مسلم لیگ نون کے صدر کا پراسرار کردار


پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں حکومت کی دوسالہ کارکردگی پر بحث جاری ہے۔ مخالفت و حمایت میں دلیل کے ساتھ مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت کی طرف سے کی گئی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے مضبوط اپوزیشن اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کہنے کو تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑی مضبوط اپوزیشن ہے مگر یہ صرف کہنے کی حد تک ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ نون لیگ کے صدر اس وقت عجب مخمصے میں ہیں۔ ان کا کردار پراسرار ہے۔

میں شہر اقتدار سے صحافت کی دنیا میں ابھی پاؤں گھسیٹ رہا ہوں۔ کورٹ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ایوان بالا کور کرتا ہوں۔ ایوان بالا میں مسلم لیگ نون کے کچھ سینیٹرز صاحبان کے نام ہیں جن میں سے اکثر 2015 ء اور کچھ 2018 ء سے جماعت کی ایوان بالا میں نمائندگی کر رہے ہیں۔ ماضی بعید کو فی الوقت چھوڑ دیں ماضی قریب کو دیکھ لیں۔ 2018 ء سے اب تک کا عرصہ مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں، عدالتوں میں مقدمے، سزائیں، جیلیں، جائیدادوں کی ضبطی، نا اہلی اور اسی نوعیت کی کیا کیا مشکلات ہیں جو شریف خاندان اور مسلم لیگ نون کے صف اول کے بہت سارے رہنماؤں پر آئی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود بڑی تعداد میں مسلم لیگی اراکین اس قیامت کے بعد بھی کوئی زوردار آواز نہ اٹھا سکے۔

جب میں ایوان بالا کا ذکر کرتا ہوں تو میرے سامنے راجہ ظفرالحق، پرویز رشید، مشاہد حسین سید، آصف کرمانی، سردار محمد یعقوب خان ناصر، جاوید عباسی، رانا محمودالحسن، شاہین خالد بٹ، رانا مقبول احمد، مشاہد اللہ خان، حافظ عبدالکریم، ڈاکٹر اسد اشرف، مصدق ملک، چوہدری تنویر خان، اسد علی جونیجو، سید محمد صابر شاہ، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی، غوث محمد خان نیازی، دلاور خان، آغا شاہ زیب درانی، نجمہ حمید، راحیلہ مگسی، کلثوم پروین، پروفیسر ساجد میر اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سلیم ضیاء جیسے نام آتے ہیں۔

میں نے یہ سارے نام اس لیے لکھے ہیں کہ قارئین اندازہ لگا لیں ان میں کتنے ہیں جنھوں نے ایوان بالا میں کسی بھی موضوع پر پر زبان کھولی ہو یا شریف خاندان اور مسلم لیگی راہنماؤں پر آنے والی قیامت پر صدائے احتجاج بلند کی ہو۔ راجہ ظفرالحق اپوزیشن قائد ہونے سے کبھی کبھار لب کشائی کرتے ہیں ان کے علاوہ تواتر سے بولنے والوں میں سینیٹر پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، جاوید عباسی اور خال خال مصدق ملک کی آواز سنائی دیتی ہے۔

صحافتی حلقوں میں یہ بات مصدقہ ذرائع کے ساتھ گردش کر رہی ہے کہ کم از کم 2018 ء میں جن لوگوں کو ایوان بالا کے ٹکٹ ملے ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر سب کو مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف کی ضد اور اصرار پر ایک دو نہایت ہی معتبر نام فہرست سے نکالنا پڑے جو میاں نواز شریف کے نامزد کردہ تھے۔ اب کوئی شہباز شریف سے پوچھے کہ جناب محترم آپ نے جو ٹیم ایوان بالا میں بھیجی ہے ان میں سے کتنے ہیں جو آپ کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں؟ اکثریت نے تو شاہد ایوان بالا میں لب کھولنا بھی مناسب نہ سمجھا اور یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے منہ میں زبان ہے کہ نہیں۔ شہباز شریف کی یہ کارکردگی نااہل اور غیر مستحق لوگوں کی سرپرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جہاں تک بالخصوص پچھلے دو سالوں کی سیاست کا تعلق ہے مسلم لیگ نون بہت بڑی جماعت ہوتے ہوئے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی عوام اس سے توقع رکھتے تھے۔ اگر شہباز شریف کی صحت ٹھیک نہیں اور وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے تو پھر کیا مناسب نہیں ہو گا کہ وہ اس منصب کے ساتھ چمٹے رہنے اور اپنے پیشہ وارانہ فرائض سے نا انصافی کرنے کی بجائے الگ ہو جائیں کسی اور کو یہ عہدہ سنبھالنے دیں۔ دو سال کے دوران مسلم لیگ نون کا پارلیمنٹ کے باہر کردار اتنا غیر موثر رہا کہ جیسے یہ کوئی تانگہ پارٹی ہو۔

قیادت یقیناً حکمت اور سوچ سمجھ کے ساتھ راستہ بنانے کا نام ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ غیر ضروری طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی جائے لیکن کیا قیادت کو عوام کے جذبات اور احساسات کا احساس بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیا قیادت کو اپنا آئینی، جمہوری اور سیاسی کردار موثر طریقے سے ادا نہیں کرنا چاہیے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ سزا سننے کے بعد میاں نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کو ساتھ لیے اس توقع کے ساتھ لاہور ائرپورٹ پر اترتے ہیں کہ عوام کا ایک بڑا جمع غفیر موجود ہو گا۔ لیکن پتہ چلتا ہے کہ نہ جانے کس کے اشارے پر وہ جمع غفیر شہباز شریف کی رہنمائی میں لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر ایک دائرے کی صورت گردش کرتا رہا۔

مولانا فضل الرحمان کو شہباز شریف یقین دلانے کے باوجود انھوں نے اپنی پارٹی کو متحرک نہ کیا اور آزادی مارچ میں مولانا کو تنہا چھوڑ دیا۔ اب جب مولانا اے پی سی کی کوشش کر رہے ہیں تو شہباز شریف ماضی کی طرح ان کوششوں کو بھی ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا مسلم لیگ نون سے ناراض ہیں اور اسی پس منظر میں انھوں نے لندن میں میاں نواز شریف سے رابطہ کر کے اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کیا۔ مولانا کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے نہ صرف افسوس کا اظہار کیا بلکہ معذرت بھی کی کہ وہ آئندہ ان امور کی خود نگرانی کریں گے۔ مولانا کے قریبی ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ انھیں میاں نواز شریف اور مریم نواز سے کوئی گلہ نہیں لیکن وہ شہباز شریف کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے یہ شکوہ بھی کیا ہے کہ آپ مریم کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں اصل لمحہ فکریہ میاں نواز شریف کے لیے ہے کیونکہ عوام کا ووٹ بنک ان کے نام سے جڑا ہے۔ اس وقت ان کے نام اور بیانیہ کی ترجمانی مریم نواز کر رہی ہیں۔ جبکہ کچھ پتہ نہیں شہباز شریف کیا کر رہے ہیں؟ سیاسی اور جمہوری اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ نواز شریف اپنی پارٹی کو سنبھالیں وہ اپنے بھائی سے محبت کرتے ہیں تو بے شک اپنے نام کی کوئی زمین، کوئی فیکٹری، کوئی کارخانہ یا کوئی اور جائیداد ان کے نام کر دیں لیکن مسلم لیگ نون عوام کی وراثت ہے اور بانی پاکستان سے منسوب کو کبھی ذاتی اثاثے کے طور پر ان ہاتھوں میں نہ دیں جن میں اس اثاثے کو سنبھالنے کی نہ سکت ہے نہ جرات اور نہ حوصلہ۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui