دعا اور یقین کامل


انسان اپنی محبت میں خدا کی محبت کے علاوہ خدا سے سب کچھ مانگتا ہے، عام طور پر مل جانے کی صورت میں انسان گمراہ ہونے کے خدشات سے دو چار رہتا ہے، اور نہ ملنے یا دیر سے ملنے کی مصلحت کو سمجھے اور جانے بغیر ہی مایوسی کا شکار بھی ہو جاتا ہے، منعم سے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ اس کے رتبے کے حساب سے مانگا جاتا ہے۔ اور رتبہ کو جاننے کے لیے ہم ہرگز جدوجہد نہیں کرتے، منعم کے رتبے کا ادراک دعا کی قبولیت کو جلا بخشتا ہے، اگر دینے والے کے رتبے کا اندازہ ہو جائے تو مانگنے والے کے لیے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ مانگنا کیا ہے۔

کرامت، اعجاز، معجزہ، کرشمہ یا پھر نوازش اور عطا غیر معمولی امر ہیں، واحد ہو لا شریک ذات نے اس کا بھی ایک فارمولا رکھا ہے، جونہی آپ توکل کی سیڑھی پہ پہلا پاؤں رکھتے ہیں اور رضا و تسلیم کی منزل کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو اپکا دوسرا پاؤں ابتلا اور آزمائش کی سیڑھی پر ہوتا ہے، جب اللہ نے کوئی بڑا انعام دینا ہوتا ہے تو وہ ہمیں صبر کی کسوٹی پر پرکھتا ہے آزماتا ہے اور کامیاب ہونے پر انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ پرکھنا اس کا وصف ہے اور کامیابی اس کی عطا، پھر وہ ہمیں مانگنے کے آداب سے بھی متعارف کرواتا ہے اور اپنے فضل کی بارش سے ہماری روح میں جل تھل بھی کرتا ہے۔

آپ توکل کے سفر میں کسی بھی مقام پر اپنے اعتقاد کو ڈگھمگانے نہ دیں، ہماری آزمائش اور ہمارے سفر میں صبر سے اٹھائے جانے والی مشکلات کا اجر ہمیں کسی اور صورت میں سفر کے دوران کسی اور مقام پر عطا کر دیا جاتا ہے، راستہ اور سفر اگر جانب منزل ہو تو دوران سفر ہی منزل کی بشارت اور نوید مل جاتی ہے، شرط یہ ہے کہ یقین کامل رہے، اللہ یقین کا نام ہے، جونہی ہم اپنے یقین کو اس مقام پر لے آتے ہیں کہ جہاں ہمیں اس بات کی آگہی ہو جاتی ہے کہ جو ہو رہا ہے اچھے کے لیے ہو رہا ہے اور اللہ کی مصلحت پر تسلیم با رضا ہو جاتے ہیں تو ہماری زندگیوں سے اضطراب ختم ہو جاتا ہے، اللہ کے حکم اور ہماری تسلیم کے درمیان جو فاصلہ ہے اسی کا نام اضطراب اور بے چینی ہے۔

ہم جو دے چکے ہیں، یا پھر جو کچھ ہم آگے بھیج رہے ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں ہمیں واپس کر دیا جاتا ہے، صبر کا دامن تھامے رکھنے سے سفر میں اٹھائی جانے والی تکالیف راستے کا چراغ بن کر زندگی میں اجالا بکھیرتی ہیں، توکل اور یقین کامل کے ساتھ سفر کو جاری رکھنا ہی اصل کامیابی ہے، اس سفر کی منزل سفر کا نتیجہ ہے اور خود سفر بھی منزل کا ہی نام ہے، یعنی یقین کا سفر بھی منزل ہے، واصف علی واصفؒ کا قول ہے کہ ”اگر ملاقات نہیں ہو رہی تو آپ انتظار میں ہی زندگی گزار دو“ کیونکہ محبت کا انتظار بھی محبت ہی سے مشروط ہے، محبت ختم ہو گئی تو انتظار بھی ختم ہو جائے گا، محبت کو زندہ رکھنے کے لیے انتظار کے دور سے گزرنا ضروری ہے۔

انسان اپنے معاملات کے حصول میں، اپنے مسائل سے نجات کی کوشش میں یا پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کے معاملے میں اللہ کے حکم کا محتاج ہے، انسان بے بس اور لاچار ہے، ہم ہرگز کسی بھی معاملے میں بے نیاز نہیں، اور جہاں انسان اپنی طاقت اور زور کے باوجود بے بس اور لاچار ہو جاتا ہے وہاں انسان دعا کا سہارا لیتا ہے، وہاں انسان اللہ کی قدرت کے آگے ناچار ہو کر اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے، یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں انسان اپنی نراس اور محرومی اللہ کے حضور پیش کرتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اے اللہ ہم تیری قدرت کے آگے بے بس ہیں تو ہمارے لیے آسانی فرما، ہماری مدد فرما۔

ذکر بغیر فکر کے ممکن ہی نہیں، دعا مانگتے ہوئے دعا کے مفہوم کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، دعا قبول نہ ہونے کی صورت میں ذات بے نیاز سے بے نیازی مایوسی کو جنم دیتی ہے۔ ہمیں دعا کی قبولیت پہ ضد نہیں کرنی چائیے، کچھ دعاؤں کا قبول ہو جانا گھاٹے کا سودا بن جاتا ہے، اور راز پا لینے میں نہیں بلکہ عطا ہو جانے میں ہے، پا لینے میں ذمہ داری آپ کی اپنی ہو جاتی ہے، جبکہ عطا ہو جائے تو خیر ہی خیر۔ ۔ !

دعا اور قبولیت کے درمیان کا جو عرصہ ہے وہ محبت کا ہی دور ہوتا ہے، پھر عطا ہو جائے یا قبولیت کی منزل پر جاری سفر کی طوالت کو بڑھا دیا جائے محبت کا قائم رہنا ہی یقین کامل کہلاتا ہے، ایمان اور اعتقاد کا کا اندازہ دعا کی قبولیت سے نہیں بلکہ دعا کے قبول نہ ہونے سے لگایا جاتا ہے، لینے والے کی محبت دینے والی کی عطا سے مشروط ہے تو یہ سوچ اور فکر کا مقام ہے، اصلاح کی ضرورت ہے

وسیم اعوان، ہری پور
Latest posts by وسیم اعوان، ہری پور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).