جھوٹے مقدمے: ایک غلط معاشرتی رویہ


چند دن پہلے کسی ویب میگزین کے صفحات میں بی بی سی کے حوالہ سے ایک خبر چھپی ہے۔ جس کے مطابق باپ نے اپنی حقیقی بیٹی سے زیادتی کر ڈالی۔ اسے خبر کو پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہماری اخلاقی قدریں کدھر گئیں۔ ہمارا معاشرہ اب کس راہ پر چل پڑا ہے کیوں اب باغ کا محافظ ہی اپنے باغ کو اجاڑنے لگا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے مجھے آج سے بیس سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ اسلام آباد اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر ان کے گھریلو تنازِع میں صلح کروانے گیا۔

ان کی صلح تو نہ ہو سکی لیکن انہوں نے ہمارے خلاف تھانہ میں مارپیٹ کی ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کرا دی۔ اسلام آباد تھانہ سے ایک انسپکٹر کا مجھے فون آیا کہ اس طرح آپ کے خلاف ایک رپورٹ درج ہوئی ہے۔ میں نے ابتدائی تفتیش تو کر لی ہے۔ اب آپ سے تفتیش کرنی ہے، تھانہ میں آئیں۔ میں دوسرے دن تھانہ چلا گیا۔ وہ تو خیر ایک لمبی داستان ہے کہ ہماری کیسے اس جھوٹے مقدمے سے جان چھوٹی۔ لیکن میں اسلام آباد پولیس کے مثبت رویہ سے بہت حیران ہوا۔

میں نے اس سب انسپکٹر کا ان کے رویے پر شکریہ ادا کیا تو انہوں نے کہا، ہمیں پتہ تھا کہ یہ رپورٹ جھوٹی ہے، اس لئے آپ کی مدد کی ہے۔ ورنہ آپ کے رشتہ دار آپ کی گرفتاری کے لئے کافی رقم خرچ کرنے کو بھی تیار تھے۔ باتوں باتوں میں اس نے ایک واقعہ سنایا جو ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سب انسپکٹر کا تعلق وزیر آباد کے کسی قریبی دیہات سے تھا۔ میرا خیال ہے اب وہ کسی سینئر پوسٹ پر تعینات ہو گا۔

انہوں نے بتایا کہ میری روات تھانے میں تعیناتی کے دوران ایک قریبی گاوں کی ایک خاتون اپنے خاوند کے ساتھ ایک درخواست لے کر آئی۔ جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس کے حقیقی بھائی نے اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ میرا دیہاتی ذہن یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بھائی اپنی سگی بہن کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے۔ میں نے ان کی رپورٹ درج نہیں کی اور انھیں واپس بھیج دیا۔ تین چار دن بعد مجھے عدالت سے سمن وصول ہوئے، جس میں مجھے اگلے دن عدالت میں پیش ہوکر رپورٹ درج نہ کرنے کی وضاحت طلب کی گئی تھی۔ میں عدالت میں حاضر ہوا اور رپورٹ درج نہ کرنے کی اپنی معروضات پیش کیں۔

عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔ فوری مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آرڈر دیا اور دس دن بعد رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی تاریخ دے دی۔ میں نے تھانہ میں آ کر رپورٹ درج کی اور خاتون کے بھائی کو گرفتار کر لیا۔ خاتون کو میڈیکل کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بھیجا اور ہسپتال میں تعینات اپنے ایک دوست ڈاکٹر سے صحیح رپورٹ جاری کرنے کی درخواست کی۔ تفتیش کے دوران میں، میں نے خاتون کے رویے سے یہ محسوس کیا کہ وہ اس کیس سے خوش نہیں ہے۔

اس نے ایک دو دفعہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس کے خاوند نے سختی سے منع کر دیا۔ تھانے میں جب میں نے خاتون کے بھائی سے تفتیش کی تو وہ رونے لگا اور کہا کہ وہ بے گناہ ہے، ہم دیہاتی لوگ ہیں اپنی بہنوں کی عزت پر جان قربان کر دیتے ہیں چہ جائیکہ ہم خود ایسا قبیح فعل کریں۔ میں نے گاوں جا کر بھی کچھ لوگوں سے تفتیش کی تو یہ بات مجھے کچھ مشکوک لگی۔ میڈیکل رپورٹ میں بھی زیادتی ثابت نہ ہو سکی۔ بات در اصل میں یہ تھی کہ باپ کی جائیداد میں سے حصہ کے طور پر بہنوئی کو ان کے گھر کے سامنے والی زمین درکار تھی جو بھائی اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔

اس بات پر خانگی لڑائی ہوئی اور بہنوئی نے بہن کو مجبور کر کے سگے بھائی کے خلاف زیادتی کی رپورٹ درج کرا دی۔ میں نے میرٹ پر تفتیش کر کے عدالت میں رپورٹ پیش کی اور پہلی ہی پیشی پر مقدمہ خارج ہو گیا۔ اب میں نے خاتون کے بھائی سے کہا کہ وہ جھوٹا مقدمہ درج کرانے پر بہنوئی کے خلاف کارروائی کریں، تو اس نے کہا، کس کے خلاف مقدمہ درج کراوں، اس میں بھی بہن کی بدنامی ہو گی۔ اس واقعے سے وہ شخص اتنا پریشان ہوا کہ اس نے وہ زمین تو بہن کو ہی دے ہی دی، اپنی باقی ساری جائیداد بیچ کر کس دوسری جگہ منتقل ہو گیا۔

ایسے ہی بہت سے کیسوں میں اپنے مخالفین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو پھنسانے کے لیے اپنی خواتین کو خوامخواہ ملوث کر کے جھوٹے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں ایسی مقدمہ بازیاں عموماً ایک دوسرے کو تنگ کرنے کے لئے بھی کی جاتی ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مقدمے بازی میں وقت اور پیسے دونوں کا زیاں ہوتا ہے اور نئی دشمنیاں جنم لیتی ہیں جس سے مقدمے بازی کا ایک لا متناہی سلسلہ جنم لیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).