قوم ہاتھ کا سرہانا بنا کر سو رہے، عمران خان جاگ رہا ہے


ملکی حالات اور معاملات کی اصلاح بظاہر ایک ٹویٹ، ایک پریس کانفرنس، ایک نقشے کا اجرا، ایک دعویٰ یا ایک یو ٹرن کی محتاج ہے۔ یہ سب کام تحریک انصاف کی حکومت بخوبی انجام دے رہی ہے۔ عمران خان کی ایک ٹویٹ ملکی معیشت کی بحالی کا پیغام دے چکی ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تصنع آمیز پریس کانفرنس سعودی عرب کے ساتھ بگڑتے تعلقات کے بارے میں پھیلائی گئی ’افواہوں‘ کے غبارے سے ہوا نکال چکی ہے۔ ایسے میں ملک کے عوام کو مشورہ ہے کہ وہ اطمینان اور سکون سے سو جائیں، ملک کا وزیر اعظم اور ان کا محبوب لیڈر مسائل حل کرنے کے لئے جاگ رہا ہے۔

عمران خان کے نزدیک معاشی بحالی کا واحد پیمانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں کمی ہے اور اس میں جون کے دوران تارکین وطن کی ترسیلات کی وجہ سے خاطر خواہ کمی آچکی ہے بلکہ اب تو وزیر اعظم کی اطلاع کے مطابق خسارہ ’منافع‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے ماہ کے دوران بیرون ملک سے 2 ارب 76 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ز ترسیلات زر کی صورت میں موصول ہوئے۔ اس طرح جولائی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ کی بجائے 440 ملین ڈالر کا منافع رجسٹر کیا گیا۔ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی گئی رقوم کی وجہ سے ہی وزیر اعظم یہ اعلان کررہے ہیں کہ معیشت بحالی کی طرف گامزن ہو چکی ہے حالانکہ جدید معاشی نظام میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کو اسی صورت مثبت سمجھا جاسکتا ہے اگر معیشت کے دیگر پیمانے بھی مثبت اشاریہ پیش کررہے ہوں۔ جس ملک میں قومی پیداوار میں کمی کے آثار ہیں، جہاں مہنگائی اور بیروزگاری روز افزوں ہو، وہاں اس تبدیلی کو کوئی خوشگوار اشاریہ سمجھنے کی بجائے معاشی جمود کی علامت سمجھا جائے گا۔ جس کا مقصد ہے کہ معیشت سست روی کا شکار ہے لہذا ماہانہ ترسیلات کی وجہ سے اعداد و شمار سرخ کی بجائے سبز دیکھے جا سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جون و جولائی کے بعد اگست اور ستمبر بھی آئیں گے اور ان کے اعداد و شمار بھی معیشت پر اثر انداز ہوں گے۔ ترسیلات زر میں اضافہ کسی سرکاری مہم اور عمران خان کی دلکش سیاسی شخصیت کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی تارکین وطن کو اپنے اہل خاندان کا گھریلو بجٹ متوازن رکھنے کے لئے اضافی رقم ارسال کرنا پڑی ہو۔ اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ اس سال کے شروع سے کورونا وبا پھیلنے سے دنیا بھر کی معیشت جمود کا شکار تھی اور ان ملکوں میں آباد پاکستانی تارکین وطن بھی دیگر لوگوں کی طرح بیروزگاری کا شکار تھے جس کی وجہ سے وہ پاکستان میں اپنے اہل خانہ کو معمول کی رقم روانہ نہیں کر سکے۔ حالات بہتر ہونے پر جب روزگار ملا اور ادائیگیاں کی گئیں تو ان لوگوں نے سب سے پہلے اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجے یوں ایک خاص ماہ کے دوران ترسیلات میں غیرمعمولی سرعت ریکارڈ کی گئی۔ یوں بھی پاکستانی تارکین وطن ہر سال 23 ارب ڈالر پاکستان روانہ کرتے ہیں۔ یہ ترسیلات ہر ماہ یکساں نہیں ہوتیں۔ موسم اور حالات کار یا ضرورت کے لحاظ سے اس میں ہر ماہ کمی بیشی ہوتی ہے۔ ترسیلات اگر جون میں زیادہ ہوئی ہیں تو آنے والے مہینوں میں ان میں کمی بھی ریکارڈ ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے دو اہم پہلوؤں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ایک یہ کہ تارکین وطن یہ رقم سرکاری خزانے میں نہیں بھیجتے بلکہ اپنے گھر والوں کو روانہ کرتے ہیں تاکہ وہ روز مرہ مصارف پورے کرسکیں جو نئے پاکستان کی نئی نویلی ’مدینہ ریاست‘ پورے نہیں کر سکتی۔ چونکہ یہ رقم ڈالروں میں وصول ہوتی ہے اور اسٹیٹ بنک پاکستان میں ادائیگی روپوں میں کرتا ہے، اس لئے ان ترسیلات سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ جیسے اب وزیر اعظم کی زبان میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں مثبت اشاریہ کو حکومت کی معاشی پالیسیوں کی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

اسی تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ تارکین وطن کی ترسیلات کسی بھی ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو سہارا دینے کا مستقل ذریعہ نہیں ہوتیں۔ مختلف ممالک کی معشیت میں اتار چڑھاؤ سے وطن ارسال کی جانے والی رقوم میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ترسیلات بحران میں گھری کسی حکومت کو وقتی سہولت ضرور فراہم کرتی ہیں۔ اگر کوئی حکومت اسے وسیع المدت معاشی منصوبہ بندی کے لئے استعمال کرتے ہوئے قومی پیداوار میں اضافہ کے لئے استعمال کرسکے تو اس کے دیرپا ثمرات بھی سمیٹے جا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ان ترسیلات کی حیثیت بھی اسٹیٹ بنک میں سعودی عرب کے رکھوائے ہوئے ڈالروں جیسی ہوگی جن پر مستقل طور سے ’انحصار‘ نہیں کیا جاسکتا۔

وزیر اعظم کے ٹویٹ ہی کی طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اسلام آباد میں خوشگوار اور تفصیلی پریس کانفرنس نےبھی خارجہ تعلقات کے حوالے سے وہی ماحول پیدا کیا ہے جو معیشت کے بارے عمران خان کی ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اس ماہ کے شروع میں اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی عرب کو دھمکانے اور کشمیر کے معاملہ پر ’راہ راست پر آنے‘ کی تنبیہ کی تھی۔ سعودی شاہی خاندان نے اس رویہ کو تسلیم نہیں کیا اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری کی خبریں اور اشاریے سامنے آنے لگے تھے۔ ان میں سب سے اہم یہ خبر تھی کہ سعودی عرب نے اکتوبر 2018 کے ایک معاہدے کے تحت جو تین ارب ڈالر پاکستانی زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لئے اسٹیٹ بنک میں رکھے تھے، ان میں سے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق یہ رقم پاکستان نے چین سے لے کر فوری طور سے سعودی عرب کو واپس کی تھی۔

پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا اعادہ ہی نہیں کیا بلکہ اس بات پر اطمینان کا اظہار بھی کیا کہ کشمیر کے سوال پر ریاض کی پالیسی پاکستانی مؤقف کے عین مطابق ہے۔ کسی نے یہ تو نہیں پوچھا کہ اگر یہ صورت موجود تھی تو تین ہفتے قبل شاہ محمود قریشی کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں سعودی عرب کو متنبہ کر کے سنسنی پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی۔ البتہ ایک صحافی نے یہ ضرور پوچھا کہ کیا سعودی عرب نے واقعی ایک ارب ڈالر واپس لے لئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے مخصوص استہزائیہ انداز میں ارشاد فرمایا کہ ’یہ مفروضہ اور قیاس آرائی ہے‘۔ گویا ملک کے وزیر خارجہ نے اس خبر کی تردید کی ہے جو گزشتہ دو ہفتے سے پاکستانی پریس اور سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔ تاہم وزیر خارجہ کی طرف سے اس تردید کو میڈیا میں نمایاں طور سے نشر کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کی سفارتی مصلحت شاہ محمود خود ہی جانتے ہوں گے۔

وزیر خارجہ کی خدمت میں وزیر اطلاعات شبلی فراز کا وہ بیان پیش کیا جاسکتا ہے جو انہوں نے 12 اگست کو کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال ہی کے جواب میں عطا کیا تھا۔ شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’قرض تو واپس کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی بنک میں رکھے ہوئے پیسے تو کبھی بھی نکلوائے جا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے سعودی عرب کو خود ان ڈالروں کی ضرورت آن پڑی ہو‘۔ اسی تصویر کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ سرکاری طور سے صحافیوں کو یہ معلومات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں کہ سعودی عرب کو مالی مشکلات کی وجہ سے اسٹیٹ بنک میں رکھے ہوئے ایک ارب ڈالر واپس لینا پڑے تھے۔ اس معاملہ کا دونوں ملکوں کے تعلقات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بھولے پاکستانی ضرور یہ وضاحت مان لیں گے لیکن ملک کے دو ذمہ دار اور اہم ترین عہدوں پر متمکن وزیر تو اپنے بیان ایک دوسرے کے ساتھ ملا لیں۔

چند ہفتے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو پاکستانی نقشے کا حصہ بنا کر اپنے طور پر کشمیر ’فتح ‘ کرلیا ہے اور خیبر پختون خوا سے تحریک انصاف کے ایک بزرجمہر یہ ارشاد بھی فرما چکے ہیں کہ کشمیر کو پاکستانی نقشے میں شامل کرنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ ’کوئی بھی پاکستانی اب آزادی سے کشمیر جاسکتا ہے‘۔ اس قسم کی مضحکہ خیز بیان بازی سے قطع نظر اس وقت کشمیر پر پاکستانی مقدمہ کی بنیاد یہ ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز نے کشمیری شہریوں پر زندگی حرام کی ہوئی ہے۔ مجبور کشمیریوں کو نہ صرف لاک ڈاؤن کے ذریعے گھروں میں بند کیا گیا ہے بلکہ بھارتی فوج کشمیری نوجوانوں کے قتل و غارتگری میں بھی مصروف ہے۔ پاکستانی حکومت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی ہمدردی سمیٹنے کی سر توڑ کوشش کرتی ہے۔ عمران خان کے درجنوں ٹویٹ اور بیانات اس کا اظہار کرتے ہیں۔

دوسری طرف 13 اگست کو تربت میں فرنٹئیر کورپس (ایف سی) کے قافلے کے راستے میں بم دھماکہ ہؤا۔ دھماکے کے فوری بعد ایف سی کے جوان قریب ہی کھجوروں کے باغ میں پہنچے اور اپنے والدین کو ناشتہ پہنچانے کے لئے آئے ہوئے 25 سالہ حیات بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنایا، اسے باندھ کر باغ کے ایک کونے میں لے گئے اور ایک اہلکار نے گولیاں چلا کر اسے ہلاک کر دیا۔ حیات بلوچ کے والدین منتیں کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ حیات دہشت گرد نہیں ہے۔ وہ تو کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جو کورونا کی وجہ سے گھر آیا ہؤا تھا۔ لیکن ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے جوش میں ایف سی اہلکاروں نے ملزم بھی تلاش کیا، فوری عدالت بھی لگائی اور سزا سنا کر اس پر عمل بھی کردیا۔ ایف سی اب ایک اہلکار کو پولیس کے حوالے کر کے اور تحقیقات کا وعدہ کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن اور فرض سے سبکدوش ہو چکی ہے۔

عمران خان کا ٹویٹ اور شاہ محمود قریشی کی مرصع خوش نوائی البتہ اس ظلم کے بارے میں ایک لفظ کہنے سے بھی قاصر رہی ہے۔ بلوچستان میں غم و غصہ کا طوفان ابل رہا ہے لیکن اسلام آباد کے ایوانوں میں نواز شریف کو واپس لانے کی منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے۔ سوال ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں جو ظلم بھارتی اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کا جرم ہے، وہی طریقہ بلوچستان میں ایف سی اختیار کرے تو کس قومی مفاد کی حفاظت ہوتی ہے؟ سماجی انقلاب برپا کرنے اور انصاف عام کرنے کا دعوے دار وزیر اعظم اس ظلم کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali