نو نیوز از گڈ نیوز


کسی چیز، کسی واقعہ یا کسی صورت حال کا علم اور معلومات نعمت سے کم نہیں پر بسا اوقات یہ واقفیت و آگہی وبال جان بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اک دور تھا کہ انسان آج کی اندھا دھند ترقی کی معراج سے ناواقف تھا۔ وہ گرد و پیش اور عالمی حالات و واقعات کا علم رکھتا تھا نہ ہی مستقبل کے حادثات و سانحات کی پیش گوئیوں سے لرزاں تھا۔ انسان اپنے کام سے کام رکھتا اور شب کو اپنی نیند سوتا۔ مہلک بیمار یوں کی صورت میں ان کے بھیانک نتائج سے بھی نا آشنا رہتا۔

یہی نہیں بلکہ طبی سہولتیں نا پید ہونے کے باوجود عمر دراز اور حیات مطمئنہ پاتا۔ انسان ٹینشن، فکر اور اضطراب سے کوسوں دور تھا۔ مگر آج بیماریوں کی نوعیت کا ادراک انسان کو علاج کی سہولتوں کے باوجود ذہنی و نفسیاتی جہنم میں دھکیلے رکھتا ہے۔ میڈیکل کی حیرت انگیزیوں سے ایک کلینیکل ڈیڈ انسان مصنوعی تنفس کی سولی پہ لٹکتا ہے۔ علاوہ ازیں سماجی، سیاسی اور مذہبی امور کی تازہ ترین اور متعصبانہ تشریحات وسیع انتشار اور نفرت کا موجب بن رہی ہیں۔

پھر میڈیا منڈی کی رینکنگ زدہ بھر مار کو عوام میں مایوسیاں بانٹنے کے سوا کچھ اور کام نہیں۔ قارئین و سامعین اکثر بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں۔ ہر گھر، ادارہ اور خاندان نفاق و فساد میں الجھا ہے۔ جب معلومات کی نوعیت ایسے نہ تھی تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ تھا۔ مذاہب اور مسالک پر امن بقائے باہمی کے قائل تھے۔ آج زندگی کے تمام شعبوں میں حد سے زیادہ آگاہی نے ٹینشن کی سونامی بر پا کر رکھی ہے۔ ہر شخص ہمہ وقت سیاست، مذہب اور معاشرت پہ بلا مقصد سوچے جا رہا ہے اور اس غصیلی و زہریلی انتشار الخیالی سے اپنے ذہن کی انرجی ضائع کیے جا رہا ہے۔

کھیلوں، تہواروں، ٹاک اور مارننگ شوز، ڈراموں اور جملہ معاشرتی رسومات کی شیطان کی آنت ایسی کوریج نے قوم کو عجیب و غریب سی دلدلی راہوں کا مسافر بنا دیا ہے۔ سائنسی ترقی کے باعث موسمی تبدیلیوں اور متوقع تباہ کاریوں کی خوفناک پیش گوئیاں لمحہ بہ لمحہ انسان کا، تراہ، بدرجہ اتم نکالے رکھتی ہیں۔ ماضی میں بڑے بڑے حادثات کی خبریں دیگر علاقوں تک مدتوں بعد پہنچتی تھیں، لہٰذا مفت کی ٹینشن دستیاب نہ ہونے کے برابر تھی۔

کیونکہ جس صورتحال کے ہم موجب نہیں، نہ ہی اس پر قابو پانے پہ قادر ہیں تو اس میں تردد و فکر چہ معنی دارد؟ آج ہم روز ہی حادثات، دہشت گردی اور مذہبی و سیاسی رسہ کشی کی بد خبریاں سن سن کر کڑھتے ہیں اور اپنا خون جلاتے ہیں۔ ٹیلی فون سہولت کے ساتھ مصیبت بھی لایا ہے۔ انسان ہر وقت تمام اعزہ و اقارب کے مصائب جان کر پریشان ہے۔ ایسے معاملات میں پہلے ایک بار قیامت ٹوٹا کرتی، اب ہر لمحہ انسان مرتا جیتا ہے۔ انٹر نیٹ نے بھلے بہت کچھ دے دیا پر اس سے کہیں زیادہ لے لیا۔

اس نے نہ صرف رشتے چھینے بلکہ گمراہ کن محبت، معاشرت، سیاست اور فرقہ واریت کے بے شمار لنڈا بازار بھی قائم کر دیے۔ حقوق کی اوقات سے بڑھ کر آگاہی کی مہمات نے اس حیات مستعار کو، حیات واہیات، بنا دیا ہے جس سے اخلاقیات کے جنازے بڑی دھوم سے نکلنے لگے ہیں۔ سچ ہی ہے کہ نا ہونا ہونے سے قدرے بہتر ہے۔ شعور نعمت ہے لیکن زیادہ شعور زیادہ تفکرات کو جنم دیتا ہے۔ کم شعور کے حامل افراد اپنے حال و مستقبل سے بے نیاز اطمینان سے زندگی گزار لیتے ہیں۔

خانہ بدوش کوڑے پر سے چیزیں اٹھا کر کھا لیتے ہیں، آلودہ پانی پیتے ہیں اور صحت مند بھی رہتے ہیں۔ اور حفظان صحت کے اصولوں پہ کاربند احباب ابتلاؤں کا شکار ہیں۔ حالیہ عہد کرونا کو ہی لیجیے جس میں کرونا نے حساس اور باشعور طبقات پر قہر برسایا جبکہ لا پرواہ اور کم علم لوگوں نے الٹا کرونا کو ہی ناکوں چنے چبوا دیے۔ ایسے میں اپنے ہاں ”عاقل مرن بھکھے تے مورکھ کھاون جلیب“ کا محاورہ صادق دکھتا ہے۔ غور کریں کہ ابنارمل شخص زمانے کی نظر میں پاگل اور کم نصیب سہی پر خود کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے۔

اسے ماضی ستاتا ہے نہ حال کی بدحالی کا رونا اور نہ ہی مستقبل کے اندیشے چکراتے ہیں۔ اسی لئے غالب حافظہ چھن جانے کا متمنی تھا۔ سادہ اور لا علم افراد اپنی زندگی آسانی سے بسر کر جاتے ہیں جبکہ فکر مند، عقلمند اور دانش مند ہوس نصیبی کے باعث اپنی زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ کیونکہ ضرورت فقیر کی بھی پوری اور خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری ہی رہتی ہے۔ اس لئے لاعلمی اکثر ہی سود مند رہتی ہے اور کبھی کبھار تو نعمت بھی ثابت ہوتی ہے۔ اور انسان اپنی زندگی کے چار دن ٹینشن فری ہو کر گزار سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).