دھند کے شہر میں اجنبی


”واہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو گی۔“ میں نے خوش ہو کر کہا۔ ”زیادہ خوش نہ ہوں، آپ کو میری مدد کرنی پڑے گی۔“ اس نے فوراً آنکھیں دکھائیں۔ چناں چہ مل جل کر کھانا بنایا گیا اور اس کھانے کی لذت بے مثال تھی۔ کھانے کے بعد ہم ٹی وی دیکھنے لگے اگرچہ ٹی وی کی طرف دھیان کم ہی تھا۔

”مجھے تو نیند آ رہی ہے۔“ اس نے خمار آلود آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہے تم سو جاؤ۔ میں ابھی جاگنا چاہتا ہوں۔“ میں نے کہا۔

”کیوں جاگنا چاہتے ہیں، چلیں آپ بھی ٹی وی بند کریں، بہت دیر ہو گئی ہے۔“ اس نے تیز لہجے میں کہا۔ عین اسی وقت بادل زور سے گرجا۔

”اوہ شاید بارش آنے والی ہے۔“ ابھی میں نے یہ جملہ ادا ہی کیا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ وہ آگے بڑھی اور کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگی۔ میں بھی آگے بڑھا اور اس کے قریب کھڑے ہو کر باہر جھانکا۔ اندھیرا تھا اور کچھ خاص دکھائی نہ دیتا تھا۔ گرج چمک جاری تھی۔ ”اف مجھے تو سردی لگنے لگی ہے۔“ وہ بولی۔

”واقعی سردی بڑھ گئی ہے۔“ میں نے پشت کی طرف سے اسے بڑی نرمی سے اپنے بازوؤں کے حلقے میں لیتے ہوئے کہا۔
”یہ بارش، یہ موسم اور ہم، جے اور شین، اچھا ہے، مگر جے آپ کون ہیں؟“ وہ خوابناک سے لہجے میں بولی۔

”میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ تم کون ہو لیکن میں بہت خوش ہوں کہ اس لمحہ موجود میں تم میرے ساتھ ہو۔ اب میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جاننا چاہتا۔“ میرے منہ سے الفاظ خود بخود نکل رہے تھے۔

وہ مڑی اور میری آنکھوں میں جھانکنے لگی۔ ”ذرا دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے؟“
” میں ہوں“ میں نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
”آپ تو یہاں ہیں یہاں۔“ اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

اس کے سرخ لب کپکپا رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ لب نہیں مے ارغواں کے پیالے ہوں۔ سبو اور مینا گویا میرے سامنے تھے۔ ساغر چھلکنے کو تھا۔ میں نے جام لبوں سے لگا لیا۔ میری گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی۔

”کیا مار ہی ڈالیں گے مجھے۔“ شین کی آواز خمار آلود تھی۔
”جی چاہتا ہے کہ تم مجھ میں سما جاؤ اور ہم ایک ہو جائیں۔“

”ایک ہو تو چکے ہیں۔ میں اب کہاں میں رہی ہوں۔“ سپردگی کا یہ انداز مجھے کسی اور ہی جہان میں لے گیا۔ رات نہ جانے کب بارش تھمی اور کب ہم دونوں نیند کی وادی میں اتر گئے۔

صبح میری آنکھ کھلی تو وہ میرے بازوؤں میں تھی۔ بہر حال ناشتا کرنے کے بعد ہم نے سوچا کہ اپنی تلاش بھی ہوتی رہے گی پہلے شہر کو دیکھا جائے۔ باہر نکلے تو اندازہ ہوا کہ دھند سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ بارش کے باوجود شہر میں دھند پھیلی تھی۔ ہم سب کچھ بھلا کر شہر کی سیر پر نکلے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے پتھریلے راستوں پر چلتے رہے۔ شاپنگ مال میں ونڈو شاپنگ کی۔ پارک میں ٹہلے اور ایک خوبصورت ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا۔ کچھ گھنٹوں کے لئے ہم نے یکسر بھلا دیا کہ ہم کون ہیں اور کہاں ہیں۔ شام ہونے لگی تو ہم نے واپسی کی ٹھانی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ وقت گزرتا جا رہا ہے، چار دن کی زندگی ہے اور ہمیں جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ آخر ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہوا ہے۔

وہ بڑی مونچھوں والا گارڈ مجھے جانتا ہے۔ آج ہر حال میں اس سے پوچھنا چاہیے۔ میں نے ایک ٹیکسی والے کو روکا اور سکائی ٹاور کا نام بتایا۔ شین کو بھی اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ وہ بھی بہت پرجوش تھی شاید اس پہیلی کا کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔ ٹیکسی سے اتر کر ہم عمارت کے مین گیٹ کی طرف بڑھے۔

مخصوص جگہ پر وہ گارڈ موجود نہیں تھا۔ میں بے چینی سے ادھر ادھر اسے دیکھنے لگا۔
”کسے ڈھونڈ رہے ہیں سر؟“ گارڈ کی وردی پہنے ایک اجنبی شخص نے پوچھا۔

”یہاں ایک گارڈ ہے، بڑی بڑی مونچھوں والا۔ اس کی روز شام کو ڈیوٹی ہوتی ہے۔ میں اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ کہاں ہے وہ؟“ میں نے جلدی سے کہا۔

اجنبی گارڈ نے تاسف سے سر ہلایا۔ اوہ تو آپ ہدایت کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ افسوس وہ آپ سے نہیں مل سکتا۔ ”
”کیوں نہیں مل سکتا؟“ شین نے چونک کر کہا۔

”وہ وہاں چلا گیا ہے جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ آج صبح وہ مر گیا۔“ گارڈ کے لہجے میں دکھ تھا۔ وہ کچھ اور بھی بتا رہا تھا لیکن میں اس سے زیادہ نہ سن سکا۔ میں نے بے بسی سے شین کی طرف دیکھا اور ہم چپ چاپ لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔

فلیٹ میں پہنچ کر ہم نے کھانا کھایا۔ آج ہم دونوں خاموش تھے۔ عجیب اضمحلال کی فضا تھی۔ شین سونے کے لئے لیٹ گئی مگر مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ عجیب سی بے چینی تھی۔ گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا کھڑکی کھول دوں۔ اٹھ کر کھڑکی کھولی تو اچانک نیچے نظر پڑی۔

مدھم روشنی میں ایک ہیولہ سا نظر آیا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ ایک شخص سیاہ کپڑوں میں ملبوس گھورتا دکھائی دیا۔ ”کون ہو سکتا ہے؟“ میں نے سوچا مگر اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ میں نے پھر اس کی طرف دیکھا وہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلا رہا تھا۔ میں تیزی سے سوچنے لگا۔ کیا مجھے اس کی بات سننی چاہیے۔ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ویسے وہ اس بلڈنگ کے احاطے میں تھا خطرناک ہوتا تو گارڈ نوٹس لیتا۔ شاید اس سے کچھ معلومات مل جائیں۔ شین سو رہی تھی وگرنہ اس سے مشورہ کر لیتا۔ آخر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور باہر نکلا۔ لفٹ کے ذریعے نیچے آیا۔ وہ اسی جگہ کھڑا تھا۔

”مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں مسٹر جے، میں جانتا ہوں آپ کیا سوچ رہے ہیں۔“ وہ مسکرایا۔
”کیا مطلب؟ تم مجھے کیسے جانتے ہو؟ اور میرا نام جے ہے یہ تمہیں کس نے بتایا ہے، شاید یہ میرا نام نہیں ہے۔“ میں نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔ سیاہ پوش دلچسپی سے مجھے دیکھنے لگا۔

” چھوڑیے صاحب! نام میں کیا رکھا ہے۔ آپ خود کو جے کہیں یا کے یا کچھ اور لیکن میں آپ سے ملنے ہی آیا ہوں۔“

” مجھ سے ملنے آئے ہو تو اوپر آ کر دروازے کی گھنٹی کیوں نہیں بجائی۔ یہاں کھڑے کھڑے کیا کر رہے تھے۔“
” آپ سوال بہت کرتے ہیں۔ میں آپ کو آپ کے سوالوں کا جواب دینے ہی آیا تھا اور یہاں کھڑے ہو کر صحیح وقت کا انتظار کر رہا تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ لیا تو سوچا کہ اشارہ کر دوں کہ آپ ہی نیچے آ جائیں۔“ سیاہ پوش نے دوستانہ لہجے میں کہا۔

” کیا ہم یہاں کھڑے کھڑے بات کریں گے۔ آؤ گھر میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ میں نے منہ بنایا۔
” نہیں وقت کم ہے، در اصل مجھے آپ کو کسی سے ملانا ہے۔ آپ کو آپ کے تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔“ اس نے نرمی سے کہا۔

، ”مگر وہ ہے کون؟ اور کہاں ہے؟ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔“ میں نے اعتراض کیا۔
” آپ پریشان نہ ہوں، کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے۔ یہ گاڑی موجود ہے۔ بیٹھ جائیے“ سیاہ پوش نے مضبوط لہجے میں کہا۔
میں نے اب غور کیا کہ ایک سیاہ گاڑی قریب ہی کھڑی تھی۔ ”لیکن مجھے اپنی بیوی کو انفارم کرنا ہو گا، میں ابھی آتا ہوں۔“ میں نے کہا۔

” رکیے اس کی ضرورت نہیں، آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں۔“ میں جیسے اس کی ٹرانس میں آ چکا تھا۔ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی روانہ ہو گئی۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ میں نے جلد بازی سے کام لیا ہے مجھے شین کو بتانا چاہیے تھا۔ سیاہ پوش چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا لیکن اس کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ پھر یکا یک اس نے گاڑی روک دی۔

” آئیے صاحب!“ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
اچانک دھند بہت گہری ہو گئی۔ اب تو چند فٹ آگے دیکھنا بھی محال تھا۔
” یہ تم مجھے کہاں لے آئے ہو اور کس سے ملانا ہے؟“ میں نے کسی قدر پریشانی سے کہا۔

” فکر نہ کریں میرا ہاتھ پکڑ لیں۔ میں آپ کو لے چلتا ہوں۔“ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھنے لگا۔ اب میرے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ چلتا جاؤں۔

” دھیان سے چلیں سیڑھیاں ہیں۔“ سیاہ پوش نے سرگوشی کی۔ چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سیاہ پوش رک گیا۔
، ”لیجیے بس یہیں تک آنا تھا۔“
” لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔“ میں نے الجھ کر کہا۔

” فکر نہ کریں، تھوڑی دیر بعد آپ کو سب کچھ صاف صاف دکھائی دے گا۔ اب آپ کا سفر شروع ہوتا ہے۔“ سیاہ پوش نے یہ کہا اور آگے بڑھ گیا۔

” کیا مطلب کہاں جا رہے تم؟ رکو رکو۔“ میں نے کہا لیکن وہ دھند میں غائب ہو گیا۔ میں نے آگے بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا ہی تھا کہ یوں لگا جیسے زمین حرکت میں آ گئی ہو۔ میں نے فوراً خود کو سنبھالا۔ اس کے ساتھ ہی سیٹی بجی اور دھند کم ہونے لگی۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا میں ایک بار پھر ٹرین میں تھا، ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی اور گولی کی طرح نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3