شیعہ فیکٹ چیکر – کیا حقیقت ہے کیا افسانہ


جیسے ہی ماہ محرم کا آغاز ہوتا ہے، غیر تشیع حلقوں میں شیعہ عقائد کے حوالے سے بحث چھڑ جاتی ہے۔ ویسے تو سال بھر کسی نہ کسی موقع پر یہ نکات اٹھائے ہی جاتے ہیں مگر محرم الحرام کے ابتدائی دس ایام اس نوعیت کی بحث میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس نقطے کو سمجھنے کے لئے انٹیگریٹو کمپلیکسٹی یا انضمامی پیچیدگی کی اصطلاح کو سمجھنا زیادہ مناسب رہے گا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس سے مراد ایسی سوچ اور شخصیت کی تشکیل ہے جو اپنے نظریات، خیالات اور عقائد کو باریک بینی، معقولیت اور دانستگی سے مرتب کرے۔

ایسے انسان خود کو دوسروں کی جگہ اور حالات میں سماں کر سوچتے ہیں۔ اس کے بنیادی تین مراحل ہیں ؛ آئسولیشن یا علیحدگی، ڈفرنسیایشن یا تفریق اور تیسرا سب سے اہم مرحلہ ہے انضمام یا شمولیت کا۔ ایک شخص کے عقائد یا نظریات دوسرے عقائد اور نظریات سے علیحدہ اور جدا ہو کر ہی ترتیب دیے جاتے ہیں۔ دو مختلف نظریات ایک دوسرے سے متفرق ہوتے ہیں اور ایک جگہ دو یا دو سے زیادہ رائے پائی جا سکتی ہیں جو کہ سنگین اور جھوٹ بیک وقت ہو سکتی ہیں۔

باریک بینی اور عقل و دانش کے استعمال سے کون کیسا ہے، کیوں ہے کو زیر غور لاکر فیصلہ پر پہنچنا آسان ہوجاتا ہے مگر اس کی شرط یہی ہے کہ شعور کے تبدل کی راہ ہموار کی جائے۔ انسانی معاشرے میں نظریات کی تشکیل آئسولیشن یا علیحدگی میں کی جاتی ہے اور عمر بھر ذرا برابر تبدیلی یا ارتقاء کے خدشے کے باعث عقیدت اور خشیت کا پہرہ ایک ہی وقت بٹھایا جاتا ہے۔

بڑے سے بڑے اور معمولی سے معمولی خیالات کو انہی امور کے مطابق پروان چڑھایا جاتا ہے۔ مثلاً میں پہلے کسی کو برا سمجھتی تھی مگر جیسے ہی میں نے سوچ کا حصار وسیع اور غیر جانبدار کیا، میرے اندر سے آئسولیشن میں مرتب خیالات زائل ہو گئے اور میں خود کو ان کی جگہ رکھ کر پرکھوں تو مجھے کیسا محسوس ہوگا کے احساس نے مجھے میں ان کے لئے ہمدرد بنا دیا۔

تفرقہ تو مسلمانوں میں ہمیشہ سے رہا ہے اور اس کے مقاصد صدیوں سے عقیدے اور مذہب کے حجاب میں محض سیاسی برتری کے تھے۔ جیسے پاکستان میں فرقہ واریت شروع کی گئی محض سیاسی مقصد کے حصول کی خاطر۔

اب ذرا دوبارہ محرم الحرام میں بڑی شدت کے ساتھ کی جانے والی تکرار اور نظریات کی بود و باش پر آتے ہیں۔ انسانوں کی ترغیب دینے کا عمل امثال سے کیا جائے تو اپنا اثر نہیں کھوتا۔ کسی گروہ یا سوچ کی بابت نفرت اور مقابلہ پیدا کرنا ہو تو اس کے حوالے سے قبیح اور مکروہ بہتان اور جھوٹ زبان زد عام کر دیے تو ہدف بآسانی قابل حاصل ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی نفرت اور تعصب اہل تشیع عوام اور عقائد سے بھی مربوط ہے۔

درج ذیل چند دقیانوسی خیالات اور چھاپ ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے، مٹائے نہیں مٹتے:

شام غریباں :

عوام الناس میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ شام غریباں کی مجالس میں ذکر نہیں بلکہ شراب و شباب کی محافل ہوتی ہیں۔ مرد شراب پی کر، روشنیاں گل کر کے آپس میں اپنے گھر کی عورتوں کی خلوت کی غرض سے ایک شب کے لئے تجارت کرتے ہیں۔ یعنی اپنی بہن، بیٹی اور بیوی کو دوسرے کی عورت کی خاطر زنا کے لئے بخشتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ دروغ اور بہتان کے علاوہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ یقیں نہیں تو خود شام غریباں میں شرکت کر کے دیکھ لیجیے گا۔ خدارا! نفرت کریں مگر ایک مہذب حد میں رہ کر۔ جھوٹ وہ بولیں جو انسان کی سمجھ سے بالا تر نہ ہو۔ کیا آپ کو آپ کا عقیدہ ایسی قبیح حرکت کرنے پر مائل کر سکتا ہے؟ اگر ہاں تو عقیدہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے آپ کو۔

عراق میں حج:

ایک اور افسانہ جو منسوب کیا جاتا ہے کہ اہل تشیع حج کرنے بیت اللہ، مکہ مکرمہ نہیں بلکہ نجف جاتے ہیں۔ یہ بھی ہرگز درست نہیں۔ اہل تشیع حج کرنے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، وہ بھی طواف خانہ کعبہ کرتے ہیں جیسے دوسرے صاحبان ایمان۔ نجف حضرت علی کرم اللہ وجہ کے مزار اقدس کی زیارت کرنے جاتے ہیں جیسے کوئی دوسرا مسلمان۔

آخری دس سپارے :

یہ تصفیہ تو ہم تب سے سنتے آئے ہیں جب سے آنے والی نئی نسل میں اہل تشیع کے بارے نفرت کی تعلیم دینا شروع کی جاتی ہے۔ معصوم بچوں کی جماعتوں میں طالب علم اچھل اچھل کر ہم جماعت مومنوں کو یہ کہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم لوگوں کا قرآن نامکمل ہے۔ ہرگز نہیں! یہ بھی ایک دقیانوسی خیال اور بین الامت پھوٹ ڈلوانے کے سوا کچھ نہیں۔ اہل تشیع یہ قطعی نہیں مانتے کہ آخری دس پارے معاذ اللہ بکری کھا گئی۔ ان کا قرآن ہو بہو وہی ہے جو دوسرے مسلمانوں کا۔

ذوالجناح کو سجدہ اور تبرک:

ہمارا تعلق جس خطے سے ہے وہاں توہم پرستی پچھلے پانچ ہزار سال سے ہماری رگوں میں دوڑتی ہے۔ اس کا سدباب معقول اور جدید نظریاتی و سائنسی تعلیم کے سوا خاصا عسیر و دشوار دکھائی دیتا ہے۔ ذوالجناح کو سجدہ کرنا اتنا ہی غیر شرعی ہے جتنا صاحب مزار کو۔ پڑھے لکھے اور باشعور شیعہ ذوالجناح کو سجدہ نہیں کرتے بالکل ویسے ہی جیسے اکثریت میں سنی اب مزارات کو سجدہ نہیں کرتے۔

دوسرا اہم نقطہ جو اٹھایا جاتا ہے اور میں اطفال کے معصوم ذہنوں کی پنیری میں بویا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اہل تشیع اپنے یہاں محرم اور چہلم کے لنگر میں ذوالجناح کا لعاب یا گوبر تبرک کے طور پر شامل کرتے ہیں۔

خدا کو مانیے اور کوئی عقل کی بات کیجئے۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا آپ کی عقائد یا موہوم ایسا کوئی بھی ناپسندیدہ عمل کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ نہیں نا تو دوسروں بارے بھی یہ فاسد گماں رکھنا ترک کریں تاکہ سوچ کا پیمانہ وسیع اور عمل وجیہ ہو۔

یزید کی اولاد:

شیعہ یزید کی اولاد نہیں ہیں نا ہی شیعہ مکتب فکر کا آغاز سانحہ کربلا کے بعد ہوا۔ ہمارے ملک میں موجود اکثریت شیعہ سید ہیں نہ ہی عرب۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق خالصتاً اسی مٹی سے ہے جیسے دوسرے مکاتب فکر کے نام لیواؤں کا۔

شیعہ سے نکاح:

اہل تشیع کا غیر اہل تشیع سے نکاح جائز بھی ہے اور منعقد بھی ہوجاتا ہے۔ وہ الگ معمہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی بھی شیعہ سنی شادیاں باعث حیرت تضحیک سمجھی جاتی ہیں اور اس کی وجوہات بھی درج بالا پائی جانے والی نفرت اور دروغ کی دراڑیں اور دیواریں ہیں۔

ہمارے درمیان بہت سی نفرتیں ہیں۔ ہم بحیثیت قوم دوسری اقوام سے اسی تعصب، دقیانوسی، قدامت پرستی، فرقہ پرستی اور نجانے کن کن سماجی برائیوں کی وجہ سے بہت پیچھے اور گرے ہوئے ہیں۔ خدارا! انسانوں کو جینے دیں اور ہنسی خوشی مل جل کر بنا تفرقے کے اللہ کی رسی کو تھام کر عدل، آشتی اور محبت سے رہنا سیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).