حسینیت کی تلاش میں امام حسین ؑ کا ایک سفر


امام حسین ؑنبی پاک ﷺکے چھوٹے نواسے ہیں۔ آپؑ ہجرت نبی ﷺکے بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ نبی پاک ﷺخود بھی حضرت امام حسینؑ سے بے پناہ محبت فرماتے اور اپنی امت کو بھی امام حسین ؑسے محبت کا درس دیتے۔ آپ ﷺنے امت کی تربیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ”جس نے حسین ؑسے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی۔ اور اجس نے حسینؑ سے بغض رکھا اس نے گویا مجھ سے بغض رکھا۔ امام حسینؑ کا مقام و مرتبہ سمجھاتے ہوئے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا“ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑسے ہوں ”یہ دور دراصل اسلامی اقدار کے عروج کا دور تھا۔

آپؑ کا بچپن نبی پاک ﷺکی گود میں گزرا تھا اور پرورش کی بنیاد بھی آپ ﷺہی نے رکھی تھی۔ جب آپؑ جوان ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور تھا۔ عدل و انصاف کا بول بالا تھا۔ مساوات کے زریں اصولوں پر لوگوں کی تربیت جو زمانہ نبوت میں ہوئی تھی اس کا ظہور اپنے جوبن پہ تھا۔ برداشت کا کلچر فروغ پا رہا تھا۔ عفو در گرزر لوگوں کا شعار تھا۔ کسی امیر میں جرات نہ تھی کہ وہ کسی غریب کے حق کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ مسجد نبوی ایک ہی وقت میں خانہ خدا ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع اسلامی ریاست کا پارلیمنٹ ہاؤس بھی۔ جہاں دین بھی نشو ونما پا رہا تھا اور دینا داری کے لیے عظیم روایات قانون کا درجہ پا رہی تھیں۔ مجموعی طور پہ معاشرہ مہر و مروت اور جود سخا کا مرکہ تھا۔

حضرت امام حسینؑ اسلامی عروج کے چشم دید گواہ ہیں۔ آپ نے اپنے والدین سے دین اور دنیا کے بارے میں وہ تربیت پائی جس کا ظہور 61 ہ میں ہوا اور 14 سو سال سے دنیا اس پہ حیرت زدہ ہے کہ ایک شخص حق اور باطل میں تفریق کی لکیر کیسے بن سکتا ہے؟ اور ایک نام حق کے لیے استعارہ کیسے بن سکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں 58 اسلامی ریاستیں ہیں اس کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی کروڑوں مسلمان بستے ہیں۔ محرم کے ایام میں خصوصی طور پہ آپ کی یاد میں عالی شان مجالس برپا کی جاتی ہیں۔ خدا کی راہ میں آپ ؑکے نام پر سبیل اور لنگر کا وسیع انتظام ہوتا ہے۔ علما اکرام آپ کی زندگی اور آپؑ کی قربانی پہ پورا مہینہ عوام کے شعور کو اجاگر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے نظر آتے ہیں

اب ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر کبھی حضرت امام حسین ؑہم میں آئیں تو انھیں کیا دیکھنے کو ملے گا؟

نبی پاک ﷺنے سب سے پہلے اپنے ہی خاندان کے افراد کو دین کی دعوت دی تھی اس لیے شاید امام حسین ؑبھی پہلے اپنے ہی خاندان کے افراد کے پاس جانا پسند کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ نبی پاک ﷺکا خاندان دنیا کی آسائشوں اور رعنائیوں میں لت پت ہے۔ اپنی خاندانی سعادت کی بنیاد پہ سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر ان کی محنت کی کمائی ہڑپ کرنے میں مصروف ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی محنت اور قربانیوں کی دہائی دے کر عوام کو جنت کا لالچ دیتا ہے جس سے عقیدت کے شوق میں بے عمل ہوتی جا رہی ہے۔

صدقہ جسے نبی پاک ﷺنے اپنی آل پہ حرام کیا تھا اسے اب خاندان نبوت نے وقتی ضرورتوں کے تحت حلال اور جائز قرار دے لیا ہے۔ عمل سے عاری خاندان نبوت کو دیکھ کر آپؑ کی آنکھیں آبدیدہ ہو جائیں گی کہ کس طرح رزائل اخلاق آج کے سادات کی نشاط ثانیہ بن چکی ہے۔ لوگوں کی رہبری کرنے والے کس طرح آسائشوں اور ضروریات کے لالچ میں دنیا کے بھکاری بن چکے ہیں۔

نبی پاک ﷺپہ سب سے پہلے غریب لوگ ایمان لائے تھے اگر اب امام حسینؑ آج کے غریبوں کے ہا تشریف لے جائیں گے تو آپ ؑمشاہدہ کریں گے کہ غریب دنیا کی نعمتوں سے تو محروم ہیں ہی پر انھوں نے صبر و استقامت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اپنی حالت کو قسمت کا کیا دہرا سمجھ کر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھ رہے ہیں محنت اور مشقت سے حالات بدلنے کی بجائے غیبی امداد کی امیدپہ غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے نکمے پن کی بجائے اپنے حالات کی وجہ امیر لوگوں کا وسائل پہ قابض ہونا بتاتے ہیں۔

آپ ؑامت کے امیروں کا حال بھی ملاحظہ کریں گے جن کو اللہ نے سب کچھ دیا ہے مگر وہ اللہ کی نعمتوں کے نا شکرے بن چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی دولت تک غریب کو رسائی دینے سے انکار کر دیا ہے اور انھیں بھوکے کو کھانا کھلانے سے انکاری اور سوالی کو جھڑکتے دیکھیں گے۔ آپؑ یہ بھی دیکھیں گے کہ معاشرتی تقسیم کو اور بھڑہاوہ دینے کے لیے دولت کو چند ہاتھوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ نمودو نمائش کا عنصر اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ لوگ اللہ کی راہ میں دکھاوے کی مد میں تو کروڑوں خرچ کر سکتے ہیں مگر ضرورت مند کی چپکے سے ضرورت پوری کرنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ تجارت اور کاروباری مراکز پہ قارون کو بر اجمان بھی دیکھیں گے۔

اساتذہ کسی بھی معاشرے میں معمار کی حیثیت رکھتے ہیں اسی لیے نبی پاک ﷺ نے بھی اپنی شناخت بطو ر معلم ہی کروئی۔ امام حسین ؑجب آج کے معلمین کے ہاں تشریف لے جائیں گے، جو آپ ﷺکے پیغام کے علمبردار ہیں، تو آپؑ دیکھیں گے کہ معلم جدید علوم سے عاری ہیں۔ لوگوں کی ترجیحات میں استاد ہونا بہت بعد میں ہے۔ کوئی قابل آدمی خود کو استاد بنانے پہ آمادہ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے استاد کی مسند نا اہل افراد کے ہاتھوں میں آنے سے تدریس اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اور علامہ اقبال کا یہ مصرعہ آپ ؑکو اپنی کہانی آپ بیان کرتا نظر آئے گا

وہ علم کے موتی وہ کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ

معلمین کی یہ حالت دیکھ کر آپؑ سکولو ں، کالجوں مدرسوں اور جامعات کا رخ کریں گے تو آپؑ اقرا کا سبق کسی جگہ ایسے پڑھتے نہ دیکھیں گے جیسے پڑھنے کا کا حق تھا۔ لوگ اس حال میں نظر آئیں گے کہ غیر معیاری اور دین و دنیا کے تقاضوں سے بہت دور کا سلیبس ان کے ہاتھوں میں ہے جس سے وہ اپنی پستی کی راہوں کی نگہبانی کر رہے ہیں۔ کہیں بھی آپ دنیا پہ حکمرانی کرنے والے علوم سیکھتے امت کو نہ دیکھیں گے اور نہ ہی سانس کے علوم درس گاہوں کی زینت بن پائیں ہوں گے۔ یہ بات بھی آ کے دیکھنے میں آئے گی کہ غیر کے چباچبا کر پھینکے گئے نوالوں سے امت اپنی علمی بھوک مٹانے میں مصروف عمل ہے اور مومن کی گمشدہ میراث اب تلاش گمشدہ کی فہرست سے بھی نکال دی گئی ہے۔ اس لیے امت کا علم کے حوالے سے عدم دلچسپی کا رجحان ہے۔

امام حسین ؑان خصوصیات جن کو حسینیت سے تعبیر کیا جاتا ہے تلاش کرنے کے لیے امت کے تاجر حضرات کے پاس پہنچ کر بھی آپ دیکھیں گے کہ وہ زیادہ مصروف ہیں۔ موذن کی آواز سے ان کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگ رہی۔ وہ بہت ہی انہماک سے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مال ذخیرہ کرنے اور مال مہنگے داموں بیچنے کی فکر میں غرق ہیں۔ آپ ان کے پاس قوم شعیب کی طرز پہ خرید و فروخت کے لیے الگ الگ ترازو بھی دیکھیں گے اور انھیں من غشا فلیسا منا کا درس پس پشت ڈال کر ملاٹ والا مال بیچتے بھی پائیں گے اور یہ بھی ملاحظہ کریں گے کہ ملاوٹ شدہ مال سے لوگوں کی کی صحت پر پڑنے والے اثرات بھی ان کی بے حسی پہ کوئی فرق نہیں ڈال رہے تھے۔

جمعہ کی نماز کا وقت ہونے پر آپؑ مسجد کا رخ کریں گے اور اسی بہانے سے دین کے مبلغین اور وارث منبر و محراب کی حالت زاع دیکھنے کا بھی موقعہ ملے گاآپ ؑدیکھیں گے کہ منبر پہ جلوہ افروز شخص کے بارے میں لوگوں میں عجیب عجیب باتیں ہو رہی تھیں۔ امام مسجد کے اوپر جھوٹ، بددیانتی اور بد عہدی کے سنگین ترین الزامات ہیں اور اس کے باوجود وہ مسلمانوں کی جماعت کا امام ہے۔ امام مسجد برملا اپنی تقریر میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہا ہے۔

مسلمانوں کے باقی فرقوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج کرنے پر بھی اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ آپ عؑلماء اکرام کو قرآن پاک سیاق سباق کے بغیر بیان کرتے بھی سنیں گے۔ آپؑ کے لیے یہ بھی باعث تشویش ہو گا کہ آج آدھی آدھی قرآنی آیات سے اپنے عقیدے استوار کر لیے گئے ہیں۔ پھر ان آیات کو جو صریحا کفار اور منافقین کے لیے نازل ہوئیں ان کو مسلمانوں پہ فکس کر کے انھیں دوزخی بتایا جا رہا ہے۔ علماء کو قرآن کے فہم کے لیے منہ پھاڑ پھاڑ کر پیسے مانگتے بھی دیکھیں گے اور پھر سامعین کے عقیدے اور ذوق کے مطابق قرآن کو بدل بدل کے بیان کرتے بھی دیکھیں گے۔ ایسے لوگوں پہ آپ کو سخت افسوس ہو گا جنھوں نے دنیا کی معمولی سی دولت کے بدلے قرآن بیان کرنے کا اجر اللہ کے ہا سے لینے کی بجائے خود طے کر لیاہے۔

آپؑ اگر اسی دوران حکومتی ایوانوں کا دورہ کریں گے تو آپ ؑکو بہت کوفت ہو گی کہ ہر مسند پہ یذید جلوہ افروز ہے۔ جو لمحہ با لمحہ اپنے اقتدار کی طوالت کی تراکیب کر رہا ہے جوحکومتی خزانے کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر اپنے ذاتی تصرف میں لا رہا ہے۔ اپنے اقتدار کے لیے جسے خطرہ محسوس کرتا ہے اسے قبر کے اندھیروں میں اتار دیتا ہے۔ آپؑ کو دورحسین کا یذید ایک ایک حساب سے بہتر بھی لگا کہ اس نے کربلا کا میدان پردے کے پیچھے رہ کر سجایا تھا جس کی وجہ سے وہ آج بھی شک کا فائدہ لے رہا ہے۔

مگر آپ آج کے حکمرانوں کو کروڑوں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ٹی۔ وی پہ براہ راست بوڑھوں کی داڑھیاں کھینچ کھینچ کر گھسیٹتے، حاملہ عورتوں کو کنٹینرز کے نیچے سے گھٹنوں کے بل چلتے، خواتین کو منہ پہ گولیوں سے نشانہ لگاتے ہوئیں دیکھیں گے اور پھر اس ”فتح“ پہ حکمرانوں کو مبارک باد کے لیے بغل گیر ہوتے ہوئے بھی دیکھیں گے۔

آپ ؑ کا حسینیت کی تلاش کا یہ سفر کسی مثبت پہلو کی مو ہوم سی امید لیے اگر عدلیہ کی جانب بڑھے گا تو عدالت کے دروازے پہ رکتے ہی کئی عشروں سے لوگ انصاف کے لیے دہائی دیتے ہوئے ملیں گے۔ معلوم ہو گا کہ عوام الناس اپنے حق کے لیے انصاف کی دہلیز پہ سر پٹخ پٹخ کر مر گئے ہیں پر قانون حرکت میں نہیں آیا۔ ماؤں کی گود خالی ہونے، باپ کے بڑھاپے کا سہارا چھن جانے، سہاگنوں کے سہاگ اجڑ جانے، بہنوں کے بھائی بچھڑ جانے پر بھی عدل کی زنجیر ہلا ہلا کر مظلوم تھک ہار کر مایوس ہو چکے ہیں پر منصف اندھا، بہرہ اور گونگا ہو چکا ہے۔ انصاف امیروں، حکمرانوں اور صاحب ثروت لوگوں کے محلوں میں باندی کے کی نوکری کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔

اب باری آئے گی میدان جنگ کی تو رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر آپ کا منتظر ہو گا۔ آپ ؑکو معلوم ہو گا کہ اسلام کے نام پر سکولوں کو بمبوں سے اڑایا جا رہا ہے۔ سکولوں میں پڑھتے ہوئے بچوں کو خاکستر بنایا جا رہا ہے۔ کلمہ گو لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ اور اسلام کے نام پر اجتماعی نظم و ضبط کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ آپ کو ایسی شریعت بھی دیکھنے کو ملے گی جس میں اقلیتوں کو حق زندگی سے محروم کر دیا گیا ہو گا۔ جہاں مسلکی اختلاف، جسے رسول مکرم نے رحمت قرار دیا ہے، کی بنیاد پر لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کو قبل از اسلام سے بھی زیادہ اذیت ناک زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیا گیا ہے۔ اسلامی شعار کو غیروں کی نظر میں مذاق بنا دیا گیا ہے۔

حسینت کی تلاش کا یہ سفر بہت زیادہ اعصاب شکن ہو گا آپ ؑکے علم میں یہ بات بھی آئے گی کہ جن اوصاف کا نام اسلام تھا جن کی بنیاد آپ ؑکے نانا ﷺنے رکھی، جن کی نگہبانی آپ کے والد بزرگوار اور خلفائے راشدین نے کی اور جن کی آبیاری آپ ؑنے خود کی تھی وہ مسلم علاقوں سے ہجرت کرکے غیر مسلموں کے علاقوں میں چلے گئے ہیں اور آپ ؑمسلمانوں کی حالت زار پہ انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھا اور پہاڑ پہ چڑھ گئے تاکہ غیر مسلموں کے علاقوں میں چلے جائیں۔ آپ ؑپہاڑ کی چوٹی پہ چڑھ کر پیچھے مڑکر ایک آخری نظر ڈالیں گے تو پورا معاشرہ آپ کی نظر میں ہو گا۔

اب نیچے یہ عالم ہو گا کہ آپ کو بازار بھرے اور مساجد خالی دکھائی دیں گے۔ شفقت سے محروم ماں باپ اور اطاعت سے خالی اولاد بھی آپ کی نظر سے گزرے گی۔ ظالم حکمران، جابر امراء اور خاموش منصف بھی ناقابل تردید حقیقت ہوں گے۔ خواتین کو سرے بازار ننگے پاؤں اور ننگے سر لا کر امام حسین سے عقیدت کا اظہار کیا جا رہا ہو گا۔ عورتوں کی عصمت دری، بچوں سے جنسی زیادتی، معصوم بچوں کے اغواء بھی منہ چڑھاتے نطر آئیں گے۔ علما ء کو امت میں بگاڑ ڈالتے بھی دیکھیں گے۔ معاشرے میں زناء، چوری، ڈکیتی، راہزنی، قتل و غارت کے ناسور بھی معاشرتی بدصورتی میں اضافہ کر تے نظر آئیں گے آپ ؑکو مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر میں بھی کوئی صداقت نظر نہیں آئے گی

قتل حسین اصل میں مرگ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کیوں کہ اب گلی گلی کوچے کوچے میں کربلا بر پا ہے۔ اب یذید تو دندناتا پھر رہا ہے مگر کوئی حسین ؑنہیں ہے۔ اسلام لہو لہو ہے پر کوئی محافظ نہیں ہے۔ اب تو یذید ہی یذید سے بر سر پیکار ہے۔ افسوس کا عالم یہ ہے کہ جنھوں کے جھنڈا حسینؑ کا اٹھا رکھا ہے انھوں نے بھی حلف یذید ہی سے لے رکھا ہے۔ ”ہمارا ہے حسینؑ“ کا نعرہ تو سب نے لگایا مگر کوئی بھی حسینؑ کا نہ بنا۔ کسی نے بھی امام حسینؑ کی خاطر خود کو نہ سدھارا۔ امام حسینؑ کی محبت میں جھوٹ اور بد عہدی کا دامن جھوڑ نہ سکے اور نہ ہی نماز اور روزے کا دامن تھام سکے۔

ہم نے خود کو مومن توبنا لیا مگر صاحب ایمان نہ ہو سکے۔ امت نے امام حسین ؑکی قربا نی کے فلسفے اور فکر کو زامنے کی غلام گرشوں میں قید کر دیا اور آپ کی محبت کو کبھی عملی جامہ نہ پہنایا۔ امام حسین ؑکے لیے خود میں برداشت، صلہ رحمی اور معاف کردینے کی روش کو فروغ نہ دے سکے۔ امام حسینؑ کے لیے ہماری محبت میں اتنی بھی طاقت نہ تھی کہ ہم نرمی سے بولنے کا انداز ہی اپنا لیں۔ امام حسین ؑکی محبت دلوں میں غصے اور نفرت کی جگہ محبت اور انسان دوستی کے جذبات بھی نہ پیدا کر سکی۔ الغرض ایک ایسی صفت بھی امت میں پیدا نہ ہو سکی جس سے کوئی دیکھ کر یہ کہہ دے کہ یہ محبت حسین ؑکی نشانی ہے۔ اگر ایک جملے میں مضمون کو بند کیا جائے تو ”امت ساری کی ساری کوفی ہے“

ذرا سوچیے! حسینیت کی تلاش میں امام حسینؑ کا یہ سفر کتنا تکلیف دہ رہا ہو گا؟ اپنی قربانی کو یوں رائیگاں ہوتا دیکھ کر ہر سال محرم امام حسین ؑ کے لیے کتنا تکلیف دہ ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).