چھوٹی سی خصال کی بہت بڑی شاعری


زاہد کاظمی نے جو کتابیں بھیجیں ان میں خوبصورت سرورق والی دو پیپر بیک بھی تھیں۔ یہ دو بچیوں کی لکھی کتابیں تھیں۔ دس برس کی خصال زینب کی Blossoms in the early spring

جو اس کی شاعری، نثر نگاری اور مصوری پر مبنی ہے۔ دوسری کتاب پندرہ سالہ فاطمہ زہرا کی مصوری اور شاعری پر مشتمل کتاب Whispers in the spring۔

مجھے معلوم تھا کہ یہ محبی فیض علی، جو کسٹمز کلکٹر ہیں کی بچیاں ہیں۔ کسٹمز اگرچہ نیک نام محکمہ نہیں مگر ادب دوست اور ادیب نواز فیض علی کی شخصیت اور انداز گواہی دیتے ہیں کہ وہ اس محکمے کی بدنامی میں حصہ دار نہیں۔

میں ان بچیوں سے بھی مل چکا تھا، بس اتنا سا کہ ہم مرد لوگ، ہری پور میں زاہد کاظمی کے گھر کی بیٹھک میں بیٹھے رہے تھے جبکہ فیض علی کی اہلیہ گھر کے اندر تھیں اور بچیوں کی باقی بچوں کے ساتھ ہنسنے کھیلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جب ڈرائیور نے گاڑی موڑ کے کھڑی کر دی تو گیٹ سے بچیاں اور بچیوں کی والدہ نکلے۔ میں زاہد کے ساتھ فیض علی کو رخصت کرنے نکلا ہوا تھا۔ بھابی سے دعا سلام ہوئی، بچیوں نے سلام کیا اور سب گاڑی میں سوار ہو گئے۔

گاڑی چل دی تو زاہد نے بتایا کہ یہ بچیاں کبھی سکول نہیں گئیں۔ ان کی والدہ انہیں گھر پر پڑھاتی ہیں، جنہوں نے ایم فل کیا ہوا ہے اور پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ بچیاں لکھتی ہیں، شاعری کرتی ہیں اور مصوری بھی۔ مجھے اچنبھا ہوا اور میں نے کہا کہ سکول نہ بھیجنا عجیب ہے۔ نفسیات پہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ یہ پچھلے برس کی بات ہے۔

میں نے پہلے خصال کی کتاب اٹھائی۔ ورق گردانی کی۔ اس میں نظمیں، کہانیاں اور تصویریں تھیں۔ مصوری دیکھ کے میں ٹھٹھکا، تھوڑا گھبرایا بھی۔ کیونکہ پنسل سکیچز میں ایک مردانہ ہیولا، زنجیر سے بندھی ایک بچی کو لے جا رہا ہے۔ دونوں کی پشت ہے۔ دوسری تصویر میں ایک نوجوان لڑکی، اپنے ہاتھوں سے اپنے بال پکڑے، کہنیوں سے منہ چھپائے ہوئے ہے۔ ایک تصویر میں ایک پتلی سے گردن جو کسی مٹھی میں ہے، پر ایک بہت بڑا چہرہ ہے، جس کی ایک آنکھ چشمے کے شیشے کی طرح سیاہ ہے اور دوسری آنکھ خوف یا تحیر سے پھٹی ہوئی، چہرے کے خدوخال ہندسہ نما اشکال سے بنائے ہوئے ہیں۔ ایک اور تصویر میں ایک عورت کی آنکھ سے ٹپکے آنسو کی رسی کے ساتھ بن ٹانگوں کے بازو پھیلائے، سرنیہوڑائے بندھا ہوا بچہ ہے۔

میں ماہر نفسیات تو ہوں نہیں کہ ان الجھنوں کا تجزیہ کروں چنانچہ متذبذب ہی ہو سکتا ہے اور رابطہ ہونے پر اس کے والد کو اپنے خدشے سے متنبہ کر سکتا تھا لیکن جب میں نے خصال کی شاعری پڑھنا شروع کی تو میں صرف چونکا ہی نہیں بلکہ پڑھتا چلا گیا۔ کیا کمال شاعری ہے۔ ایک عرصہ بعد غیر ملکی زبان میں لکھی شاعری نے مجھے جذب کیا۔ اس کے برعکس خصال کی نثر یعنی کہانیاں بہت بچگانہ مگر دلچسپ، بعض اوقات ربط ٹوٹا ہوا، بے جان شے کے لیے جاندار کا صیغہ وغیرہ۔ میں نے لکھ کے زاہد سے پوچھا کہ کیا یہ واقعی خصال کی شاعری ہے؟ کہیں اس کے والد نے اپنی ادارت کا کمال تو نہیں دکھایا۔ اس نے جواب دیا کہ دونوں بچیاں اپنے اعمال میں یکسر آزاد ہیں اور اعادہ کیا کہ یہ بچیاں کبھی سکول نہیں گئیں۔ خصال سکستھ گریڈ میں اور فاطمہ اے لیول کی تیاری کر رہی ہے۔

خصال کی ایک نظم کا میں نے ترجمہ کیا ہے جو یوں ہے :

یادیں ریت میں دبی ہوئیں
جو ہم نے تالے کھولے تھے وہ تالے بن کھولے ہی رہے
جو چابیاں ہم نے برتی تھیں وہ بھی ساری بن برتی رہیں
جو چیزیں ہمیں معلوم ہوئیں اب تک ہیں وہ نا معلوم سبھی
جن لوگوں نے ہم سے پیار کیا، وہ اب تک پیار سے خالی ہیں
جو آوازیں ہم سن پائے وہ بھی ہیں اب تک گنگ سبھی
جو ہم نے دیکھے کھنڈر سبھی وہ بھی ان دیکھے کھنڈر رہے
جو ماضی ہم نے افشا کیا وہ اب تک پردوں میں بند ہے
لیکن کوئی تالا تھا ہی نہیں
اور نہ ہی کوئی چابی تھی
تالا تو زندگی ہوتا ہے
اور اس کی چابی میں ہی تھی
کیا ایسی کوئی چیز بھی تھی جو ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے؟
کیا کوئی ایسی چیز بھی تھی جس کو ہم نے یونہی چھوڑا؟
کیا ہم نے یہ بھی دیکھا کیا ہے جو پھر سے پیدا ہوا؟
کیا ہم نے پھٹے ہوئے کو بھی پھر سے ہے جوڑ بنایا کبھی؟

پھر جیسے یہ کہ :

زندگی کوئی پریوں کی داستان نہیں
یہ خدا کا بنایا سانحہ ہے

یا پھر یہ سطریں :

ان گلیوں میں دفن ہوئی ہیں
ان کہی کئی کہانیاں
لفظوں پر اینٹیں چڑھی ہوئی

میں نے تقابل کی خاطر کئی شاعروں کی کتابیں اٹھائیں جن میں امجد اسلام امجد، منیر نیازی، انور مسعود، قمر جمیل، ناصر کاظمی اور پروین شاکر شامل تھے۔ یقین جانیں اگر کہیں اتنی مضبوط تمثیل ملی تو کچھ حد تک، ہاں کچھ حد تک پروین شاکر کی شاعری میں۔ ایک بچی کی انگریزی زبان میں لکھی شاعری کو مذکور شعرا پہ فائق نہیں گردانا جا سکتا مگر مقابلے کی شدت کو رد ہرگز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کوئی غالب نہیں جس کا سارا دیوان ہمیشہ کے لیے سرسبز رہے نہ سب ناصر کاظمی جن کے بہت سے اشعار بار بار پڑھے جائیں۔ ایک آدھ شعر، دو اڑھائی نظمیں اور چند ایک تماثیل تو کئیوں کی بہتر ہو سکتی ہیں۔ مجھے منیر نیازی پسند رہے لیکن وہ بھی خوف و استعجاب سے جان نہ چھڑا پائے مگر خصال زینب کی شاعری میں آپ کو مسلسل تنوع ملے گا۔

اردو میں ترجمہ کردہ لائنوں پہ مت جائیں۔ اس کی شاعری اسی طرح پڑھیں جیسے اس نے لکھی۔ اگر آپ انگریزی شاعری اور خاص طور پر معاصر انگریزی شاعری سے شناسا ہیں تو اگر پڑھتے ہوئے کیف و اضطراب میں مبتلا نہ ہوں تو پھر کہئے گا۔ یہ چھوٹی سی کتاب ساڑھے تین سو روپے میں منگوا کے پڑھی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے زاہد کاظمی کو 03345958579 پہ فون کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).