جاوید غامدی سے پرویز ہودبھائی تک: سچ بولنا منع ہے



جاوید احمد غامدی صاحب کا شمار دنیا کے بہترین اسلامی اسکالرز میں ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں چونکہ دلیل سے بات سننے اور مدلل گفتگو کرنے کا رواج نہیں ہے اس لئے دوسرے کی رائے کو اس کے نظریات کو جانے بنا الزام تراشی کرنا بلکہ بہتان لگانا معمول کی بات ہے۔

آپ کے بارے میں تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کی عام رائے یہ ہے کہ آپ شعائر اسلام سے روگردانی کرتے ہیں اور بنیادی اسلامی عقائد کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور میں بھی اس بات کا قائل تھا مگر ایک عبارت نے مجھے آپ کی تحریروں اور افکار کی جانب متوجہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ!

” یہ بات کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارے علاوہ کوئی حق پر نہیں اصل میں یہیں سے اختلاف پیدا ہوتا ہے یمیں عاجزی کے مقام پر کھڑا ہونا چاہیے کہ میں انسان ہوں اور اپنی دانست میں صحیح بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں لہذا ہر لمحہ نظرثانی کے لئے تیار ہوں۔“

مجھے ان چند سطروں کو پڑھنے کہ بعد اندازہ ہوا کہ اگر ہمارا قومی رویہ ایسے پروان چڑھ جائے تو ہمارے بہت سے مسائل تو پلک جھپکتے میں حل ہوجائیں لیکن پھر اندازہ ہوا کہ شاید ان جملوں کی روشنی کو نفرت میں لپیٹ کر ہمیشہ مخالف نظریات اور خیالات کے حامل شخص کو عوام کے سامنے لادین اور مذہب سے بیزار ظاہر کیا گیا تاکہ دوسرے کی علمی برتری کو کم کیا جا سکے۔ ہمارے ہاں گفتگو میں شائستگی اور مزاج میں ٹھہراؤ مخالف کی کمزوری تصور کیا جاتا ہے اور گھن گرج کے ساتھ اپنا موقف دوسرے پر مسلط کرنا ہماری عادت ہے جو شب و روز پختہ ہوتی چلی جا رہی ہے اور ہمیں اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ ہمارے عقائد اور نظریات سے مخالفت کرنے والوں سے اس گستاخی کی وضاحت طلب کرنا شاید حکم خداوندی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا کے مجاہدین اپنے اپنے یوٹیوب چینل پر بیٹھ کر ختم نبوت جیسے حساس معاملے پر مختلف شخصیات سے وضاحت طلب فرماتے ہیں اور ان سے موقف جاننے کے لئے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ درحقیقت ان اصحاب کا مقصد صرف اور صرف اپنے چینل کی پروموشن اور کچھ پیسہ کمانا ہی ہوتا ہے جس کے لئے غامدی صاحب، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور دیگر تحمل مزاج لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اہل علم لوگوں کی تعداد پاکستان میں آٹے میں نمک برابر ہے مگر اپنے علم کو بانٹنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے انہی چند لوگوں میں ایک اور ہستی ڈاکٹر پرویز ہود بھائی ہیں جن کی خدمات کی دنیا معترف ہے۔ سائنس اور علوم طبیعات میں آپ کا مقام منفرد ہے۔ آپ سائنس کی دنیا میں پاکستان کی پہچان بنے لیکن بدقسمتی کہ آپ کو مخالف نظریات رکھنے کی قیمت وقتاً فوقتاً چکانا پڑتی ہے۔ پاکستان میں یکساں تعلیمی نظام کے حوالے سے ایک مباحثے میں نصاب میں احادیث کو ترجمے اور عربی کے ساتھ شامل کرنے کی تجویز دی گئی۔ جس کی مخالفت کرتے ہوئے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی جیسے علم دوست انسان نے اپنا موقف پیش کیا کہ نصاب میں عربی شامل کرنے کی بجائے اردو ترجمہ اور اس کا مفہوم شامل کیا جائے تا کہ مقصد حاصل بھی ہو جائے اور غیر ضروری لٹریچر کی بجائے کچھ ساہنسی اور تحقیقی مواد شامل نصاب کیا جائے۔ پھر کیا تھا، وہی سوشل میڈیا میں مذہب کی دکان لئے بنئیے اپنا سستا سودا بیچنے چلے آئے اور پرویز ہود بھائی سے معافی کے طلبگار ہو گئے۔ جب مسلسل ایسی مزاحمت کا سامنا ہو تو یہ گمان یقین میں بدلنے لگتا ہے کہ شاید یہاں ”سچ بولنا منع ہے“ کیونکہ جہاں مخالف کی بات کو سنے سمجھے بنا ہی فیصلے صادر فرما دیے جائیں وہاں علم و تحقیق کے مراکز نہیں، عقیدتوں میں لپٹے مقبرے تعمیر ہوتے ہیں جن پر سر شام بھوک راج کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).