دھند کے شہر میں اجنبی


بہت خوبصورت فلیٹ تھا۔ بڑی بات یہ تھی کہ فرنشڈ تھا۔ کیا واقعی یہ میرا فلیٹ ہے۔ لاؤنج میں ٹی وی بھی موجود تھا۔ میں نے ٹی وی آن کیا اور صوفے پر بیٹھ کر خبریں سننے لگا۔ خبریں کچھ خاص نہیں تھیں یا شاید میں توجہ سے نہیں سن رہا تھا۔ بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔ فریج کھول کر دیکھا، کھانے پینے کا سامان موجود تھا۔ چناں چہ پہلے بھوک مٹائی۔ اس کے بعد سوچنے کی کوشش کی مگر نیند کا خمار ایسا تھا کہ چند منٹ سے زیادہ نہ سوچ سکا۔

آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی۔ باہر روشنی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ دھند تو تھی مگر نسبتاً کم تھی۔ شاید آج کچھ پتا چل سکے۔ میں نے ناشتا کیا اور تیار ہو کر فلیٹ سے نکلا۔ لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے دو تین اور لوگ بھی نظر آئے۔ میرے لیے وہ بھی اجنبی چہرے تھے۔ بلڈنگ کے مین گیٹ کے پاس کل والا گارڈ موجود نہیں تھا کوئی اور کھڑا تھا۔

شاید اس کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو گیا ہو۔ میں نے ایک بار پھر آوارہ گردی کا آغاز کیا۔ موسم زیادہ سرد نہ تھا مگر دھند موجود تھی۔ کافی دیر گھومنے کے بعد میں نے اس شہر کے کئی گوشے دریافت کیے تاہم یہ شہر میرے لئے اجنبی ہی تھا۔ ایک پارک نظر آیا تو میں اس کے اندر چلا گیا۔ اس پارک میں جھولے بھی تھے۔ مرد و زن اور بچے کافی تعداد میں موجود تھے۔ میں ایک پتھر کی بنچ پر بیٹھ کر ان کا جائزہ لینے لگا۔ پھر دو بچوں نے میری توجہ حاصل کر لی۔

ایک لڑکا تھا اور ایک لڑکی۔ لڑکے کی عمر چھ سات برس ہو گی اور لڑکی آٹھ نو برس کے لگ بھگ رہی ہو گی۔ وہ سلائیڈ والے جھولے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور خوب ہنستے ہوئے چھوٹی چھوٹی شرارتیں کر رہے تھے۔ مجھے وہ بہت پیارے لگ رہے تھے۔ میں کچھ دیر انہیں دیکھ کر مسکراتا رہا۔ زندگی کتنی حسین ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں اٹھا اور ٹہلنے لگا۔ پارک میں رنگ رنگ کے پھول کھلے تھے۔ فضا میں مسحور کن خوشبو پھیلی تھی۔ یکا یک مجھے تنہائی کا احساس ہوا۔ میں پارک سے باہر آ گیا۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے میں نے سڑک کا جائزہ لیا۔ بہت سی گاڑیاں سڑک پر رواں دواں تھیں۔ فٹ پاتھ پر چلنے والے بھی سینکڑوں تھے۔ مگر ان میں سے کوئی میرا شناسا نہ تھا۔ کاش ان میں سے کچھ میرے جاننے والے ہوتے۔ میں چلتے چلتے ان کا حال پوچھتا وہ میری خیریت دریافت کرتے۔

”اجی مرزا صاحب کہاں جا رہے ہیں؟“
”قبلہ والد صاحب کی دوا لینے جا رہا ہوں، بعد میں ملتا ہوں۔“
”شیخ صاحب! بہت جلدی میں ہیں؟“
”بھائی صاحب! بیگم کو میکے چھوڑنا ہے، وہ گھر میں تیار بیٹھی ہیں، آپ سے کل ملوں گا۔“

مگر یہ سب تصورات تھے۔ وہاں کوئی اپنا نہ تھا۔ دل میں عجیب سی اداسی بھر گئی۔ عین اسی وقت سامنے سے ایک لڑکی آتی دکھائی دی۔ وہ بھی میری طرح سست روی سے چل رہی تھی۔ نہ جانے کیوں میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور تھی۔ جب وہ میرے قریب پہنچی تو میں نے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی دیکھی۔ وہ بھی میری آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔

میرے قدم خود بخود رک گئے۔
”ایکسکیوز می! کیا آپ بتا سکتے ہیں، یہ کون سا شہر ہے؟“
اس نے رکتے ہوئے سوال کیا۔
میرے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
”کیوں نہیں، بالکل بتا سکتا ہوں، یہ دھند کا شہر ہے۔“

”اچھا مذاق ہے، پھر تو آپ یہاں اجنبی ہوں گے۔“ اس نے برا مانے بغیر جوابی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”کہیں یہ بات میرے چہرے پر تو نہیں لکھی ہوئی۔“ میں نے پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”واقعی لکھی ہے، لکھا ہوا تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر میں نہیں بتاؤں گی۔“
”کیوں کیا بتانے سے مجھے نظر لگ جائے گی؟“

”یہ بات نہیں ہے، میں اجنبیوں سے زیادہ بات نہیں کرتی۔“
”آہ میں تو بات کرنے کو ترس گیا ہوں۔ یہاں سب میرے لئے اجنبی ہیں۔“
”کیا مطلب؟ آپ کے رشتے دار، دوست اور جاننے والے تو ہوں گے۔“ وہ سنجیدگی سے بولی۔
”کوئی نہیں ہے میرا۔ اس شہر میں اجنبی ہوں۔“

”اچھا۔ آپ اپنا تعارف کروانا پسند کریں گے۔“ اس کی دلچسپی کی وجہ کچھ بھی ہو مگر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔
”سنئیے! نام نامعلوم، قومیت نامعلوم، ماضی نامعلوم، مستقبل نامعلوم۔“

وہ چند لمحوں تک حیرت سے مجھے دیکھتی رہی۔ ”یقین نہیں آتا، بہر حال آپ سے بات کر کے اچھا لگا۔“ اس کا لہجہ کچھ عجیب سا تھا۔ اجلی رنگت، سیاہ بالوں اور سرخ ہونٹوں والی اس لڑکی کے چہرے پر اضطراب تھا۔ اس نے مجھ پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور آگے بڑھ گئی۔ میں وہیں رک کر اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ مجھ سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اچانک مجھے ایسا لگا جیسے کچھ غلط ہو رہا ہے، جیسے میری ٹرین چھوٹ رہی ہے۔ میں فوراً تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس کی طرف لپکا۔

اس نے میرے قدموں کی آہٹ سن کر پلٹ کر میری طرف دیکھا۔
”کیا آپ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔“

”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ بھی اس شہر میں اجنبی ہیں۔“ میں نے جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے لیکن میں بات نہیں کر سکتی۔ مجھے جانا ہے۔“ اس نے مجھ سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔

”مگر تم جاؤ گی کہاں؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟ گھر چھوڑو اپنا نام ہی بتا دو۔ ۔ ۔ مگر کیسے بتاؤ گی۔ نام یاد ہو گا تو بتاؤ گی ناں۔“
وہ میری بات سن کر چونک اٹھی۔ ”کیوں نہ ہم کہیں بیٹھ کر بات کریں۔“
میں مسکرا اٹھا۔
”وہ سامنے کافی شاپ ہے۔ آؤ وہاں بیٹھتے ہیں۔“
چند منٹ بعد ہم کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔

”مجھے اپنا نام یاد نہیں آ رہا۔ شاید میں نے یادداشت کھو دی ہے۔ یہ شہر مجھے اجنبی لگ رہا ہے لیکن ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو، مجھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔“ اس نے کسی قدر پریشان لہجے میں کہا۔
”اچھا ایک بات بتاؤ تمہارے ذہن میں پہلی یاد کیا ہے؟“ میں نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔

”میں ایک ٹرین میں تھی۔ میرے حواس بحال ہوئے تو ٹرین رکی اور کسی نے کہا کہ آپ کا اسٹیشن آ گیا۔ میں ٹرین سے اتر کر اسٹیشن سے باہر آئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں یہاں اجنبی ہوں۔ میں نے اپنے بارے میں یاد کرنے کی کوشش کی تو کچھ بھی یاد نہ آیا، یہاں تک کہ اپنا نام بھی نہیں۔“

اس کی بات سن کر میں بری طرح چونک اٹھا۔ اگرچہ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ بھی میرے جیسے حالات کا شکار ہے لیکن اس کی کہانی بالکل میری کہانی ہو گی یہ میں نے نہیں سوچا تھا۔

”سنو میں سمجھتا تھا کہ میں اکیلا ایسا شخص ہوں جو اس عجیب و غریب کیفیت کا شکار ہے لیکن اب معلوم ہوا کہ ایسا کوئی اور بھی ہے اور وہ تم ہو۔ تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ میری آنکھ بھی ایک ٹرین میں کھلی تھی اور مجھے بھی باوجود کوشش کے اس سے پہلے کی کوئی بات یاد نہیں آ رہی۔“ میری آواز آخری فقرے پر بہت دھیمی ہو گئی کیونکہ ویٹر کافی لے آیا تھا۔ کافی پیتے ہوئے اس سے گفتگو جاری رہی۔ ہم دونوں کے حالات واقعات میں حیرت انگیز مماثلت تھی۔

”اچھا سنو جب تک ہمیں اپنے نام یاد نہیں آتے۔ مخاطب کرنے کے لئے کوئی نام رکھ لیتے ہیں۔“ میں نے مشورہ دیا۔

” مثلاً کوئی نام بتائیں؟“ وہ مسکرائی۔
”جیسے جانو، بے بی، ہنی، سویٹی، ڈارلنگ وغیرہ۔“ میں نے شرارتی انداز میں کہا۔

” جی نہیں بہت شکریہ۔ مجھے ایسے نام بالکل پسند نہیں۔ اگر نام ضروری ہے تو۔ تو آپ مجھے شین کہہ سکتے ہیں۔“ اس نے زیر لب مسکراتے ہوئے پر خیال انداز میں کہا۔

”اؤ کے، تمہاری مرضی، تو پھر تم مجھے جے کہہ سکتی ہو۔“
” ٹھیک ہے جے، مجھے منظور ہے۔“ وہ بولی۔
”تو پھر مجھے بھی قبول ہے شین۔“
”آپ ذومعنی گفتگو سے پرہیز کریں۔“ اس نے آنکھیں دکھائیں۔
”میرا تو ایک ہی مطلب تھا، خیر یہ بتاؤ شین کہ اب تم جاؤ گی کہاں؟ گھر تو تمہارا ہے نہیں۔“
” جے یہی تو پریشانی ہے۔ کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس ڈھونڈنے میں میری مدد کریں ناں۔“

”میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے۔ ہم دونوں اس بھری دنیا میں ایک جیسے حالات کا شکار ہیں اور اب اجنبی بھی نہیں رہے تو کیوں نہ تم میرے گھر چلو، ابھی ہمیں بہت سی باتیں کرنی ہیں اپنی یادداشت کو کھنگالنا ہے۔“

”ہوں۔ شاید یہی بہتر ہے۔ اگر ہم نے ایک دوسرے کو کھو دیا تو شاید بہت مشکل میں پڑ جائیں۔“ شین نے کچھ سوچ کر آمادگی ظاہر کر دی۔ کافی کا بل ادا کرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل آئے۔ شام ہو رہی تھی۔ میں نے ایک ٹیکسی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ”سکائی ٹاور چلو گے؟“ میں نے ڈرائیور سے کہا۔ اس نے سر ہلا دیا۔ بیس پچیس منٹ بعد ہم سکائی ٹاور کے گیٹ پر تھے۔ بڑی بڑی مونچھوں والا سکیورٹی گارڈ ڈیوٹی پر موجود تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اس نے سلام کیا۔

”یہ یقیناً میرے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ مجھے اس سے بات کرنی چاہیے۔“ میں نے سوچا مگر شین ساتھ تھی ابھی میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے سر ہلایا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔ فلیٹ نمبر 501 کے دروازے پر پہنچ کر میں نے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر شین سے بولا۔ ”یہ میرا غریب خانہ ہے۔ آج سے تم بھی اسے اپنا ہی سمجھو۔“

شین کو یہ چھوٹا سا فلیٹ بڑا اچھا لگا۔ بھوک لگ رہی تھی میں نے شین سے کہا کہ باہر سے کھانا لے آتا ہوں مگر اس نے منع کر دیا۔ فریج میں گوشت اور سبزیاں وغیرہ موجود تھیں۔ ”میں کھانا خود بناؤں گی۔“ اس نے اعلان کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3