گیارہ اگست: قائد اعظم کا فرمان اور مذہبی اقلیتیں


دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے! جیسے ہی اگست کی آمد ہوتی ہے۔ پاکستان کی اقلیتوں میں 11 اگست یعنی یوم اقلیت کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ جس میں مسیحی پیش پیش ہوتے ہیں کہ اس دن کو یوم اقلیت منایا جائے یا یوم سیاہ۔ یوم سیاہ اس لئے کہ جس تیزی سے اقلیتوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان میں عدم تحفظ کا احساس شدت اختیار کر گیا ہے۔ مساوی حقوق کا چرچا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے مسیحی لڑکیوں کوجبراً تبدیلی مذہب و نکاح اور جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔

توہین رسالت کا الزام لگا کر مسیحیوں آبادیوں اور زندہ انسانوں کو خاکستر کر دیا گیا۔ چرچز پر خود کش حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس میں سینکڑوں مسیحی شہید ہو گئے۔ اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ انہیں جیل کی صعوبتیں اور اذیتیں سہنا پڑیں۔ کئی ابھی تک توہین رسالت کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں انتہائی خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور جن کا مقدمہ لڑنے کے لئے کوئی وکیل تیار نہیں ہوتاتو ایسی صورت میں وہ یوم اقلیت کیسے منائیں؟

واضح رہے کہ یوم اقلیت کو منانے کا اعلان پیپلز پارٹی کے دورحکومت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2008 میں کیا تھا۔ یہ اعلان اقلیتوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے تھا اور 11 اگست 2009 کو وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہبار بھٹی کے زیر انتظام اور زیر صدرات پہلا سرکاری یوم اقلیت منایا گیا جس کی تقریب ڈریم لینڈ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان کے علاوہ اقلیتی سیاسی و مذہبی ر ہنماؤں بشمول بشپس صاحبان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

پاکستان میں بسنے والی مذہبی لحاظ سے اقلیتیں جنہیں بعد میں مذہبی اقلیتوں کا نام دے دیا گیا۔ اس دن کے منانے سے خوش نہ تھیں کیونکہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کو پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کی تقریرکو بارہا دھرا لینے سے اور یوم اقلیت منا لینے سے اقلیتوں کے دکھوں اور مشکلات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “پاکستان میں بسنے والی تمام مذہبی اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں ہر ایک چاہے وہ کسی رنگ یا نسل یا مذہبی عقیدے سے متعلق ہو، چاہے اس کا تعلق کسی فرقے سے ہی کیوں نہ ہو، وہ اول و آخر جمہوری ریاست کا باشندہ ہوگا۔ آپ سب کے حقوق و مراعات و فرائض و ذمہ داریاں مشترک ہوں گی اور آپ سب ان سب کے برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ آپ آزاد ہیں آپ اس لئے آزاد ہیں کہ آپ اپنے مندروں میں جائیں آ پ اس لئے آزاد ہیں کہ آپ اپنی مسجد میں جائیں یہاں پاکستان کی حدود میں اپنے مذہبی عقیدے کی کسی بھی عبادت گاہ میں جائیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل و معاملات سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا انفرادی عقیدہ و عمل ہے بلکہ سیاسی لحاظ سے اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے رہے گا۔

ہمیں یہ اصول بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنے چاہیے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا مذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے یہ تمام پاکستان کے شہری رہیں گے ”یہاں غالب کے شعر کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے۔ کہ، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اب مسیحی آبادیوں کو جلانے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے مگر چرچز اور قبرستان کی بے حرمتی اور چرچ کی زمین پر قبضہ مافیا میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ سب سے تکلیف دہ امریہ ہے کہ جبراً تبدیلی مذہب ونکاح اور اجتماعی جنسی تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے کمسن 4 1 اور 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کو زبردستی اغوا کرکے انہیں اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور پھر اس حیوانی وحشیانہ ظلم پر پردہ ڈالنے کے لئے قبول اسلام اور نکاح کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ اسے شرعی فعل ثابت کرنے کے لئے عدالت میں نقلی نکاح نامہ پیش کر دیا جاتا ہے۔

اور جج صاحب بھی فیصلہ لڑکے کے حق میں کر دیتے ہیں۔ کراچی، سیالکوٹ، فیصل آباد اور اٹک کے علاوہ کئی 14 سالہ لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا۔ اور قبول اسلام کا رنگ دے دیا گیا۔ گویا ان کیسز کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور کچھ لڑکیوں کو برآمد بھی کر لیا گیا۔ ان لڑکیوں نے جج کے سامنے رو رو کر اپنا بیان ریکارڈ کر وایا کہ ان پر زبردستی کی گئی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ نقلی نکاح نامے بن کیسے جاتے ہیں اوروہ کون سے نقلی مولوی ہوتے ہیں جو ان نکاح ناموں کو شائع کرتے ہیں۔ اور لڑکی کی طرف والے گواہ کون ہوتے ہیں۔ اگرچہ شرعی لاء میں لڑکی اس وقت نکاح کے قابل ہو جاتی ہے جب اس کو پہلا حیض آتا ہے۔ لیکن اس وقت ریاستی قانون کہاں چھپ جاتا ہے جو 18 سال کی لڑکی سے شاد ی کی اجازت دیتا ہے۔ کیایہ شرعی لاء ریاست کے قانون اور انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ نہیں اورکیا مذہب انصاف کی راہ میں آڑے نہیں آ جاتا۔ ان کیسز کو لڑنے میں وکلاء حضرات کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورانہیں ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔

اب اگرچہ جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کا بل اقلیتوں کے حقوق اور آئینی تحفظ قومی اسمبلی میں اکثریت کی منظوری کے بعد سینٹ میں منظوری کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور سینٹ کی منظور ی کے بعد اسے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجا جائے گا۔ لیکن خدا ہی جاتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اسے پاس کرتی ہے یا نہیں۔ اس پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔ بیشک پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کئی اچھے عدالتی فیصلے سامنے آئے ہیں۔ سی ایس ایس کے امتحانات میں کامیابی، سرکاری اور نیم سرکاری اعلی عہدوں پر مسیحی آئے ہیں جو قابل تحسین ہیں۔

اور قائداعظم کی تقریر 11 اگست 1947 کو نصاب کا حصہ بنانے کا حکومتی قدم بھی قابل تحسین ہے۔ جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کا بل اور نصاب میں تبدیلی کے اقدامات راست ہیں مگر اس پر عمل درآمد خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ سپریم کورٹ اقلیتوں کے تحفظات کے بارے میں بار ہا اچھے فیصلے دے چکی ہے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا۔

مگر تمام وفاداریوں، قربانیوں اور اسی دھرتی سے جنم لینے کے باوجود اقلیتوں سے سوتیلی ماؤں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک حکومتی اقدام سے پاکستانی معاشرہ بہتری کی طرف نہیں آجاتا۔ کیونکہ صرف قانون بنانے سے فرق نہیں پڑتا۔ قانون پر سختی سے عملدر آمدکرنے سے فرق پڑتا ہے۔ اور اس وقت تک معاشرے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جب تک انصاف بلا تفریق ومذہب میسر نہیں آجاتا۔ جب تک لوگوں کے انتہا پسندانہ رویوں میں تبدیلی لانے کے اقدامات نہیں کیے جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).