سیاست کا جغرافیہ (قسط چہارم )



محل وقوع، موسم اور باشندوں کے بعد اس قسط میں سیا ست کی اقسام پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
سیاست کی اقسام

اہل مغرب حکومت کرنے کے فن کو سیاست کہتے ہیں۔ عرف عام میں سیاست، رسو ا ئے زمانہ اصطلاح ہے جسے ہیرا پھیری، دروغ گوئی، وعدہ شکنی، منافقت وغیرہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ کچھ ڈیمو کریسی، کچھ ارسٹوکریسی، کچھ آٹو کریسی توکچھ محض ہیپو کریسی تصور کرتے ہیں۔ ماضی کے ایک بزرگ سیاستدان سے صحافیوں نے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لئے کون سا نظام یا کریسی بہتر ہوگا؟ جواب دیا ”یہ تو مجھے علم نہیں لیکن جو بھی کریسی اللہ کریسی“ ۔ مرقومہ اقلیم سیاست میں درج ذیل اقسام سیاست نمایاں ہیں۔

موروثی سیاست

فی زمانہ اپنے سیاسی نظام میں مو روثی سیاست کی ”منی“ خاصی بدنام ہو چلی ہے۔ اسے سیاسی ڈی این اے بھی کہا جا سکتا ہے۔ غور کریں توسیاست دان کے گھر سیاستدان کے پیدا ہو جانے میں کیا قباحت ہے۔ جب ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر کا بیٹا انجینئر، عالم کا بیٹا عالم، فوجی کا بیٹا فوجی، معلم کا بیٹا معلم او ر بزنس مین کی اولاد بزنس مین بننے پہ اترا سکتی ہے تو محض اہل سیاست کے ہاں سیاسی فرزندگان کو کوسنا منطق سے بالا ہے۔

ہمارا سیاسی، سماجی اور مذہبی کلچر سو فیصد شخصیت پرستی پہ مبنی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے شخصیات کو تفریق کرکے دیکھیں تو میزان میں کچھ بچتا نظر نہیں آتا۔ البتہ بادشاہت اور غیر جمہو ری سیاست میں موروثیت سم قا تل ہے۔ ازراہ تفنن کہتا چلوں کہ سیاسی مورو ثیت کی ایک قسم خاندانی تسلسل ہے جیسے ایک باپ کی بیٹی نے ڈنکے کی چوٹ پر سیاست نبھائی۔ ایسے ہی ایک شریف سی فیملی کو سیاست کا کمبل چھوڑ نہیں رہا جبکہ ایک ہر دل عزیز لیڈر اپنی فیملی کے عدم انضمام کے باعث موروثی سیاست کی بجائے عروسی سیاست پہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ موروثی سیاست کی دوسری قسم نسلی نوعیت سے ہٹ کر کسی نظرئیے، کسی فرد یا کسی ادارے سے تعلقات اور سیاسی احتیاج کے موجب ظہورپذیر ہوتی ہے۔ گویا تصوف اور طریقت کی مانند سیاست میں بھی ہر دو سلاسل ہیں۔

1۔ خاندان سیاست 2۔ سلسلۂ سیاست

اول الذکر کی بنیاد خونی رشتوں اور اقربہ پروری پہ ہے جبکہ موخرالذکر کسی خاص گروہ سے نظریاتی و اعتقادی وابستگی پہ مبنی ہے۔

ا پنے تئیں تو ہر جماعت ہر قسم کی غیر آئینی، غیر شرعی اور غیر جمہوری پس منظر سے یکسر انکاری ہے مگر بے رحم تاریخ کسی کو کب مکرنے دیتی ہے؟ کھلی آنکھ سے دیکھیں تو کچھ جماعتیں ”نجیب الطرفین“ پس منظر رکھتی ہیں یعنی خاندان اور سلسلہ دونوں میں موروثیت کی حامل ہیں۔ ایک بڑی پارٹی ہی لیجیے، آج فوج سے لا تعلق اور بیگانی ہے مگر 80 کی دہائی میں اسی کی ضیائی تالیف سے نشو نما پائی اور متعدد بار ڈوبتی کشتی کنارے لگی۔

مزید براں آج یہی جماعت عدلیہ سے نالاں ہے اور آسمان سے گرا کر کھجور میں اٹکائی جا رہی ہے جبکہ ماضی میں ماسوائے چنداں عدلیہ سے بھی خوشگوار تعلق رہا۔ ایک اور جماعت بھی جمہوریت کی دعویدار ہے اور فوج کو ہی اپنے قائد کے تختۂ دار کا موجب کہتی ہے مگر تاریخ میں اس کے سلسلۂ سیاست کا آغاز فوج کی آشیرباد سے ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ ایک چھوٹی لیگ کا سیاسی ڈی این اے ابتدائی طور پر بڑی لیگ سے ملتا ہے تاہم اس میں تکمیل جامعیت مشرف بہ اقتدار ہونے سے ہوئی۔

مہاجر اور اسلامی بھائی بھی عسکری دست شفقت سے مکر نہیں سکتے۔ اک دور تھا کہ منہاج اور ”اتفاق“ میں گاڑھی چھنتی تھی مگر آج ایام کی ستم ظریفی نے انہیں ایک صف سے ہٹا کر صف آاراء کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اک شیخ سب پہ بھاری ثابت ہوئے ہیں۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ کبھی شیخ جی، میاں صاحب کے سب سے بڑے خاکسار، وفا دار اور جانثار ہوا کرتے تھے اور ان کی خاطر سیاسی مخالفین کا ایسے تیا پائینچاکرتے جیسے اب خود میاں صاحب کا کرتے ہیں۔

بڑی لیگ پہ برے دن کیا آئے کی شیخ جی کا سیاسی ڈی این اے تغیرات زمانہ کی زد میں آیا اور مشرف بہ اقتدار ہو گئے۔ میاں کی واپسی بھی تعلقات کی بحالی نہ کر پائی اور شیخ جی نے ”بغض شریف“ میں تمام سیاسی جماعتوں سے پینگیں بڑھا لیں۔ یوں اب وہ (ن ) کے علاوہ سب کے سیاسی رضائی بھائی ہیں۔ بھلی قسمت تبدیلیوں اور سونامیوں کی کہ جن کے کندھے کسی بڑی ذمہ داری سے محفوظ رہے۔ یوں کہیے کہ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار۔ یہ بھی اگر پچھلے ادوار کی ہوتی توجانے کیا کیا گل کھلا چکی ہوتی۔ البتہ سوائے الیکشن کمشن اس کے تعلقات تمام اداروں سے مثالی رہے ہیں بلکہ دوسری جماعتوں کے بد عنوان عناصر مشرف بہ انصاف ہو کر صالحین کے گروہ میں شامل ہو رہے ہیں۔ تجارت اسپاں، الزام ودشنام طرازی اور اخلاق باختگی تمام سیاسی جماعتوں کے ڈی این اے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔

تبدیلی سیاست

نظام سیاست میں تبدیلی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اولین تبدیلی تو یہ آتی ہے کہ پچھلی سرکار، موجودہ سرکار میں بدل جاتی ہے۔ حکمران، وزیر، محکمے، نعرے اور تنخواہیں سب بدل گئے۔ پچھلا برس 2019ء تھا جو بدل کر 2020 ہوچکا ہے۔ گویا پچھلے برس اور اب کے برس میں محض انیس بیس کے فرق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ غیر مقبول اور نا پسندیدہ لوگوں کی جگہ انقلابی اور مخلص لوگ انصرام ریاست سنبھالتے ہیں۔ باسٹھ اور تریسٹھ پوری کاملیت سے لاگو ہو تا ہے اور تخت و تختے کی تبدیلیاں جاری ہو جاتی ہیں۔

بھینسوں والا وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی میں بدل جاتا ہے۔ چند دنوں بعد مہمانوں کی آمد پہ یونیورسٹی مہمان خانہ بن جاتی ہے۔ یوں پی ایم ہاؤس اور جامعہ میں تبدیلی کی آنکھ مچولی کو اک ثبات حاصل ہو چکا ہے۔ پی ایس ایل اور بیرونی قرضہ جات پہ موقف میں تبدیلی واضح ہے۔ بھارت کے ساتھ قیام امن کی کوششیں ماضی میں غداری کے مترادف تھیں جو تبدیلی کا شکار ہو کر دانشمندی کہلا رہی ہیں۔ اقبال کا مومن تو رزم حق و باطل میں فولاد ہوا کرتا تھا مگر اب بدل کر بریشم کی طرح نرم اور حلقۂ یاراں میں فولاد کا کردار ادا کرتا ہے۔

پیرونی قرضوں کے رذائل ان کے فضائل میں بدلتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں کی کثرت اور مہانوں کی آمد پہ بے جا پروٹوکول کبھی کلنک کے ٹیکے سمجھے جاتے تھے مگر انہیں تبدیلی اب ماتھے کا جھومر ثابت کرنے کے در پے ہو نے لگتی ہے۔ تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر ڈالر پہ ہوتا ہے جو لگاتار ترتیب صعودی سے تبدیلی کا شکار ہے۔ مہنگائی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی تبدیلی کی مظہر ہے۔ معیشت کا بیانیہ بھی ملت بیضا اور مرغبانی میں تبدیل ہوا جو مرغیوں کے فقدان کے باعث بدل کر اگلے برس جا پڑتا ہے۔

دو سو ارب روپے پاکستان واپس لانے کے منصوبے کو بھی تبدیلی لا حق ہو تی ہے اور دو سو ”ارب“ کی بجائے دو سو ”عرب“ کو دارلخلافہ لانے پہ ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ تبدیلی کے بیا نیے کی معراج یو ٹرن کی جاندار اصطلاح بن جاتی ہے جسے اخلاقی و روحانی جواز حاصل ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر تبدیلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ تبدیلی خود بدل کر تبدیلی کا شکار ہوجاتی ہے اور تبدیلی کے جھٹکے کچھ اس طرح سے لگتے ہیں کی بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے : ”ہنوز تبدیلی دور است“ ۔ اب دیکھنا ہے کہ اب کی بار احتساب کا اونٹ درست کروٹ بیٹھ پاتاہے یاپھر اس کی ”کل“ حسب سابق ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ تبدیلی کے ثبوت کے طور پر جارج آرویل کے شہرہ آفاق ناول ”animal farm“ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

عروسی سیاست

قوموں کی تاریخ میں موروثی سیاست کے ساتھ ساتھ عروسی سیاست بھی سیاسی و سماجی نظاموں میں خوب زیر بحث رہی ہے۔ سیاست اور اقتدار کا رومانس کے ساتھ خاص تعلق رہا ہے۔ صاحبان ارباب اختیار، ارباب وفا بھی رہے ہیں۔ حکمرانی کے نشوں کے رسیا، عشقیہ و معشوقیہ سرگرمیو ں کے دلداد ہ رہے۔ دنیا کے تمام شعبوں کی سر کردہ شخصیات تعشق، رومانیت اور عروسیت کے حوالے سے کافی جان دار تاریخ رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی نظاموں میں، کوٹھا، طوائف اور بازار حسن کلیدی کردار رہے ہیں۔ بازار حسن سے بازار سخن اور بازار سخن سے بازار حسن معمول کی باتیں ہیں۔

چشم فلک نے دیکھا کہ حکمرانوں اور شہنشاہوں کو اپنی پیشہ ورایت سے کم اور طوائفوں، کنیزوں اور حکیموں سے زیادہ رغبت رہی۔ ریاست کے کئی صدور، گورنر اور وزراء نے عروسی سیاست میں بڑا نام پیدا کیا۔ قسمت نے کئی رانیوں کو جنرل بنایا تو گورنر ہاؤسوں میں ترانہ، قومی ترانہ بن کے نکلیں۔ ایک نواب حاکم نے رقص نہ کرنے پہ اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ اسی واقعہ پہ اک شاعر نے ”رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے“ والی نظم لکھی۔

وقت کے اہلیان حکومت کی جانب سے وقت کی ہر خوبرو ماڈل اور ہیروئن کو ہر طرح سے پذیرائی بخش کر فن اور زن کی خوب قدر دانی کی۔ یہاں تک کہ ایک وزیر ثقافت تو ایوارڈ ز کی نامزدگی کے لئے ماڈلز کو اپنی رنگیلی حویلی میں مدعو کرنے کا شرف بھی بخشتے۔ جو بوجوہ نہ پہنچ پاتیں، ایوارڈ سے بھی محروم رہ جاتیں اور دست حسرت ملتیں۔ علاوہ ازیں ہر سرکار حقوق نسواں کی ترویج کی خا طر اسمبلیوں میں چند، ”مخصوص“ خواتین کے لئے مخصوس نشستوں کا اہتمام کرتی ہے۔ ان قانون ساز اداروں میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ ”خاتون سازی“ کے عمل کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ یوں سیاسی، سماجی اور مذ ہبی ”شوگر ڈیڈی“ تلذ ذ حیات کا خوب حظ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شوگر ممیوں کے وجو دسے بھی انکار ممکن نہیں۔

روحانی سیاست

مذہبی و روحانی رنگ ہمارے معاشرے میں تمام سماجی معاملات میں ضروری جانا جاتا ہے ۔ اسی لئے سیاست میں بھی مذہب و روحانیت کامیابی کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں بلکہ ہر دو کی علیحدگی چنگیزیت سے موسوم ہوتی ہے۔ سلطنت سیاست کی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، افسران، اور قائدین میں پیرو مرشد کی تلاش میں دوڑیں لگی رہی ہیں۔ ادھر پیران حرم کسی مرید کو ناجائز خواہشات، اخلاقی گراوٹ اور کرپشن سے پرہیز تجویز نہیں کرتے بلکہ انہیں مضبوط کرنے کے لئے وظائف اور دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔

بہت سے قومی راہ نما اپنے مرشد کے طفیل اقتدار سے چمٹے رہے۔ اپنی شخصیت، عوام کے ووٹ اور اداروں کی سپورٹ کے ساتھ روحانیت کو بھی انتہائی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ریاست کے مختلف مقامات سے روحانیت کے چشمے پھوٹنا معمول کی بات ہے اقتدار کے حصول یا استحکام کے لئے کیے شاہان جہاں ان چشموں کے فیض سے فیض یاب ہوتے رہے اور شاہی ”بشارتیں“ سمیٹتے رہے۔ مگر حیرت ہے اتنی پہنچ رکھنے والے پیران عظام ریاست کے بنیادی مسائل، بھوک، بد امنی، اخلاقی ابتری کو کیوں روک نہیں پاتے۔

من جملہ دن کو فقیہا ن حرم سے صحبت کے حامل شب کو شوق غزالان حرم کے عادی بھی ہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں سب سے بڑے سالار بھی ایک پیر صاحب سے روحانی و سیاسی عقیدت رکھتے تھے۔ تمام حکومتی فیصلوں میں حرف آخر تھے۔ بعد ازاں مرد حق بھی اک کمال کے شاہ کے سحر میں مبتلا ہوئے اور تمام انتظامی امور میں ان روحانی رائے کو مقدم رکھا۔ پھر مقتدر حلقوں میں ایک ”میاں“ اور ایک ”بی بی“ دور دراز پہاڑوں میں مقیم با با جی کے اسیر ہوئے اور ان روحانی طاقتوں سے حق حکمرانی ادا کرتے رہے۔

با با جی انہیں چھڑیاں مارا کرتے تھے جس کا مطلب اقتدار ملنا تھا۔ چھڑیاں نہ مارنے سے مراد اقتدار سے محرومی سمجھا جاتا تھا۔ ریاست کی تاریخ میں پہلی بار خاتون مرشد کا ظہور ہوا اور اس کا مرید، مرید اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم بھی بن گیا۔ تاریخ عالم میں کسی مرید کے اپنی مرشدہ کے مجازی خدا بننے تک کے سفر کی مثال شاید ہی کہیں ملتی ہو ا۔ ہر جگہ پیر ہی اپنے مریدین کا استحصال کرتے نظر آتے ہیں مگر یہاں اک مرید نے تاریخ کا یہ قرض بے باک کر دیا۔ کسی اسلامی ملک میں اسلام کی سر بلندی اور عوامی خدمت کے لئے کسی خاتون مرشد کی اپنے گھر بار اور اہل و عیال تک کی قربانی قابل ستائش ہے۔ ا س سے بڑھ کر روحانی سیاست کی معراج کی مثال نہیں مل سکتی۔ مملکت سیاست کی یہ کہانی ٹی وی سیریل ”گیم آف تھرونز“ سے خاصی مماثلت رکھتی ہے

یہی وجہ ہے کہ آج سیاست اور روحانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آج سیاسی راہ نماؤں کے لئے دیوار سے پار دیکھنا ممکن ہو چکا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ریاست میں وسیع پیمانے پہ لنگر کے اہتمام ہورہے ہیں۔ پڑوسی حکمران بھی نجومیوں، ساحروں اور زائچہ نویسوں کے زیر اثر ہیں۔ اپنے ہاں تو وفاق میں ایک مستند جادو نگری معرض وجود میں آچکی ہے جہاں چلہ کشی اور علم غیب کی برکتوں سے اقلیم ریاست و سیاست چلنے کی خبریں ہیں۔ البتہ کبھی کبھار کالے علم میں سپلی آجانے کی وجہ سے مطلوبہ اہداف دیوانوں کے خواب بھی ہو جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سپر سائنس کے چرچے بھی عام ہیں۔ مرد حق نے پینتیس سال پہلے کچھ روحانی ہستیوں کو جنات کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا ٹاسک بھی دیا تھا۔ پرستان سے ایٹمی معاونت کی نوید بھی سنائی دی تھی۔ قومی و عالمی آنجہانی قائدین کے زندہ ہونے کے شہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اب تو لوگ ریاست میں سردی، گرمی، بارشیں، اولے اورسیلاب کو بھی روحانی تناظر میں دیکھنے لگے ہیں۔ کہیں سونا نکلنے لگتا ہے تو کہیں کوئلے میں انگلیاں پھیری جاتی ہیں۔

کہیں لوہے کے ذخائر اپنا لوہا منوانے کے در پے ہیں تو کبھی سمندر سے تیل پھوٹنے کی خوشی میں رادھا نچائی جاتی ہے۔ سونا اگلنے کی ریکوڈیکی روحانیت پہ تو بدقسمتی سے عالمی سہاگہ پھر چکا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی چلہ الٹ چال چل گیا ہے۔ روحا نیت کی ڈومین میں بے شمار دیو مالائی پہلو وں کا شامل ہوجانا فطری ہے۔ ہر پہلو کا اپنا دیوتا ہوتا ہے جو عوام سے بھینٹ بھی مانگا کرتا ہے۔ قربانی کا تقاضا کرتا ہے یا پھر چمن میں گل کاغذ کو سجا کر لمبے عرصے تک بلبلوں کو الو بنا کر چلتا بنتا ہے۔

روحانی سیاست کا ایک ذیلی پہلو خلائی سیاست کے بارے میں بھی ہے۔ لغت کے مطابق خلا ایسے احساس کا نام ہے جو سامنے رہتے ہوئے بھی دکھائی نہ دے۔ ایسی سرکار کے ہاں پہنچنے والے سبھی ایک اور نیک شمار کیے جاتے ہیں۔ بوقت ضرورت ایازوں کو محمودوں کے ہمراہ ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اب تو عالم خلا میں اپنے آدمی بھی موجود ہوتے ہیں۔ تبھی تو فرشتوں کی دال گلنا محال ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں نوع انسانیت کے لئے ایسے روحانیت کے دعویداروں نے کچھ نہیں کیا۔

بیروز گاری، دہشت گردی، ظلم کا خاتمہ، جرائم اور غربت پہ بحیثیت مجموعی اگر روحانیت نے اثرات ڈالے ہو ں تو ہمیں بھی بتائیے گا۔ بلکہ دیکھا گیا کہ ایسے پارساؤں کی آشیر بادوں سے جرائم، روائیت پرستی، توہم پرستی اور کج روی کو رواج ملا۔ شنید ہے کہ سرکار ملک کے تعلیمی نظام میں تصوف اور روحانیت کے ابواب شامل کرنے جارہی ہے۔ باقی کے علوم و فنون کو تو ہم پہلے ہی چار چاند لگا چکے اب تصوف کی باری آیا چاہتی ہے۔ تصوف کی یونیورسٹیاں کھلیں گی اور اس بارے میں قانون سازی بھی ہوگی۔

پھر کیا دربار بنانے کے لئے بھی این او سی لینا ضروری ہوگا؟ نذرانوں پہ بھی ٹیکس عائد ہوگا؟ گدی نشینوں کے لئے ایم اے تصوف لازم ہو جائے گا؟ اور جس کی سی جی پی زیادہ ہوگی اتنا بڑا پیر شمار ہوگا؟ کیا پھر تصوف میں بھی سپلیاں آیا کریں گی؟ ا گر ایسا ہوتا ہے تو ناقدین کے مطابق کچھ ایسے پروگرام اور ڈگریاں متعارف ہوں گی۔

ایم فل دھمال، بی ایس جھولے لال، ایم بی اے دربار مینجمنٹ، ایم بی اے ان دربار فنانسنگ اینڈ چندہ کلیکشن، پی ایچ ڈی وجد اینڈ میوزک، ڈپلومہ ان تعویذ گنڈے اینڈ دم پھونکا۔ اسی طرح پڑھانے پہ مامور معلمین کو مرشد کہا جائے گا اور ان کے عہدے کچھ یوں ہوں گے۔

مرشد اول (ہیڈ ماسٹر)، ایلیمنٹری سکول مرشد، سینئیر سکول مرشد، سبجیکٹ مرشد وغیرہ۔ معلمات کو مرشدہ کہا جائے گا۔ طالب علم مرید کہلائیں گے اور انہیں مرید کارڈز جاری کیے جائیں گے۔

خیالی سیاست

یونانی مفکر افلا طون نے ایک خیالی ریاست کا تصور پیش کیا جسے یوٹوپیا کہاجاتا ہے۔ اس ریاست کی خوبی یہ تھی کہ اس کا راوی ہمیشہ چین ہی چین لکھتا تھا۔ اس میں عوام خوش حال اور حکمران فلسفی و دانشور تھے۔ رعایا کو کوئی رنج، شکوہ و جواب شکوہ نہ تھا۔ بھوک افلاس اور مسائل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس خیالی ریاست میں فیملی کمیونزم متعارف کروائی گئی جس کے تحت تمام لوگ بڑے بڑے بیرکوں میں رہائش پذیر ہوں گے۔ ایک خاندان کے ادارے کا کوئی وجود نہ ہوگا۔

پوری ریاست کے باشندے ایک خاندان تصور ہوگا۔ ریاست عوام الناس کی جملہ ضروریات پوری کرے گی۔ الگ سے شادیوں کا کوئی سیاپا نہ ہو گا اور مشترکہ والدین اور مشترکہ اولاد کے تصور کو پروان چڑھایا جائے گا۔ تعجب یہ کہ اتنی نا ممکنات کے باوجود افلاطون کی کتا باور یوٹوپیا کے تصور نے شہرۂ آفاق شہرت پائی۔ اس سے دانشوری کے معیا ر کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ تا حال دنیا کے کسی خطے میں ایسے خدو خال رکھنے والی ریاست کا وجود نہیں ہے۔

لیکن تیسری دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں سیاستدان اور ارباب اختیار ایسی ہی ریاست کا جھانسہ دے کر اپنے لوگوں کو چکمہ دیتے رہتے ہیں۔ تاہم آفرین ہے ان ممالک کے عوام کی جو ہر نئے راہرو کے ساتھ کچھ دور تک بڑے حوصلے، جذبے اور شوق سے چلتے ہیں۔ خود بت تراشتے ہیں اور خود ہی پاش پاش کردیتے ہیں۔ یہاں بھی ایک جدید یوٹوپیا بنائی جارہی ہے۔ جس میں تاریخ کے تمام ادوار کے تمام کردار شامل ہیں۔ ہمیشہ باور کرایا جاتا رہا ہے کہ اب ریاست اور اس کی سلامتی پہلی بار ذمہ دار اور مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

اب ریاست دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے جارہی ہے۔ پوری دنیا ہماری محتاج بننے والی ہے۔ ہم ایشین ٹائیگر اور سپریم پاور بننے جا رہے ہیں۔ قرض و خیرات کا کشکول واصل سمندر ہونے والا ہے۔ کرپشن، رشوت، اقربہ پروری، سیاسی دباؤ، فضول خرچی چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی ملنا مشکل ہوگا۔ ملک میں تیل، گیس، سونے کے ذخائر دریافت ہونے ہی والے ہیں۔ اربوں درخت اگائے جا رہے ہیں۔ تین سو ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ پوری دنیا سے سرمایہ کاری چھپڑ پھاڑنے کے لئے بے تاب ہے۔

وی آئی پی کلچر کا ستیا ناس کر دیا جائے گا۔ گرین پاسپورٹ کی عزت ہوگی اور کسی سربراہ ریاست کی پتلون کی توہین برداشت نہ کی جائے گی۔ آسمان سے نوکریوں کی کہکشائیں اترنے چلی ہیں کہ غیر ملکی بھی یہاں بسنے کی آرزو کریں گے۔ اس ریاست میں ابتدا سے ہی مرغیوں کو مشاق مرغبان انڈوں پہ بٹھاتے رہے۔ مگر مرغبانوں نے مرغی کے نیچے انڈوں کی پہنچان نہ کی اور وہ اکثر گندے نکلے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ مرغی ہی بھاگ گئی اور بعض اوقات مرغی کو ہی قبل از وقت دستر خوان کی زینت بننا پڑا۔ کچھ پسند کی مرغیوں کو خاصا فری ہینڈ ملا کہ چھوٹا موٹا انڈہ دے کر ہی آسمان سر پہ اٹھاتی رہیں۔ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب کا صدا ہی بحران رہا۔ کبھی ڈائریکٹ حوالدار، کبھی ڈائریکٹ سالار تو کبھی ڈائریکٹ سرکار بنتے رہے۔

ویڈیو کریسی

”سائنس کی بے پناہ بلکہ رب کی پناہ“ کی حد تک ترقی سے ہر فرد کے ہاتھ جام جمشید لگ چکا ہے جس کے ذریعے دنیا و ما فیہا کی ایری جیری من و عن قابل سماعت و بصارت ہے۔ اب خلوتیں اور خلوتوں کے آداب پھیتی پھیتی ہو کر بکھر رہے ہیں۔ جلوتوں میں معاذ اللہ کی صدائیں لگانے والوں کے خلوتی کرتوں کے ”عکس کرتوت سیاہ“ بمعنی screen shots کا منظر عام پہ آنا معمول کی بات ہو گئی ہے۔ اب غزالان حرم سے صحبتوں کے ثبوتوں سے مکر ممکن نہیں رہا۔

جہاں ”اللہ دیکھ رہا ہے“ کی تنبیہ موثر نہ رہی، وہاں کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے والی دھمکی قدرے گار گر ہے۔ گویا شہر کا شہر الٰہ دین کا چراغ لئے پھرتاہے اور یہی چراغ لے کر حریفوں کے عیوب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ ان حالات میں sugar dadies اور sugar mummies کی تشخیص کا معما بھی حل ہو گیا ہے۔ ان کے علاوہ اطلاقی دل پھینک اور بوالہوسوں کی مٹی پلید ہونے کے وسیع اہتمام بھی موجود ہیں۔ دفاتر، گھر، ریستوران، نیٹ کیفے، مدارس، دربار، شادی، غمی، ہسپتال، سکول اور نہ جانے کہاں کہاں کیمروں کی آنکھیں جھانک رہی ہیں۔

اک اور بڑے منصف کو کیمرے کی آنکھ نے اس وقت دیکھ لیا جب وہ چل کر پینے گئے مگر اٹھا کر لائے جا رہے تھے۔ بس ذرا کم ظرفی کی بدولت اک جام میں لڑکھڑا کر جاگرے۔ کیا کرتے، اتنی اقسام کے دباؤ سے گھبرا کے پینے پہ جا لگے۔ انہیں پینے کا شوق ہرگز نہ تھا بلکہ محض دباؤ کا غم بھلانے کے لئے پیتے رہے۔ اب تو ہر کس و ناکس حتٰی کہ وزیر مشیر بھی ہر لمحے ٹویٹیاتے پھرتے ہیں۔ ویڈیو کریسی کے ظہور سے قبل کتنے منظر ہو نگے جو منظر عام پہ آنے کی سعادت سے محروم رہ گئے اور دنیا ان کی زیارت بنفس نفیس نہ کر پائی۔

ازمنہ قدیمہ اور قرون وسطیٰ کے کروڑوں بصری مناظر بن دیکھے ہی سپرد خلا ہو گئے۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیں تو اقوام عاد و ثمود اور نوح و لوط کیمروں کی آنکھ سے کتنے محفوظ تھیں۔ دنیا ان کے کارناموں کے بصری تجسس سے نا آشنا رہی۔ کاش محمد شاہ رنگیلا کے دور میں 36 تصویروں والا کیمرہ ہی میسر ہوتا تو کیا تماشا لگتا۔ پھر ویڈیو کریسی کی صورت میں مغلوں، خلجیوں، غوریوں، لودھیوں اور ماضی قریب کے کچھ جنرلوں کے معاملات کیا ہوتے؟

جبکہ بادہ خواری کی کثرت کے باعث غالب ہمیشہ مغلوب ہی رہتا اور ولی بننے کا ادنیٰ دعویٰ بھی نہ کر پاتا۔ مستزاد یہ کہ ابراہیم ذوق کی فیس بک پہ غالب کی حالت کیا ہوتی؟ کیا الزامات، کیا دشنام اور کیا الم غلم کا سماں رہتا۔ ویڈیو کریسی کے بطن سے نکلی ”ٹک ٹاک“ تو روائیتی میڈیا سے بھی چار قدم آگے جا نکلی ہے۔ اس کے سحر سے تو ایوان صدر تک مسحو ر ہو جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک اب گھروں اور سڑکوں سے خراماں خراماں اک شاہ کے حرم کی حریم ہوئی۔ سچ پوچھئے تو پوری سرکار ٹک ٹاک کیمروں میں بند ہوچکی ہے۔ اور انہیں کیمروں میں ان کی جان کا راز مخفی ہے۔

تشہیری سیاست المعروف میڈیا منڈی

سلطنت کی سیاست و معاشرت کا امتیازی پہلو اپنی بے جا تشہیر اور خود نمائی ہے اور یہی خود نمائی جگ ہنسائی کا موجب بھی بنتی رہتی ہے۔ خوبیوں کا کریڈ ٹ خود لینا اور خامیاں دوسروں پہ تھوپنا ایک فن بن چکا ہے۔ دریاؤں اور ڈیموں کی کی کمی اور بے آبی کے باعث نیکی کرکے ڈالنے کے لئے مقام میسر نہیں رہے لہٰذا کردہ و ناکردہ نیکیوں کے لئے سوشل میڈیا پہ دریا بہائے جاتے ہیں۔ اس کے لئے ہر گروہ کے پاس لاکھوں MBs اور GBs مختص ہیں۔

دور حاضر تو اس میدان میں ڈھیروں میدان مار گیا۔ آداب گفتگو تو ہوا ہوئے۔ ایک دوسرے کو تمیز سے دیکھنا بھی نصیب میں نہیں رہا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے تو گویا آٹھ چاند لگا دیے۔ سنا تھا کہ سیاست کے میدان میں سبھی ننگے ہیں اب سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں ان ننگوں کو براہ راست دیکھنے کا اتفاق ہوتارہتا ہے۔ سیاست کے حمام میں ننگوں کے ساتھ ساتھ کچھ ”گنجے“ بھی ہیں۔ اینکر پرسن فساد کی جڑ بنے ہیں اور پارلی منٹیرین باقاعدہ چا رلی منٹیرین ہوچکے ہیں۔

ایوانوں اور ٹی وی شوزمیں گالی گلوچ کے فی البدہیہ مقابلے ہوتے ہیں اور مکوں اور گھونسوں کا ماہرانہ استعمال بھی دیکھا جاتا ہے ۔ توصیف پہ تالیاں بند ہوچکی ہیں کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے تو صرف تھپڑ بج سکتا ہے۔ یوسفی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی زبان کا چلن ان کے اپنے چال چلن سے بھی زیادہ خراب ہو چکا ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ ”ہم نے بیالوجی اور علم الاعضا ء کی بہت سی اصطلاحات محلے کے بزرگوں اور خواتین کے جھگڑوں میں سے سن کر یاد کیں“ ۔

موجودہ حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ سہولت سیاسی قائدین اور سیاسی کارکنوں کے ہاں دستیاب ہے۔ اب سیاسی لوگ تیشۂ سخن برائے ایذا رسانی لئے اپنے مخالفین کے سر ہیں۔ کبھی یہ سب لوگ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے سمجھے جاتے ہیں پر اب محض ”بکنے“ کا رواج باقی ہے۔ اپنے ہاں سیاسی ہلڑ بازی اور زبان درازی قدیم روم کی PHILIPPICS کی یاد تازہ کر تی ہیں۔ یہ اصطلاح 44 قبل مسیح میں رائج ہوئی۔ فلپکس روم کے مشہور احتجاجی قائد ”سسیرو“ کی چودہ دھواں دھار تقریروں کامجموعہ ہے جو اس نے اپنے سیاسی حریف مارک انٹونی کے خلاف سیاسی جلسوں میں کی تھیں۔

سسیرو نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے جولئیس سیزر کے قتل کو موضوع بنا کر شہرت حاصل کی اور سیاسی تاریخ کی بدترین مخالفانہ تقریریں کیں۔ جیسے ہٹلر کے ساتھ گو ئیبلز اور میگڈا کے نام آتے ہیں۔ بے شمار امید وارقطار اندر قطار تمغۂ حسن بد تمیزاں کے حصول کی ہوس میں گوادر کے ساحل سے تابخاک کاشغر ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ قائدین، ورکرز، صحافیوں، وکلاء اور اینکرز کو ایٹی کیٹس اور constitution ( کو نسٹیٹیوشن ) سکھانے کے لئے کون سی ٹیوشن درکار ہے۔

احتجاجی سیاست

ہر حکومت حاضرہ کو دیس کی خاطر یاد آتا ہے کہ دھرنے دینا، سڑکیں بند کرنا، بلز جلانا، ٹیکسسز ادا نہ کرنا، پارلیمنٹ پہ حملہ کرنا اور لعنتیں بھیجنا، ملک کو معاشی و اخلاقی طور پر مفلوج کرنا، سول نافرمانی کروانا، ہنڈی سے پیسے بھجوانا اور ہر احتجاج میں بھر پور حصہ لینا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ اب پروٹوکول اور ہیلی کاپٹر کی بابت حرج نہیں۔ ایسا کیا ہوا کہ تمام اصول، منشور، ویژن اور قوانین بدل جاتے ہیں۔ پچھلی حکومت پٹرول میں فی لٹر چالیس روپے اپنی جیب میں ڈال رہی ہوتی ہیں۔

ایمان تھا کہ غیرممالک اور آئی ایم ایف سے قرضہ صرف بے شرم لوگ ہی لیتے ہیں اور وہ قرض کی بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ شاید اب پلے پڑگیا ہوکہ یہ گذشتگان کی بھی مجبوریاں تھیں۔ ماننا ہوگا کہ ہم احتجاج پسند لوگ ہیں اس لئے قوم کا جتنا نقصان حکمرانوں کی کرپشن سے ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ تباہی احتجاجوں اور دھرنوں سے ہوئی ہے ہمارے ہاں صرف نفرت ہی خالص ترین حالت میں موجود ہے۔ تہنیت کہ نفرت، دشنام طرازی، ہولناک احتجاجی کلچر اور عدم روا داری کا جو بیج برسوں پہلے بویا جاتا رہا، آج وہ فصل جوان ہو چکی ہے جو ذمہ داران کو ہر صورت کاٹنی ہوگی۔

احتجاجی کلچر میں ہم محض لکیر کے فقیر ہیں اور ہمیں طول و عرض سے کوئی غرض نہیں۔ احتجاج کئی طرح سے ہوتے ہیں۔ ایک روائیتی اور مقبول ترین قسم ”ٹائرانہ احتجاج“ ہے۔ اس میں ٹائر جلا کر روڈ بلاک کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ٹائر کا مطلب ”تھک جانا“ ہے۔ اور جب کوئی ٹائر تھک جاتا ہے تو اسے گاڑی سے الگ ہو کر عوام کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے جسے سر عام ”ستی“ کر کے دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ پھر دھوئیں آلودگی پھیلاتے ہیں اور صرف ”کھلی“ آنکھوں کو خراب کرتے ہیں۔ ایسے احتجاجوں کے دوران شرفاء متاثر ہوتے ہیں اور دکانداریہ کہتے بھاگتے نظر آتے ہیں، اوئے جلدی دکان بند کرو محب وطن مسلمان آگئے۔

احتسابی سیاست

سناہے احتساب نامی ادارہ ان محنتی اور غریب لوگوں کے در پے ہے جو بے چارے راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی مناسب نہیں۔ اگر کوئی کمشن کھا کر یا بنک کے قرضوں کو ہڑپ کر اپنی تقدیر بدلنا چاہتا ہے تو مذکورہ ادارے کو ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ احتساب سے انسانی اعصاب اور شباب پہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دو ٹکے کی تبدیلی کے بل بوتے پہ، دو ٹکے کی کرپشن کا دو ٹکے کا احتساب بس دو ٹکے کے دعوؤں کی نذر ہو گیا ہے۔

قمری سیاست:

ریاست میں قمری تقویم کو اہمیت حاصل ہے اور تمام مذہبی تہوار قمری کیلنڈر کے مطابق متعین کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے چاند چڑھنے اور چاند چڑھانے کے واقعات معمول کے کام ہیں۔ کیونکہ سیاست نگر میں چڑھا نے کی خاطر کئی چاندہیں۔ اغیار مریخ اور چاند پہ جا پہنچے ہیں اور ہم چاند دیکھنے پہ دست وگریباں ہیں۔ اب تو یہ سب بھی سیاست کا شکار ہے اور ایک قرآن، ایک خدا اور ایک کعبہ کے باوجود چاند کا ایک ہونا ناممکن ٹھہرا ہے۔

چندا ماموں کے بیسیوں بھانجے ہیں جو کھیلنا ہے نہ کھیلنے دینا ہے پہ کار بندہیں۔ کبھی کبھارکچھ لاڈلے چاند کو کھیلن کے لئے مانگنے پہ بھی بضد ہو جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں قمری سیاست کے اصولوں کے تحت یہ ضد بھی پوری ہونا آسان ہو چکا ہے۔ چاند اور سیاست میں اک مشترک قدر یہ بھی ہے کہ دونوں اکثر ہی پکڑے جاتے ہیں۔

کچرا سیاست اور کچرا کلچر

عجب زمانہ ہے کہ گندگی کے ڈھیروں اور کچرے پہ بھی سیاست ہونے لگی ہے۔ نرالی ریاست ہے کہ اپنا پھیلایا ہوا گند خود صاف کرنے سے معذور ہے اور صفائی کے لئے دیگر ممالک کی کمپنیوں کو ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ یہ وہی بات ہوئی کہ ماں نے بچے سے کہا، دیکھو دروزہ کھولو کچرے والا آیا ہے۔ بچے چونکہ من کے سچے ہوتے ہیں، بولا ماما کچرے والے تو ہم ہیں، وہ تو صفائی والا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد وہی بچے بڑے ہوکر بڑوں کے نقش پا پہ چل پڑتے ہیں۔

یوسفی سچ کہتے ہیں کہ بچوں کی بری بات یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ من حیث القوم ہم صفائی ستھرائی سے خاصے الرجک ہیں۔ شہر، قصبے، دیہات بلکہ پورا دیس ہی کچرا کچرا ہوا پڑا ہے۔ ہر گھر کے دروازے پہ کوڑے کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ گھر کے مکینوں کا :ہر گلی میں مختلف الا نواع جوہڑ اور تالاب غلاظتوں کی آماجگاہ ہیں۔ ہمیں نہاتے وقت دس افراد کا پانی چاہیے۔ مساجد میں نمازیوں کے وضو کرنے کی سرگرمیاں بھی قابل رشک نہیں۔

پورے طمطراق سے ٹوٹیاں کھول کر قصہ گوئیوں میں انہماک جیسے یہ بھی واجب ہو۔ قوم صرف پانی بہانا جانتی ہے، اس کے نکاس کے تردد سے کوئی سرو کار نہیں۔ سنا ہے کچھ ”کافر“ ممالک میں پانی کی فراہمی پہ بل نہیں آتے بلکہ اس کے ضیاع پہ جرمانے ہوتے ہیں۔ ماحول میں کچرا اور گند پھیلانے پہ بھی سر زنش ہوتی ہے۔ حالانکہ صفائی کو نصف ایمان کا درجہ ہمارے دین میں ہے۔ ٹائیلٹ بلاکس کے حالات نا گفتہ بہ ہیں۔ کہتے ہیں کسی قوم کو جانچنا ہو تو گھر کی بجائے محض ٹائیلٹ اور کچن کو دیکھ لو۔

فی زمانہ انسانی حیات وجنگلی حیات کی کثرت اور زمین کی کمیابی کی وجہ سے آؤٹ ڈور ٹائیلٹ کا رواج جا چکا اور شوچالے ( ٹائیلٹس) بن چکے ہیں۔ مگر ان کی ظاہری صفائی کے عدم اہتمام کے ساتھ ساتھ قوم کی ذہنی اخلاقی پستی کی حالت مضحکہ خیز کے ساتھ افسوس ناک بھی ہے۔ کبھی مساجد، تعلیمی اداروں، آستانوں اور پبلک مقامات پہ بنے ٹائیلٹ بلاکس میں کندہ خطاطی کے نادر نمونوں، آرٹ کے شاہکاروں اور ارسطوؤں کے اقوال زریں سے بہرہ ور ہونے سعادت حاصل ہو تو قوم کی تخلیقانہ صلاحیتوں پہ اش اش کر اٹھیں۔ اب یہ کہنا غلط نہیں کہ آدھا ایمان صفائی کا صفایا کرنے پہ ہاتھ سے جا چکا جبکہ باقی کا نصف ذہن میں بھرے کچرے کی کثرت اور گندے اظہار کے موجب ملنے سے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).