نفسیاتی عدم توازن کا کرب


شاید تین یا چار سیڑھیاں باقی تھیں کہ ساس کی بوڑھی مکروہ کھانسی کی آواز سے اس کا دماغ بج اٹھا۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے قدم رک گئے۔ کھانسی کی بوڑھی جادوگرنی نے پھر دانت بجائے۔ اوپر چڑھنے والے قدم واپسی کے لیے مڑ گئے۔ آہٹ کم ہونے لگی۔

شبانہ کا خوش گوار احساس سے دھڑکتا دل۔۔۔ زور زور سے اتھل پتھل کرنے لگا۔ دماغ میں نفرت اور غصے کا سیاہ دھواں بھر گیا۔ دل چاہا، دو چھال مارکر یہ گیارہ سیڑھیاں عبور کرے اور بڑھیا کا گلا دبا کر۔۔۔ قصہ ہی پاک کر دے لمحے بھر میں۔ پھر اس کے منحنی سے، دبلے پتلے بیٹے کو نیچے سے اوپر اٹھا کر دو چار گھمیریاں، پٹخنیاں دے کر، اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ جائے۔۔۔ اور۔۔۔ اور

آگ لگاتا تصور اس کے بعد تڑتڑ کر کے جلنا شروع ہو جاتا تھا۔۔۔ آگے اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور وہ ان شعلوں میں جلتی بھنتی رہتی تھی۔

”بیٹا یہ ٹوپی لگا کر جانا۔ بہت تیز دھوپ ہے باہر۔ لو نہ لگ جائے۔
لے یہ کھا لے۔۔۔ گول بوٹی۔ تیرے لیے خود جا کر قصائی سے لے کر آئی تھی۔
ارے یہ صبح کے بھگوئے بادام یونہی رہ گئے۔ جا شاباش چھیل کر کھا لے۔“

بیٹا باتھ روم کے دروازے سے نکلا نہیں کہ ماں نے فروٹ کی قاشیں منہ میں ڈالنا شروع کر دیں۔
یہ ماں بیٹا کیا چیز ہیں؟ شبانہ اس سوال کا جواب اپنے آپ سے ہی پوچھتی رہی۔

ماں باپ تو اندھے ہو جاتے ہیں۔ جب بیٹیوں کی شادی کی بات آتی ہے۔ اماں ابا کا خیال آتا ہے۔ کیوں پیدا کی تھیں پانچ بیٹیاں۔ اب اگر بیٹا ایک ہی ہوا تو اس میں ہمارا تو کوئی قصور نہیں۔ جتنا پڑھانا تھا۔ پڑھا کر پرائمری اسکولوں میں استانیاں لگا دیا۔ پیسہ پیسہ جوڑ کر جہیز بنایا۔ ہر آتے جاتے سے اچھے رشتے کے لیے منتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پنواڑی، کارپینٹر اور چھولے والوں کی مائیں بھی رحم کھا کر پیغامات لانے لگیں۔

اماں ابا کا بس نہیں چلتا تھا کہ جمع شدہ سامان کی لسٹ کی پچاسوں کاپیاں کروا کر اوپر ہماری تصویریں لگا کر ہر گلی کے نکڑ پر پوسٹر لگوا دیتے۔ باجی کے لیے پانچ بچوں کا رنڈوا باپ ملا تو ابا کا خیال تھا کہ مختیار کار آفس کا سب سے زیادہ اثر و رسوخ والا کلرک ہمارے گھر رشتہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہو گا!

آپا کو حامد پرچون والے نے پسند کیا تھا، جس کے بھائی کی شہر بھر میں سب سے بڑی حلوائی کی دکان تھی۔ تیسرا بھائی سائیکلوں کی دکان چلاتا تھا۔ اتنی خوشحالی کا تو تصور بھی اماں ابا نے نہیں کیا تھا۔ اوپر سے لڑکا میٹرک پاس تھا یعنی پڑھا لکھا۔ آپا بھی تو گھرداری میں ماہر تھیں۔ تعلیم تو ان کی بھی ایف۔ اے تک ہی تھی۔

اور جب میری باری آئی۔۔۔ تو چھبیسواں سال لگ چکا تھا۔ دونوں چھوٹیاں یوں دیکھتی تھیں گویا دو بچے لے کر طلاق یافتہ ہو کر ان کے در پر آ پڑی ہوں۔ تنخواہ میں سے صرف دو سو روپے خود رکھنے کی اجازت تھی۔ باقی پورے پیسے امی کے ہاتھ میں دینے پڑتے تھے۔ جہیز جو بنانا ہوتا تھا۔ ان دو سو روپوں سے بھی دونوں چھوٹیوں کے لیے ہی چھوٹی موٹی چیزیں خریدتی تھی مگر مجال ہے جو دونوں کبھی مسکرائیں۔ بلکہ موقع بے موقع طعنے تنکے ہی دیتی رہتیں۔ رہ گئیں اماں، تووہ بس دعاؤں میں ایک ایسے آدمی کی تمنا کرتی تھیں جو کہ جسمانی طور پر ”مرد“ نظر آتا ہو کہ باقی تمام کام تو مصلحت خدا کے تحت ہونا تھا۔

اور خدا خدا کر کے۔۔۔ انسانی وضع قطع کا ایک وجود کسی کونے کھدرے سے برآمد ہو ہی گیا۔ گھر میں سرگوشیاں بھر گئیں۔ گوٹے کناری دوپٹوں کے اطراف کھیلنے لگی۔ بوسیدہ صندوق کا چرچراتا ڈھکن بلا سبب ہی چیں بہ چیں ہونے لگا۔ کس مشکل سے برملا تھا۔ اب خامیاں کہاں کنگھالنی تھیں اور پھر لڑکی ذات میں ایسی کیا خوبی تھی۔ عمر بھی چڑھ رہی تھی۔ اوپر سے رنگ بھی کچھ دبتا ہوا تھا۔ پورا گھر آسودہ نظر آنے لگا۔ گاہے گاہے سننے کو مل جاتا۔ قسمت بڑی اچھی پائی ہے لڑکی نے۔ نہ نند نہ دیور، نہ سسر نہ کوئی اور قریبی رشتہ دار، لے دے کر ایک ساس ہے۔ سو کب تک جئے گی۔ اکیلا لڑکا۔ ٹھیک ٹھاک کما لیتا ہے۔ سنا ہے کچھ ہذا من فضل ربی بھی آتا ہے۔ ذاتی گھر ہے جس میں دونوں ماں بیٹا رہتے ہیں۔

اور اللہ اللہ خیر صلا۔ اس نے بلائیں لیتی ساس کی جانب کبھی غور سے نہیں دیکھا تھا۔ پتہ نہیں کیسا ڈر تھا۔ جب وہ بیاہ کر اس چھوٹے سے دو منزلہ گھر میں آئی تو ہر چیز حیرت کدہ تھی۔۔۔ اتنی نمازیں اس گھر پر کیسے فرض ہوئیں؟ کس نے کیں؟ کب ہاتف نے صدا دی؟ اور وہ بھی اس عمر میں؟ مذہب سے اتنا لگاؤ۔۔۔ شادی ہوتے ہی اسے ایسا لگا کہ اس کا وجود کچھ ایسا ناپاک ہے یا اس کے ساتھ کچھ ایسا غلیظ فعل انجام دیا جا رہا ہے کہ۔۔۔

فجر سے پہلے ہی گھر کو صاف ستھرا کرنے اور جسموں کی پاکیزگی کے انتظامات شروع ہو جاتے۔ پھر دوپہر کو خشوع و خضوع کے ساتھ نماز۔۔۔ ساس صبح چار بجے ہی سورہ اسرافیل پھونک دیتی۔۔۔ ”اٹھو۔۔۔ نہاؤ۔۔۔ “ یہ دو حرف ہتھوڑا بن کر سماعت پر ضرب لگاتے۔ وہ ناشتہ بنانے نیچے آتی۔۔۔ تو تقریباً زبردستی باتھ روم میں بھجوا دیا جاتا۔ جب وہ جلدی جلدی کام سے فارغ ہوتی۔ بیٹا ٹھونس ٹھانس کر کام پہ جا چکا ہوتا۔۔۔ اور وہ بے دلی سے چائے کا ایک کپ پی کر اسکول مغز ماری کرنے چلی جاتی۔ سر کھپا کر گھر آتی تو میاں ڈکار کر نیچے ماں کے کمرے میں خراٹے لے رہا ہوتا۔

ماں باپ تو اندھے ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی کے وقت۔ کیوں پیدا کی تھیں پوری پانچ۔ اب کبھی ماں آتی ہے تو کیسے پورا بدن اپنی الٹراساؤنڈ آنکھوں سے چیک کرتی رہتی ہے۔ پوچھے گی کیا؟ ان کو ایسی باتوں کی سمجھ ہی کتنی ہے۔ یہ ساری مائیں بڑی خبیث ہو جاتی ہیں۔۔۔ ایک بیٹا دبائے بیٹھی ہے گھٹنے کے نیچے اور دوسری نے بہو لانے کے شوق میں بیٹیوں کو ادھر ادھر بیماروں کے پاس پٹخ دیا۔

اسے خیال آیا۔۔۔ لیکن پھر بھی بڑی مجھ سے تو اچھی ہے۔ پیٹ بھرنا کیا سب کچھ ہوتا ہے؟ گھر میں ضرورت کا ذرا زیادہ سامان ہونے سے کیا ساری خوشیاں مل جاتی ہیں؟ تھوڑے افراد اور ٹھیک ٹھاک پیسہ ہونے سے کتنے ارمان پورے ہو جاتے ہیں؟ میں بھی تو دس سال سے کما رہی تھی۔ جب سے پیدا ہوئی، ماں کی گھرکیاں، ابا کی عزت کے واسطے، گھر کی صفائی اور یہ بیمار بچوں کا اسکول۔۔۔ کچھ تو دیکھتے مجھے آگے ہانکتے ہوئے۔۔۔ کیا دیکھا؟ بڑے بنگلے پلاٹ دیکھے؟ رتبہ دیکھا؟ شکل دیکھی؟ خاندانی شرافت دیکھی؟

بڑی سسرال سے جب بھی آتی ہے۔ چہرے پہ کیسی شادابی ہوتی ہے۔ پرچون کی دکان پر بیٹھ کر قابل تو نہیں ہوا۔۔۔ شیخی ہی بگھارتا ہے مگر ایسا تنومند مرد ہے کہ جس چارپائی پر بیٹھا ہے۔ اس کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ لوہے کی میخوں کی طرح نظریں آپا کے آگے پیچھے گاڑے رہتا ہے۔ اگر ماں کبھی رات رکنے کے لیے آپا کو کہہ بھی دیتی تو دیوانوں کی طرح، بہانے بہانے سے آپا کو ضروری کام یاد دلاتا رہتا اور لے جا کر ہی ٹلتا۔

اور ایک یہ میرے والا مرگھنا۔ ماں کی انگلی پکڑ کر ابھی تک سڑک پار کرتا ہے۔ اماں رکنے کے لیے کبھی نہیں کہتی۔۔۔ تب بھی۔۔۔ امی کے یہاں رک جاؤ۔۔۔ رک جاؤ نا۔۔۔ پہ اصرار کیے جاتا ہے۔ اعصابی کمزوری کا مارا ہوا۔ اور گھر پہنچو، تو تیکھے، کڑوے انداز میں ساس کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ ہائے کیسی ماں ہے؟ ہڑک نہیں اٹھتی؟

دل چاہتا۔۔۔ کہہ دوں۔۔۔ ہڑک تم ایسوں کو اٹھتی ہے، جن کی اولادیں ہمیشہ بچہ بنی رہتی ہیں۔۔۔ زندگی بھر محتاج رہنے والی اولاد کے لیے ہی ہڑکیں اٹھتی ہیں۔

ساس کی نظریں، زیادہ تر تو اس کے سامنے جھکی رہتی تھیں۔ بس منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی تھی۔ کہتی تھی۔۔۔ آیۃ الکرسی کا ورد چالیس سال سے کر رہی ہوں۔ شاید اب زیادہ شدت سے کرنا شروع کر دیا ہو۔ بیٹے کو۔۔۔ یہ لمبے چوڑے صحت مند ہاتھ پاؤں والی بہو کے جذبات کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے۔ ساس ہوکتی رہتی تھی کہ ایسی عورتیں چوس لیتی ہیں مرد کی ساری توانائی۔۔۔ میرا لاڈلا، میرا لعل، میرا معصوم، میرا کمزور۔۔۔ کبھی اسے اپنے مرنے کا خوف ستاتا تو بیٹے کو نیچے ہی سلائے رکھتی۔ کبھی بیٹا ایسا کمزور دکھائی پڑتا کہ وہ بھنی ہوئی بوٹیاں کھلائے جاتی۔

پورے دو سال ہو گئے بلکہ ڈیڑھ مہینہ اوپر۔ نہ بچہ، نہ بچے کی امید۔ ہفتوں ہفتوں تو اوپر نہیں آتا تھا، ماں کا فرماں بردار۔ جب آتا تب رات کے ایسے پہر آتا کہ وہ سوئی ہوئی ملے۔۔۔ ایک طرف دبک کے پڑ جاتا تھا۔۔۔ ٹھنڈا برف۔۔۔ مردہ آدمی۔

پیلی پیلی رنگتوں اور مدقوق جسموں والی استانیاں روز ہی دبی دبی مسکراہٹوں میں۔۔۔ کمر اور ٹانگوں میں درد کی شکایت کرتیں۔۔۔ کیا ”نائٹ ڈیوٹی چل رہی ہے؟“ ایسے ادھ کھلے سوالات پھینکے جاتے۔

”تو اور کیا؟ یہ مرد کہاں تھکتے ہیں۔۔۔ ان کا بس چلے تو۔۔۔ “
”ان کا بس چلے تو۔ ۔ ! ان کا بس چلے تو۔ ۔ !“
شبانہ پورا جملہ سننے کی آس میں کان کھڑے کرتی۔ مگر وہ اتنا ہی بول کر ہنسی مذاق میں لگ جاتیں۔
”کیا بس چلے تو۔۔۔ ؟ نکما، بزدل، کمزور اور ناکارہ مرد۔۔۔ “

ایک بچہ تو دے نہ سکا تین سال میں۔ ایسی رنگارنگ ہریالی، کھلے پھول، بہار کی مہکار، ایسا مشک بار جسم۔۔۔ چھوڑ کر پھپھوندی لگی ماں کی گود چڑھا رہتا ہے۔ سدا بہار نزلے کا مارا۔۔۔ موتیا اترا۔۔۔ اندھا۔

شام کے اخبارات کے اندر والے صفحات پر طرح طرح کے اندرونی امراض کا ذکر ہوتا۔ ڈھکے چھپے پوشیدہ حصوں کے علاج معالجہ کے خصوصی علاج لکھے ہوتے۔۔۔ جو کہ بقول ”ان کے“ برف میں آگ لگا دیتے ہیں۔۔۔ شبانہ بہانے بہانے سے آتے جاتے، ساس کی نظر سے بچ بچا کر ایسے صفحے اس کے سامنے کھول کر رکھ دیتی کہ شاید کوئی گولی، کوئی کیپسول، کوئی انجکشن اس کے اندر سوئے ہوئے مرد کو جگا دے۔۔۔ مگر شاید ان اشتہاروں کے پڑھنے پر ماں نے بچپن میں پابندی لگائی تھی کہ اخبار ایک طرف ٹیبل پر بے جان سے رکھے رہتے۔

پتہ نہیں۔۔۔ شبانہ کے اندر چڑچڑا پن بڑھ گیا تھا کہ اپنی ذات سے برتی گئی لاپرواہی پر لوگ چونکے تھے۔۔۔ یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جس سماج میں شادی کے اگلے مہینے ہی عورتیں ابکائیاں لیتی نظر آئیں وہاں دو سال بہت بڑی بات ہوتی ہے۔

عورتوں کے طعنے نوکیلی سوئیوں کی طرح چبھتے ہیں۔۔۔ جلا ڈالتے ہیں انسان کو۔ مگر کپڑے والے عبدالغفار نے بھی کچھ بھانپ ہی لیا تھا۔ تھوڑا بہت کپڑا بھی لینا ہوتا تو اسے خاص رعایت پر دیتا۔۔۔ ”ارے یہ تو دکان ہی تیری اپنی ہے۔“

وہ یہ باتیں سنی ان سنی کر کے مطلب پہ آ جاتی، مگر ایک دن تو وہ صاف بول اٹھا۔۔۔ ”خوشی نہیں ملی۔۔۔ استانی جی۔۔۔ شادی کے بعد بھی آپ کو۔“

”کیوں، کیا ہوا۔۔۔ “ اس نے اپنی خوفزدہ آنکھیں اوپر اٹھائیں۔
عبدالغفار کی آنکھوں کی ساری تحریر بہت واضح تھی۔۔۔ دکان ساری خالی تھی۔
”غلط بات مت کرو۔۔۔ اور۔۔۔ یہ کس نے حق دیا ہے تمہیں ایسی باتیں کرنے کا؟“

اس نے آواز کو غصہ میں دبانے کی کوشش کی۔ مگر آنکھیں باغی ہو گئیں۔ پانی امڈ آیا اور وہ الٹے قدموں واپس ہو لی۔
عبدالغفار تو پتہ نہیں خوش ہوا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔۔۔ یا غمزدہ۔۔۔ مگر شبانہ کو اپنے آپ سے چڑ ہو گئی۔

کیا یہ سارے سوکھے، سڑے مردار ہی رہ گئے ہیں میرے لیے؟ کیا عبدالغفار صحت مند، نکلتے ہوئے قد والا گورا چٹا مرد ہوتا تو کیا۔۔۔ تو کیا تب بھی وہ اس کا پھیلایا ہوا ہاتھ جھٹک سکتی تھی۔۔۔ ؟ تب شاید۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔

اس کے دماغ میں عجیب سے خیالات پیدا ہوئے۔ وہ نادم سی ہوئی اور سر کو جھٹک کر سوچنے لگی۔ ”مجھے بھی نماز پابندی سے پڑھنا چاہیے۔“

وہ پورا دن اضطراب میں گزرا۔۔۔ رات گہری ہوئی تب اوپر کا دروازہ کھلا۔۔۔ کمرے میں باسی پیاز کی ناگوار بو پھیل گئی۔
”پیاز کھا کر آئے ہو؟“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2