے کا نہیں

تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کی موت کا سبب ہارٹ اٹیک بتایا گیا ہے جبکہ ہارٹ اٹیک کی وجہ کووڈ 19 بنا۔ موت سے ایک دن پہلے ان کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا اور راحت اس سے جانبر نہ ہو سکے اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ وہ تو شاید آج ہم میں نہیں لیکن پھر بھی اپنی نغمہ نگاری اور شاعری کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے درمیاں رہیں گے۔ ان کے اس شعر پہ اختتام کرنا چاہوں گا۔

میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پہ رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ زمیں پہ رکھ دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).