طلبہ تنظیموں کی برکات


میرے ایک استاد محترم طلبہ تنظیموں کے بڑے معترف ہیں۔ وہ ایسے استاد نہیں کہ جن سے میں نے اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں کچھ پڑھا ہو بلکہ حقیقی معنوں میں وہ میرے گرو ہیں مگر ان سے بے حد متاثر ہونے کے باوجود میں کبھی بھی دل سے ان کے طلبہ تنظیموں سے متعلق موقف کی تائید نہیں کر پایا۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں سے طلبہ کی سیاسی تربیت ہوتی ہے جس سے وہ بعد کی عملی سیاست کا حصہ بن کر اچھے اور تربیت یافتہ سیاست دان بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ تنظیموں کے انتخابات پر جنرل ضیا نے پابندی لگائی تھی کہ ملک میں سیاسی ذہن کو ہی نہ پروان چڑھنے دیا جائے۔ خیر میں جب یہ باتیں ان سے سنا کرتا تھا تب ہی میں خود جامعہ کراچی میں داخل ہوا۔ تب طلبہ سیاست پر پابندی تھی اور طلبہ تنظیموں کے جامعہ میں انتخابات پر پابندی لگے دو دہائیوں سے زائد وقت بیت چکا تھا۔ جامعہ میں داخلہ فارم کے ساتھ ہی ہم سے ایک حلف نامہ بھی جمع کرایا جاتا تھا کہ داخل ہونے والا کسی طلبہ تنظیم کا رکن نہیں۔

مگر حقیقت یہ تھی کہ پوری یونیورسٹی ہر رنگ کے سیاسی تنظیم کے جھنڈوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہر جماعت کے اپنے تھڑے تھے جن پر اس کے حامی طلبہ بیٹھے نظر آتے تھے۔ 2003 سے 2006 کا میرے یونیورسٹی کے زمانے میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (APMSO) اور اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) کا بڑا زور تھا۔ اس کے علاوہ پی ایس ایف، آئی ایس او، پختون ایس ایف، پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اور ناردرن ایریا اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (NASA) نام کی تنظیمیں بھی موجود تھیں۔

آئے دن APMSO اور IJT میں ٹکراؤ ہوتا۔ میں نے ایسا پہلا ٹکراؤ داخلے کے چند ماہ بعد ہی دیکھ لیا۔ ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ کے لڑکے کرسیاں توڑ توڑ کر ڈنڈے بنا رہے تھے، دوسری جانب آرٹس لابی کے اندر سے ’ہم نہ ہوں ہمارے بعد، الطاف الطاف‘ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پھر نعرہ تکبر بلند ہونے لگے، تھوڑی دیر میں ’لشکر اسلام‘ نے آرٹس لابی فتح کر لی۔ میں کافی کمزور دل تھا اس لیے فوراً دوڑ لگا کر اپنی جان بچائی اور گھر آ کر اپنی والدہ اور بہن کو یہ واقعات خوب مرچ مصالحہ لگا کر سنائے۔

والدہ کافی ڈر گئیں اور پھر جب بھی کبھی طلبہ تنظیموں کے ٹکراؤ کی کوئی خبر اخبار میں شائع ہوتی تو وہ اور زیادہ خوف کا شکار ہو جاتیں۔ اپنے یونیورسٹی کے دور میں مجھے تو کبھی ان روز روز کے جھگڑوں میں خراش تک نہ آئی مگر ایک مرتبہ میں پھنس گیا کیونکہ یونیورسٹی میں فساد شروع ہوا اور شہر میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے۔ میرے مرحوم استاد حیدر رضوی صاحب نے اپنی گاڑی پر مجھے میرے گھروں تک چھوڑا۔ میرے پاس آؤٹ ہونے کا اگلا سال 2007 جس طرح ملک کے لئے خوفناک اور خون آشام تھا اسی طرح اس سال طلبہ تصادم میں بھی بڑی ہلاکتیں ہوئیں۔ حد تو یہ ہوئی کہ طلبہ کی لڑائی میں میں بس پر ہینڈ گرینیڈ تک پھینکا گیا جس میں کئی مسافر ہلاک ہو گئے۔

میں 2012 کے جنوری میں بحیثیت کانٹریکٹ استاد جامعہ میں نوکری کرنے لگا۔ اب جمعیت پس پشت جا چکی تھی اور پی ایس ایف اور آئی ایس او کافی متحرک نظر آتی تھیں۔ APMSO اپنی سابقہ شدت کے ساتھ ہی موجود تھی۔ اب پہلی بار بحیثیت استاد میرا سامنا طلبہ تنظیموں سے ہوا۔ طالب علم کے طور پر تو میں جانتا تھا کہ طلبہ تنظیموں کے لڑکوں سے کوئی بات نہیں کرنی، ان سے دور رہنا ہے، پھر بھی ان کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا سامنا کرنا ہی پڑتا مگر اب جب میں طالب علم نہیں استاد تھا تو یوں بیس بائیس سال کے لڑکوں کی بدتمیزی بہت بری معلوم ہوتی۔

طلبہ پر استاد کا ادب لازم ہے۔ مجھے تنظیموں کے طلبہ سے یکے بعد دیگرے بدتمیزیوں کا سامنا خاموشی سے کرنا پڑتا۔ ان بدتمیزیوں کی وجوہات کیا کیا ہو سکتی تھیں؟ مثلاً، کسی طلبہ تنظیم کے سر میں کلاسز کے بائیکاٹ کا سودا سما گیا ہے تو وہ دوران کلاس آ کر دروازے پر کھڑے ہو کر اعلان فرما دیا جاتا کہ کلاس فوراً بند کر دی جائے ’ورنہ۔ ۔ ۔‘ یا کبھی کسی استاد کے دفتر میں کسی تنظیم کے طلبہ آ دھمکتے اور کسی کو پاس کرنے یا نمبر بڑھوانے کے لئے کہتے اور ساتھ ہی ’ورنہ۔ ۔ ۔‘ کا لاحقہ لگا دیتے۔ اسی طرح ایسے طلبہ کو امتحان میں بٹھانے کے لئے تنظیموں کے لڑکے پہنچ جاتے کہ جس کی حاضری صفر ہو۔ اگر آپ انکار کریں تو وہی ’ورنہ۔ ۔ ۔‘ کہیں سے سامنے آ کھڑا ہوتا۔

2014 میں طلبہ تنظیموں کی کمر کسی حد تک ٹوٹی۔ وجہ یہ کہ مسلح سیاست شہر میں دم توڑ رہی تھی۔ مگر اب بھی ہر قسم کی بدعنوانی میں طلبہ تنظیموں کے لڑکے ہی ملوث ہوتے۔ داخلوں میں ہیرا پھیری بھی یہی کرتے اور بغیر لائن میں لگے فارم جمع کرانے اور اس کے عوض پیسے لینے وغیرہ جیسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی افعال انہی سے جڑے ہیں۔ بڑی حد تک یہ طلبہ چاہے کسی بھی جماعت کے ہوں، جامعات کے تناظر میں گندے انڈے ہی ہیں۔ مفت میں کینٹینوں سے کھانا کھانا، بل مانگنے والے کو مار مار کر بدحال کر دینا، امتحانات میں نقل کرانا اور اساتذہ کو دھمکانا اور مارنا پیٹنا انہی طلبہ تنظیموں کے ہی کرتوت ہیں۔

خصوصی طور پر جعلی ڈگریوں کے کاروبار اور جعلی افراد کو بیٹھا کر امتحان دلوانے کا دھندا یہی چلاتے ہیں۔ اس تناظر میں جب میں بحیثیت استاد یہ خبر سنتا ہوں کہ جامعہ پنجاب میں طلبہ تنظیموں کی ناک میں نکیل ڈال دی گئی ہے تو دل کو بڑی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ میں یا آج زندہ کوئی بھی انسان ان طلبہ تنظیموں کے وجود کی محض اس صورت میں ہی حمایت کر سکتا ہے کہ اس نے انہیں قریب سے دیکھا نہ ہو یا ان کے کسی خیالی اور رومانوی تصور کا شکار ہو۔

حقیقت میں طلبہ تنظیمیں وہ بدتہذیب ٹولہ ہے کہ جس سے حقیق معنوں میں آہنی ہاتھوں سے جب تک نہ نمٹا گیا درس گاہیں کبھی بھی درس گاہیں نہیں بن سکتیں۔ سرکاری کالجوں کو بھی طلبہ تنظیموں نے جس طرح تباہ کیا ہے وہ کوئی راز کی بات نہیں۔ یہ تنظیمیں کسی نوع کی سیاسی تربیت کے ادارے ہر گز نہیں بلکہ غنڈہ گردی سکھانے کے اڈے ہیں۔ انہی تنظیموں کا فیضان جب کراچی میں پھیلا تو اس شہر نے تین دہائیوں تک بدامنی جھیلی۔ اس لیے ان تمام تنظیموں (بلاتفریق رنگ و نسل، مسلک و فرقہ) کا انہدام اور تعلیمی اداروں سے مکمل انسداد ہی تعلیمی اداروں میں تعلیمی بحالی کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ شاید تب ہی ایک ایسا دور آ سکے کہ جب جامعات جانے والے طلبہ و طالبات غنڈہ گردی سے اور بے وجہ کے تعلیم کے حرج سے محفوظ ہو سکیں ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ یوں ہی تعلیمی عمل اور تعلیمی اداروں کو یرغمال بنا کر اپنے غیر اخلاقی وجود کو تقویت پہنچاتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).