کیا آپ نے شادی کے وقت بیٹی کو اس کے قانونی حقوق بتائے تھے؟



وین چلتے ہی بختاور نے نقاب ہٹا دیا۔ پھر سہیل سے کہا
”قریبی ویمن پولیس اسٹیشن لے کے چلو۔“

”میڈم پولیس تک مسئلہ نہ جائے تو بہتر ہے۔ پتا نہیں کون لڑکے تھے پیچھے نہ پڑ جائیں۔ آپ کے تو تعلقات ہیں کافی آپ کے لیے تو شاید مسئلہ نہ ہو، مگر میرے تو گھر والے بھی سپورٹ نہیں کرتے میں کہاں جاؤں گی۔“

بسمہ ابھی بھی گھبرا رہی تھی۔ ساری زندگی کا سیکھا ہوا خوف ایک جھٹکے سے تو ختم نہیں ہوجاتا۔

”بسمہ ایسے معاملات میں ہر عورت اکیلی ہی ہوتی ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں جو کرتی پھرتی ہوں تو میرے گھر والے ہر کام میں مجھے سپورٹ کرتے ہیں؟ یا احمد کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا؟ بیٹا ہم بھی انہی عام گھرانوں سے نکل کر آتے ہیں۔ ہمیں بھی بچپن سے یہی سکھایا جاتا ہے کہ اگر لڑکے نے لڑکی کو کچھ کہہ دیا تو غلطی لڑکی کی ہے۔ دوپٹہ نہیں اوڑھا ہوگا، اوڑھا ہوگا تو چہرہ کھلا ہوگا۔ نقاب ہوگی تو برقعہ نہیں ہوگا برقعہ ہوگا تو چال میں دعوت ہوگی۔

یہ سب صحیح ہوگا تو کسی اور عورت کو دیکھ کر بہکا ہوگا اور ردعمل یہاں نظر آیا ہوگا۔ ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ بلکہ یہ کہوں تو بہتر ہوگا کہ ہمارا معاشرہ طاقتور کا معاشرہ ہے۔ وہ کچھ بھی کرتا پھرے غلطی ہمیشہ اس کے حرکتوں سے متاثر ہونے والے کمزور کی کہی جاتی ہے۔ ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں کے وزیر مہنگائی کا ذمہ دار بھی گھر کا سودا لانے والے نوکر کو ٹھہراتے ہیں۔“

”اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ معاملے کو اتنا نہ بڑھائیں کہ ہم سنبھال نی سکیں۔“

”بسمہ زندگی کا اصول ہے بقا اس کی ہوتی ہے جو سب سے مضبوط ہوتا ہے۔ سائنس میں سروائیول آف دی فٹیسٹ ( survival of the fittest) کا نظریہ پڑھا ہے ناں۔ تو ہمارے معاشرے میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ جنگل میں جو جسمانی طور پہ کمزور ہو اسے کوئی نہ کوئی شکار کر کے ختم کردیتا ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں جو شخصی طور پہ کمزور ہو اس کی شخصیت ختم کردی جاتی ہے۔“

” مگر میڈم شہر اور جنگل کے قانون میں کوئی تو فرق ہوگا“

” تم نے ابھی تک کوئی فرق دیکھا؟“ بختاور نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، بسمہ نے نہیں میں سر ہلا دیا۔ بختاور نے اپنی بات آگے بڑھائی

” مگر ہوتا ہے یہاں دو قسم کے مضبوط لوگ ہوتے ہیں۔ ایک جن کے پاس پیسا ہوتا ہے اور دوسرے جن کے پاس کردار ہوتا ہے۔ پیسے والے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ کردار والے استعمال ہونے والوں کو حق کی جنگ لڑنا سکھاتے ہیں۔ یہ جنگ ہمیشہ سے جاری ہے ایک طرف ظالم ہوتا ہے بہت سارے مظلوم ہوتے ہیں اور ایک طرف اس ظلم کے خلاف بغاوت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان بغاوت کرنے والوں کو پتا ہوتا ہے کہ ظالم کے پاس سوائے خوف کے کچھ بھی نہیں ایک دفعہ مظلوم جاگ جائے تو ظالم کچھ نہیں کرپاتا۔

خود دیکھ لو۔ جب تک نازیہ خاموش تھی اسے سب نے استعمال کیا اس کی شخصیت کی کمزوری کو سب نے اس کی برائی گردانا مگر ایک بار وہ بغاوت پہ اتر آئی اپنے حق کے لیے کھڑی ہوگئی تو باسط سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ اصل میں ظالم کو پتا ہے کہ جب تک مظلوم ڈرتا رہے گا اس کی مٹھی میں رہے گا۔ مزدور ہو، بیوی ہو یا کوئی اور کمزور شخص اسے مذہب کا طعنہ دے کر اخلاقیات کی زنجیروں میں جکڑ کر اپنا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ مظلوم بے وقوف نہیں ہوتا۔

مگراس کے دل میں اخلاقیات اور مذہب کے نام پہ جو خوف بٹھایا جاتا ہے وہ اسے کمزور کردیتے ہیں۔ تم نے کبھی اشرافیہ طبقے میں لوگوں کو مذہب یا اخلاقیات کے بارے میں اتنا پریشان ہوتے نہیں دیکھا ہوگا جتنا ہم مڈل کلاس والے ہوتے ہیں۔ تم اپنی مثال لے لو۔ تم نے کیوں باسط کا غلط رویہ سہا۔ کیوں کسی کو نہیں بتایا کہ اسلم نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ اگر یہی گھر والے تم سے کہتے کہ کوئی مسئلہ ہو تو پہلے ہمیں بتانا تمہارے دل میں ’لوگ کیا کہیں گے‘ کا خوف نہ بٹھایا گیا ہوتا توکیا تم پھر بھی خاموشی سے سب کچھ سہتیں؟“

”شاید نہیں، کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ جو کچھ میں نے سہا وہ میری برداشت سے بہت زیادہ تھا۔ اگر مجھے ذرا سا بھی کسی کا سہارا ہوتا میں فوراً اس تکلیف دہ ماحول سے نکلنے کی کوشش کرتی۔ مگر میرے گھر والوں کے لیے شاید میری کوئی اہمیت نہیں تھی۔ میں بہت دفعہ سوچتی ہوں کہ اگر میری ذات ان کے لیے اضافی اور غیر ضروری تھی تو مجھے دنیا میں لائے ہی کیوں تھے۔“ بسمہ نے سچائی سے دل کی بات بتا دی

”غلطی تمہارے والدین کی بھی نہیں ہے۔ بلکہ غور کرو تو غلطی اسلم اور باسط کی بھی نہیں۔“

”یعنی اب آپ بھی یہی کہیں گی کہ میری ہی غلطی ہے۔ شکریہ میڈم اتنا لمبا عملی نمونہ پیش کرکے وہی گھسی پٹی تقریر سے بہتر تھا آپ مجھے نوکری سے نکال دیتیں فوراً۔“ بسمہ کو ایک دم غصہ آ گیا

”بسمہ بیٹا کم از کم بات تو پوری سن لیں“ بسمہ نے غصے میں سر جھٹکا
”جی بتایئے“

”بسمہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنا مسئلہ انفرادی حد تک دیکھتے ہیں اسی لیے ذمہ دار کسی ایک فرد کو ٹھہراتے ہیں۔ جب کہ مسئلہ انفرادی ہے ہی نہیں مسئلہ پورے نظام کا ہے۔ تمہیں یہ تو نظر آیا کہ باسط نے تم پہ ظلم کیا۔ لیکن باسط نے کیا سہا اگر وہ اپنے بیان میں نہ بتاتا تو کیا کبھی تمہیں پتا چل سکتا تھا؟ یا ایک دفعہ بھی تم نے سوچا کہ باسط کو کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے؟ پھر باسط کے معاملے میں غلطی اگر اس کے والد کی کہی جائے تو اس کے والد کی شخصیت میں گڑبڑ کس کی غلطی؟“

”میڈم باسط کی بات تو آپ رہنے دیں یہ سب اس نے ہمدردیاں بٹورنے کا ڈرامہ کیا تھا اور کچھ نہیں“

”اگر ڈرامہ تھا تو اسے فائدہ کیا ہوا؟ اس کی سزا میں کوئی کمی ہوئی۔ اصل میں تم یہ اس لیے سمجھ رہی ہو کیونکہ تمہارا واسطہ عدالت کے معاملات سے اتنا پڑا نہیں ورنہ باسط اور اس کا وکیل چاہتے تو یہ مسئلہ کئی سال چلتا رہتا۔ سزا اسے ضرور ہوتی کیونکہ معاملہ ایسا تھا مگر کئی سال بعد۔ اس کے اس بیان نے اسے فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے جو کہا وہ سچ تھا۔“

”یعنی آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ باسط نے جو کچھ کیا اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں اسے سزا نہیں ملنی چاہیے تھی؟“

”نہیں اسے اور اس جیسے ہر مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہیے اسے لیے ہم ابھی تھانے بھی جا رہے ہیں۔ مگر ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ یہ سمجھو کہ مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں پورے سسٹم کا ہے۔ جہاں طاقتور کو ہر آزادی حاصل ہے اور کمزور کے لیے کچھ نہیں۔ جو لوگ سسٹم کو غلط سلط اپنے تجربے کی بنیاد پہ سمجھ کر اس میں اپنی بقا کی کوشس کرتے ہیں وہ یا تو طاقتور بن کر ظلم ڈھاتے ہیں یا کمزور بن کر ظلم سہتے ہیں۔ تمہارے اپنے گھر میں ایسی کئی مثالیں ہوں گی ۔ عموماً ساس اور بہو کے رشتے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے جب تک ساس صاقتور رہتی ہے وہ ظلم اور نا انصافی کرتی ہے۔ جب بہو طاقتور ہوجاتی ہے تو بہو وہی کچھ ساس کے ساتھ کرتی ہے۔“

بسمہ کو فوراً امی اور دادی کا رویہ یاد آیا جو بالکل ایسے ہی تھا جیسے بختاور نے بتایا۔ بختاور کی بات جاری تھی۔ اس نے آگے کہا

”سسٹم کو صحیح کرنے کے لیے ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نا کسی دوسرے کا حق چھینیں اور نا اپنا حق چھیننے دیں۔ یہ یاد رکھو تم جتنی دفعہ خاموش رہ کر مسئلہ دبانے کی کوشش کرو گی تم کسی اور طاقتور کو دعوت دو گی کہ آؤ مجھے استعمال کرو میں بے جان گڑیا ہوں، مجھے تکلیف نہیں ہوتی میرے کوئی جذبات نہیں۔“ اب کی بار بسمہ نے ایسے سر ہلایا جیسے اسے کافی حد تک بات سمجھ آ گئی۔

ان کی بات ختم ہونے کے بعد وین میں خاموشی چھا گئی۔ پانچ منٹ تک وین مزید چلتی رہی اور پھر ایک تھانے کے سامنے جاکر رک گئی۔

تھانے کی کچھ لیڈی پولیس افسر ز بختاور کو پہچانتی تھیں۔ اسی لیے خلاف معمول اس کی شکایت کو سنجیدگی سے ڈیل کیا گیا اور فوراً ایف آئی آر کاٹی گئی۔ ان کا بیان لکھوا کر اسی وقت ایک پولیس وین دوبارہ ان کے ساتھ اسنوکر کلب پہ آئی وہاں موجود سب لڑکوں کو پولیس نے ان دونوں کے سامنے شاخت کے لیے کھڑا کر دیا تین لڑکے وہی تھے جو پہلے ان لڑکوں کے ٹولے میں شامل تھے۔ ساتھ ہی انسپکٹر نے اسنوکر کلب کے مالک کو بھی پکڑ لیا۔ جس کی لاپرواہی کی وجہ سے لڑکے یہاں جمع ہوکر نازیبا حرکتیں کر رہے تھے۔ پولیس وین وہاں سے تھانے چلی گئی اور وہ لوگ اپنے آفس آگئے۔

بختاور نے چائے منگوائی اور بسمہ کو لے کر آفس میں آ گئی اور دوبارہ بات شروع کی
”ہمم اب تمہارے خیال میں مسئلہ حل ہوگیا؟“
”اسلم والا یا اسنوکر کلب والا؟“

”اسنوکر کلب والا۔ اسلم والا مسئلہ تم خود ڈیل کرو گی۔ کیونکہ وہ تمہارا ذاتی مسئلہ ہے۔ یہ یاد رکھو میں یا کوئی اور قدم قدم پہ تمہارے مسئلے حل کرنے یا مشورے دینے کے لیے موجود نہیں ہوگا۔ اور یہی سمجھانے کے لیے میں نے اسلم والے معاملے میں مدد کرنے کی بجائے تمہیں دکھایا کہ ایسے مسئلے حل کیسے کرتے ہیں خیر ابھی کے بارے میں بتاؤ کیا لگ رہا ہے تمہیں۔“

”ابھی تو مسئلہ ختم ہوگیا میرے خیال میں۔“ بسمہ نے کچھ سوچ کے کہا پھر اسے کچھ خیال آیا

”مگر میڈم یہ سب تو کچھ دیر کا مسئلہ ہے ابھی ان کے والدین آئیں گے انہیں پیسے دے کر چھڑوا کر لے جائیں گے۔ یہ تو دیکھنے میں ہی اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے باپوں کے پاس ہے اتنا بے تحاشا کہ یہ اڑائیں اور انہیں فکر ہی نا ہو۔“

”یہ غریب گھروں کے بھی تو ہوسکتے ہیں۔“

” ہاں ہو تو سکتے ہیں مگر میں نے جو دیکھا ہے ایسے ٹولوں میں ایسے ہی لڑکے زیادہ ہوتے ہیں جن کو پیچھے سے خرچہ پانی کی بے فکری ہوتی ہے۔“

” بالکل صحیح مشاہدہ ہے۔ تمہیں یہ سب اتنا تفصیل سے بتانے کی وجہ بھی یہی ہے کیونکہ تم بات کو ناصرف جلدی سمجھ لیتی ہو بلکہ خود سوچتی بھی ہو۔ اور تمہاری شخصیت ابھی اتنی مثبت ہے کہ اس میں سدھار لانا آسان ہے یا یہ کہو کہ اسے مضبوط بنانا اور معاشرے کے لیے کار آمد بنانا آسان ہے۔“

”مجھے تو اپنا آپ بہت کمزور لگتا ہے“
”کچھ تو بھروسا میرے تجربے پہ بھی کرو۔“ بختاور شگفتگی سے مسکرائی پھر بولی

”اچھا اب جیسا تم نے کہا کہ یہ سب کھاتے پیتے گھرانے کے ہوں گے اور ممکن ہے آج ہی چھوٹ بھی جائیں۔ اب ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟“

” اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟“

”اس سے زیادہ اگلا قدم ہوتا ہے کسی ایسے کو معاملے میں شامل کرنا جس کے سامنے یہ کچھ نا کرپائیں۔ جیسے یہ کریں گے ہمارے مقابلے میں کسی پولیس کے بڑے افسر کی سفارش لائیں گے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو بیچ میں لائیں گے۔ ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں تو ہم سب سے طاقتور فریق کو بیچ میں لائیں گے۔ میڈیا کو۔“

” میڈیا کو! کیسے؟ اور اس میں تو ہماری ہی بدنامی ہوگی“ بسمہ اس انوکھے حل پہ حیران رہ گئی

”آج کل میڈیا سب سے طاقتور ہے۔ آپ پریس کلب جاؤ وہاں جاکر اپنا احتجاج رکارڈ کرواؤ کچھ نا کچھ ٹی وی چینلز اور اخبار آپ کا احتجاج اپنے ٹی وہ سے اور چینل سے لوگوں تک پہنچا دیں گے۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ اہم بن جائے گا۔ اور پولیس چھپ کر یا پیسے لے کر انہیں چھوڑ نہیں سکے گی۔ کوئی ایم این اے ایم پی اے یا اور کوئی سیاسی لیڈر کھل کر ان کی حمایت نہیں کر پائے گا۔ اب اسلم باسط اور یہ لڑکے ان سب کو ملا کر سارے مسئلے کو درجوں کے حساب سے سمجھو اور اسی طرح ان کا حل سمجھو۔

پہلا درجہ ایسا بندہ جو صرف آپ سے طاقتور ہے، یا وہ صرف وقتی طور پہ طاقتور ہے اس کے لیے آپ کا مضبوط لہجہ اور باڈی لینگویج ہی کافی ہوتی ہے۔ پھر کوئی ایسا بندہ جو قانونی طور پہ کوئی ایسا اختیار رکھتا ہو کہ آپ اس سے کمزور حیثیت پہ ہوں جیسے شوہر یا باس ان کے لیے اپنے حق کے قانون سمجھو۔ جتنا تمہیں اپنے حقوق کا پتا ہوگا اتنا ہی دوسرا بندہ تم سے نا انصافی کرتے ہوئے ہزار بار سوچے گا۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے نکاح کے وقت یا اس کے بعد کبھی ایک بار بھی اپنا نکاح نامہ پڑھا کہ اس میں کیا کچھ لکھا ہوتا ہے؟“

” ہاں دیکھا تو تھا مگر صرف میرا اور باسط کا نام، گواہوں کے نام اور حق مہر کی رقم لکھی تھی باقی تو سب کالم کاٹے ہوئے تھے۔“

جبکہ وہی کالم سب سے اہم ہوتے ہیں اور یہی غلطی والدین کرتے ہیں کہ نکاح کے وقت بیٹی کو کوئی حق نہیں دلواتے۔ اور یہی غلطی ہم نوکری کرتے ہوئے کرتے ہیں کہ ہم نوکری کے معاہدے پہ دستخط کرتے ہوئے دیکھتے ہی نہیں کہ ہمیں قانون نے کیا حقوق دیے ہیں۔ پھر ہماری ہی محنت کے پیسے میں سے چند ٹکے احسان کی طرح ہمارے منہ پہ مار دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اپنے حقوق ہی نہیں پتا ہوتے۔ چلو یہ تو ہوگئی قانونی طور پہ ہم سے طاقتور بندے کی بات پھر اگر ہمارا سابقہ کسی مجرم سے پڑے وہ چاہے چھوٹی نوعیت کا ہو یا بڑی نوعیت کا یہ یاد رکھو مجرم وہ ہے تم اس کا جرم سامنے لاؤ گی تو شرمندگی کی بات اس کے لیے ہے تمہارے لیے نہیں۔ اور جہاں بھی تمہیں لگے کہ تم نے سب کوششیں کر لیں اور مسئلہ حل نہیں ہورہا تو میڈیا کے ذریعے سب تک اپنی آواز پہنچاؤ تا کہ جو بھی تمہاری مدد کر سکتا ہے یا جس پہ اس مسئلہ حل کرنے کی قانونی ذمہ داری ہے وہ متوجہ ہو سکے۔ ”

ان کے باتیں کرنے کے دوران چائے بھی آ گئی۔ تو بختاور نے بات چیت کچھ دیر کے لیے روک دی۔

”چلو چائے پیتے ہیں کچھ ذہنی تھکن کم ہوگی۔ تم چاہو تو گھر چلی جانا آرام سے مسئلے پہ سوچو پھر بتاؤ کہ تم اسلم کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہو یا نہیں۔ ابھی بھی فیصلہ تمہارا ہوگا تم پہ کوئی زبردستی نہیں اگر تمہیں یہاں کام کرنا مناسب نہ لگے تو میں کسی اور جگہ بھی کوشش کر کے دیکھوں گی جہاں تمہارے لیے موزوں جاب مل سکے۔ مگر یاد رکھو کبھی نہ کبھی تمہیں اپنے لیے خود لڑنا ہوگا۔ جتنا جلدی خود کو مضبوط بناؤ گی اتنی جلدی زندگی آسان ہو سکے گی۔“

بسمہ نے سمجھتے ہوئے سر ہلا دیا
” میں خود بھی آپ سے کچھ وقت لینا چاہ رہی تھی تاکہ کچھ سوچ سمجھ کر فیصلہ کر سکوں۔“

پھر وہ دونوں خاموشی سے چائے پینے لگیں۔ چائے ختم کرکے بسمہ واپسی کے نکلنے لگی تو بختاور نے سہیل کو کہلوا دیا کہ بسمہ کو گھر ڈراپ کر آئے ویسے بھی اب وہ ٹیچرز کو لینے ہی نکلتا تاکہ دارلامان پہنچا سکے۔

بسمہ وین میں بیٹھ گئی اس کے ذہن میں پورا واقعہ اور بختاور کی باتیں دوبارہ گھومنے لگیں۔ بسمہ کو لگا اسے واقعی اب اپنے لیے جو کرنا ہے سوچ سمجھ کے کرنا ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اب تک اس نے جو کیا تھا غصے اور گھر والوں کے رویئے کے ردعمل میں کیا تھا۔ سارا رستہ اس کا سوچوں میں ہی گزر گیا۔ اور گھر کا دروازہ آ گیا۔ گھر میں داخل ہونے تک کم از کم وہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب وہ زندگی حالات کے رحم و کرم پہ نہیں گزارے گی۔ مگر ابھی بہت کچھ اس کے ذہن میں الجھا ہوا تھا۔

******۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےعزت ہمیشہ عورت کی نہیں، کمزور کی لٹتی ہےنچلے درجے کے ملازم کیا برابر لیبر رائٹس نہیں رکھتے؟ قسط نمبر چوبیس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima