کربلا: جمہوریت اور ملوکیت کی جنگ



محرم سے سال نو کا آغاز ہو گیا ہے، ہر انسان امام عالی مقام کی جدوجہد کے لئے اپنا اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے۔ واقعہ کربلا کے متعلق میری ناقص رائے یہ ہے، کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی جدوجہد کا اصل فلسفہ ظالم اور جابر حکمران کے خلاف مزاحمت تھا، جسے مسلمانوں نے 61 ہجری میں ہی فراموش کر دیا تھا، حقیقی فلسفہ کی جگہ کوفیوں نے ہمیں گریہ و زاری اور ماتم کے مصنوعی فلسفے کا علم ہاتھ میں تھما دیا۔ جسے تھامے ہم ہر سال 9 اور 10 محرم کو تعزیہ اور جلوس نکالتے ہیں اور پھر امام کے افکار کو بھول کر دوبارہ سے روزمرہ زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کا قول ہے، میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائق ملامت سمجھتا ہوں۔ امام عالی مقام نے سعادت کے راستے کا انتخاب کیا، جبکہ ہم نے ملامت کو منہ پر ملنے کا ارادہ کیا اور ظالموں کے راستے پر چل دیے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی، جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی۔ کوفہ ایک شہر کا نام نہیں، بلکہ خاموش امت کا نام ہے۔ جہاں پر بھی ظلم ہو امت خاموش رہے، وہ جگہ کوفہ اور لوگ کوفی ہیں۔

اگر کوفی 61 ہجری ہی میں امام کے فلسفے کو زندگی کا حصہ بنا لیتے تو یقین مانیے مسلم ممالک میں آج ملوکیت اور آمریتوں کی جگہ خلقت کا راج ہوتا۔ اس خلقت کا جو اپنے خلیفہ سے ایک اضافی چادر کا حساب مانگ لیتی تھی، اور خلیفہ بھی خوشی سے جواب دے دیتے تھے۔ مگر خلقت نے بھی تو صادق اور امین (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زیر سایہ تربیت پائی تھی۔

میں برملا اس بات کا اعتراف کرتا ہوں، کہ امت اب بھی کوفیوں کے ساتھ ہے، عراق، لیبیا، شام، اور افغانستان اجڑ گئے، امت نے کوفیوں کی طرح خاموشی اختیار کی۔ کشمیر میں کرفیو لگے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا، فلسطین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو گیا، امت کوفیوں کی طرح خاموش رہی۔ ہم نے تو حسینیت کا علم تھاما ہی نہیں، ہم نے تو اس عظیم قربانی کو فراموش کر دیا۔ جب بھی دنیا میں اور مسلم ممالک پر ظلم ہوا، ہم ظالم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

صدام نے ایران پر حملہ کیا، ہم صدام کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا، ہم انکل سام کے پاؤں میں گر گئے۔ کشمیر کو بھارت نے اپنی ریاست کا حصہ بنایا، ہم بھارت کے ساتھ جا ملے۔ فلسطین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہوا ہم اسرائیل کے حق میں خاموش ہو گئے۔ امت کے دل میں غم حسین ہے، مگر تلواریں کوفیوں کی طرح ظالم کے ساتھ ہیں۔

خواب مکہ ہے، مگر تقدیر ہماری کوفہ ہے۔
بقول اقبال:
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
بقول افتخار عارف:
‏حسین تم نہیں رہے تمھارا گھر نہیں رہا
‏مگر اس کے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا

افتخار عارف سے معذرت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام تو نا رہے، مگر ظالموں کا ڈر وقت کے ساتھ زیادہ ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے پہلے امت میں موجود چند ایک سر پھرے کلمہ حق کہہ دیتے تھے، اب تو وہ بھی ناپید ہو گئے ہیں اور کچھ کو تو عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہے، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

بقول اقبال:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نا نوری ہے نہ ناری

محرم الحرام میں مجالس کرنے، نیاز بانٹنے، سبیل لگانے، علم اٹھانے، تعزیہ نکالنے، ماتم کرنے، مرثیہ و نوحہ پڑھنے سے فلسفہ سمجھ لگتا، تو آج امت اس طرح بے حال نا ہوتی۔

کبھ اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

گردوں اجڑ گیا، تارے بکھر گئے اور اجڑ گئے، مگر اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ وقت کے منتظر رہے کہ ہم بچ گئے ہیں، باقی سب خیر ہے۔ بچا کوئی بھی نہیں، نا ظالم اور ظلم کاساتھ دینے والے، سبھی اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔ اگر آپ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں، ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی کردار ادا نہیں کرتے ہیں۔ تو میں اور آپ حسین پاک سے محبت کے تقاضے پورے نہیں کر رہے ہیں۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
اللہ ہمیں حسینیت کا علم صحیح معنوں میں اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، وما علینا اللبلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).