جناب زاہد کاظمی، ایک روپے والا اسکول اور تیس ہزاری لائبریری


کیا آپ کسی ایسے آدمی کو جانتے ہیں جس کا کام کتابیں اکٹھی کرنا، دوستوں کو تحفہ دینا اور دوستوں کی کتابیں شائع کرنا ہو؟ نہیں نا! تو آئیے ہم آپ کو ایک ایسی ہستی سے ملواتے ہیں جو اس دور بے ہنراں میں بھی نہ صرف علم کی شمع جلائے ہوئے ہیں بلکہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلائے چلے جاتے ہیں۔ ہری پور سے تعلق رکھنے والے ہمارے پیارے دوست، بہت ہی مشفق اور علم دوست شخصیت جناب زاہد کاظمی صاحب نے اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کر رکھی ہے۔

اس لائبریری میں تیس ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ ان کتب میں سب سے بڑا ذخیرہ خودنوشت سوانح سے متعلق ہے۔ یہ پاکستان میں خودنوشت سوانح کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ ان کی لائبریری کے دروازے تو طلبہ و محققین کے لیے ہمہ وقت کھلے ہی ہوتے ہیں، ان کا مہمان خانہ بھی ہمہ وقت آباد رہتا ہے۔ آپ کوئی حوالہ تلاش کرنے پہنچے ہیں تو پہلے چائے پیجیے اور پھر حوالہ ڈھونڈیے گا۔ ہاں اگر حوالہ تلاش کرتے کرتے دیر ہو گئی ہے اور کھانے کا وقت ہو گیا ہے تو آپ کھانا کھائے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتے۔

زاہد کاظمی صاحب کتب بینی اور کتب جمع کرنے کے دلدادہ ہیں۔ جوانی میں ہی تیس ہزار کی لائبریری اور وہ بھی ذاتی شوق سے گھر میں ہی بنا لینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک میٹرک پاس نوجوان کو پاکستان میں نوکری ملنا۔ سفارش تگڑی ہو تو شاید نوکری بھی آسانی سے مل جائے، لیکن لائبریری کا قیام اور پھر ذاتی خرچ پہ اتنی بڑی لائبریری بنا لینا جس میں آپ بیتیوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہو، معنی رکھتا ہے۔ یہ لائبریری زاہد صاحب نے گھر میں ہی بنائی ہوئی ہے۔ آپ الجھے ہوئے ہیں کہ فلاں صاحب کے متعلق کوئی بات کسی کتاب میں پڑھی تھی یاد نہیں آ رہی۔ آپ سر کھجاتے رہیں گے کتاب آپ کے سامنے ہوگی۔ کتابیں جمع کرنے کا شوق بہت سے لوگوں کو ہوتا ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ ساری کتابیں پڑھتے بھی ہوں۔ کاظمی صاحب کی یہ بھی خوبی ہے کہ یہ کتابیں پڑھتے بھی ہیں اور پڑھنے کے ساتھ ساتھ یاد بھی رکھتے ہیں۔

کتابیں جمع کرنے کے دوران زاہد صاحب کو ایک مشکل یہ پیش آئی کہ بہت سی کتب نایاب ہیں۔ کچھ کتابیں اپ ڈیٹ ہونے والی ہیں اور کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو مصنف کے پیٹ میں ہیں۔ مقررہ وقت گزر چکا لیکن ان کا جنم نہیں ہو پا رہا۔ کوئی پبلشر ملے تو ہی کتاب کا جنم ہو سکتا ہے۔ اس مشکل کا حل کاظمی صاحب نے یہ نکالا کہ خود ہی پبلشر بن بیٹھے اور ”سنگی کتاب گھر“ کے نام سے پبلشنگ ہاؤس کا قیام عمل میں آ گیا جس کے زیر سایہ کتب شائع ہونی شروع ہو گئی ہیں۔

مجاہد مرزا صاحب کی خود نوشت ”پریشاں سا پریشاں“ اسی اشاعت گھر سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں اور بہت سی مزید کتب جلد شائع ہونے والی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے معروف و غیر معروف شخصیات کی آپ بیتیوں کو شایع کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ آپ وفات پا جائیں تب ہی آپ کی کتھا شائع ہوگی۔ آپ حین حیات بھی اپنی کہانی شائع کروا سکتے ہیں۔ آپ بس لکھیے اور باقی کام پبلشر پہ چھوڑ دیجیے۔

عمومی طور پہ دیکھا گیا ہے کہ کتب جمع کرنے والوں کی طبعیت میں ایک شدید قسم کی کنجوسی راہ پا جاتی ہے۔ وہ پہلے تو کوشش کرتے ہیں کہ ان کی کتب کا سرے سے کسی کو علم ہی نہ ہو، اگر کسی کو علم ہو بھی جائے تو بھی وہ بس دور سے کتاب کو دیکھ لے اور چلتا بنے۔ زاہد کاظمی صاحب کی طبعیت اس کے الٹ واقع ہوئی ہے۔ وہ کتابیں جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو کتابیں تحفہ بھی دیتے رہتے ہیں۔ نایاب آپ بیتیوں کے مصنفین کی اولاد سے رابطہ کر کے کتب شائع کرنے کی اجازت لینا اور پھر زر کثیر خرچ کر کے کتاب شائع کرنا اور پھر اسے بیچنے سے زیادہ دوستوں کو تحفہ میں دے دینا فی زمانہ ایسا وصف ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ خدا آباد رکھے!

کاظمی صاحب کی کتب بینی اور لائبریری کا احوال تو آپ نے سن لیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے ہاں ایک ایسا چراغ جل رہا ہے جس کی لو سے بہت سے گھر روشن ہیں۔ ذکر ہے ”باب العلم“ اسکول کا جسے کاظمی صاحب نے غریب اور نادار بچوں کے لیے شروع کیا ہے جس کی فیس محض ایک روپیہ ہے۔ جی ہاں علامتی طور پہ صرف ایک روپیہ۔ اسکول میں بچوں کو کتب، سٹیشنری، بیگ، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ 2016 میں اس اسکول کا آغاز ایک کمرے سے ہوا تھا جو اب ایک کرائے کی بلڈنگ میں منتقل ہوچکا ہے۔

اسٹاف کی تعداد بھی دس کے لگ بھگ ہے۔ اس وقت اسکول میں نرسری، پریپ، اول، دوئم، سوئم اور چہارم کی کلاسیں ہیں۔ اور اس تعلیمی سال 2020۔ 2021 میں بچوں کی تعداد 140 ہو جائے گی۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بچیوں کو ترجیحی بنیادوں پہ داخلہ دیا جائے، اس کے لیے والدین کو قائل بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ اسکول کاظمی صاحب نے اپنے آبائی گاؤں بریلہ میں قائم کیا ہے جو ہری پور سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پہ واقع ہے۔

ایک بچے کا سالانہ خرچ 35000 روپے ہے جس میں اساتذہ کی تنخواہ، کتابیں، یونیفارم، بیگ، ٹرانسپورٹ اور کھانا وغیرہ سب کچھ شامل ہیں۔ اس نیک مقصد میں شریک ہونے کے لیے زاہد کاظمی صاحب سے 03345958597 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ کسی بچے کو اسپانسر کریں یا عمومی طور پہ حسب توفیق مدد بھی کر سکتے ہیں۔

دو کنال ذاتی زمین وہ اس مقصد کے لیے مختص کر چکے ہیں جس پر اگلے کچھ عرصہ میں اس درس گاہ کی اپنی عمارت تعمیر ہو جائے گی، فی الوقت یہ سکول کرائے کی بلڈنگ میں ہے۔ واضح رہے کہ یہ بچے ان لوگوں کے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی دس ہزار سے کم ہے۔ زاہد کاظمی کا اگلا پراجیکٹ ہری پور کے خانہ بدوش بچوں کے لیے ایک اور سکول کھولنا ہے۔ اس نیک کام میں دامے درمے سخنے جیسے بھی بن پڑے کاظمی صاحب کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ آخر یہ معاشرہ ہم سب کا ہے!

آخر میں حسنین جمال کی تحریر کا ایک ٹکڑا دیکھئے :

”زاہد کاظمی کا پہلا تعارف یہ ہے کہ وہ کتابوں کے حاتم طائی ہیں۔ انتظار حسین، وزیر آغا، مستنصر حسین تارڑ، ظفر اقبال، وجاہت مسعود، عقیل عباس جعفری، فرخ سہیل گوئندی، در دلکشا والے منظور الٰہی اور پتہ نہیں کہاں کہاں کس کس لکھاری اور پڑھنے والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں (یہ لسٹ واقعی بہت زیادہ طویل ہے ) ۔ جو کتابیں ان لوگوں نے پڑھ رکھی ہوں اور وہ دینا چاہتے ہوں، ان کی بوریاں اور کارٹن باندھتے ہیں، دس بارہ ڈبے ہو جائیں تو لدوا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں۔

ادھر کوئی تیس پینتیس ہزار کتابیں اکٹھی کی ہوئی ہیں اور علاقے میں بسنے والوں کے لیے کھلی آفر ہے کہ جو چاہتا ہے آئے اور پڑھے، تو یوں ایک زبردست لائبریری بنا کے سب کو پڑھنے پہ لگائے ہوئے ہیں۔ گزارے لائق زمینداری سے جو پیسہ آتا ہے وہ بھی اسی کام میں جھونکا جاتا ہے۔ جو بندہ انہیں جانتا ہو اور فون کر کے صرف اشارہ کر دے کہ یار وہ فلاں موضوع پر کتاب چاہیے یا فلاں کتاب اب ملتی نہیں ہے وہ چاہیے یا کچھ بھی چاہیے، تو ایسے الرٹ ہو جائیں گے جیسے سائرن بج گیا ہے۔

ایک آدھ ہفتے میں کتاب یا فوٹو کاپی سائل تک پہنچ جائے گی چاہے جیب سے خریدی گئی ہو یا لائبریری سے نکلی ہو۔ کتابوں کو پھیلانا اور پھر سمیٹ لینا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ آج کل ان کا ایک مشن یہ بھی ہے کہ وہ مختلف لوگوں سے ان کی زندگی کے حالات لکھوانے پہ لگے ہوئے ہیں۔ شروع سے ان کو بائیو گرافیز پڑھنے کا شوق تھا، میرے خیال میں اب ان کی پسندیدہ فہرست ختم ہو گئی ہے یا کوئی سوانح باقی نہیں بچی تو وہ آپ اپنا جہان پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ”

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad