مسیحیوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت


1989ء میں پاکستان کی سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے دورہ امریکہ کے دوران محترمہ سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے مسیحیوں میں انتہا پسندانہ خیالات نے کیسے جنم لینا شروع کر دیا؟ تو محترمہ نے بتایا کہ اکثریت کی سوچ نے شاید انہیں بھی مغلوب کر لیا ہے۔ یہ سوال اگر مقامی لوگوں سے کیا جائے شاید وہ یہ جواب دیں کہ ہماری ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے نتیجے میں۔ اور دیکھیں تو جواب دونوں ہی درست ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اکثریت نے اس انتہا پسندی کی سوچ سے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر لیں ہیں، جو ہم بھی ان خیالات کے زیر اثر آ کر انتہا پسندی کی لہر کے ساتھ بہنا شروع ہو گئے ہیں؟

کچھ دن پہلے لوگوں کو بہت برا لگا کہ ماروی سرمد نے یسوع مسیح کی ٹویٹ کے ذریعے تضحیک کی ہے اور اس بارے میں لوگوں نے بڑا واویلا کیا اور ماروی سرمد کو پتا نہیں کیا کیا گالیاں دیں، جن کا شاید ان کو نقصان کم اور سوشل میڈیا پر فائدہ زیادہ ہوا ہو۔ جبکہ یسوع مسیح کو دیکھیں تو انہوں نے اپنے آپ کو مصلوب کرنے والوں کو اپنے اوپر تھوکنے والوں کو اپنا تمسخر اڑانے والوں نہ صرف برداشت کیا بلکہ معاف کیا اور ہمیں کیا حکم دیا اگر کوئی تمہارے ایک گال پر چانٹا مارے، تو دوسرا بھی اس کے آ گے کر دو۔ اور اس عمل کے ذریعے یسوع مسیح ہمیں کمزور نہیں کر رہے بلکہ ہمیں صلح کا راستہ، برادشت کا راستہ اورمعافی کا راستہ بتاتے ہیں۔

دوسراواقعہ کچھ دن پہلے ایک ٹک ٹاک پر لوگوں نے بڑا واویلا کیا کہ جس میں موصوف ہمیں دو لاکھ کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کا کہہ رہا ہے تو ہمیں اس کے ٹک ٹاک کو کو وائرل کر کے اس آدمی کو گالیاں دینے کی بجائے اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے یسوع مسیح کی وہ بات یاد کرنی چاہیے، جب ابلیس نے یسو ع مسیح کو چٹان پر ایک سجدے کے عوض کل کائنات کا لالچ دیا مگر انہوں نے اس سب کی بجائے دکھوں کی زندگی کو ترجیح دی۔

قربانی کی عید آئی تو مدنی ٹی وی ایک مولانا صاحب نے منافرت پھیلاتے ہوئے خطاب کیا کہ غیر مسلموں کو عید کا گوشت نہیں دینا چاہیے، اور ویڈیو آنے کی دیر تھی کہ ہمارے مذہبی لوگ جو پہلے ہی دبے لفظوں میں لوگوں کو روکتے تھے، انھوں نے فوراً سے ویڈیو بنائیں اور مولوی صاحب کے مقابلے میں نفرت کے بدلے نفرت پھیلانے شروع کر دی۔ حالانکہ یسوع مسیح سے کھانے کے بارے پوچھے گئے سوال میں یسوع مسیح نے واضح کہا کہ انسان کے اندر جانے والے چیز اسے ناپاک نہیں کرتی بلکہ اس کے اندر سے نکلنے والی چیز اسے ناپاک کرتی ہے۔ مطلب مسیحیت اور یسوع مسیح کی تعلیم ہمیں ایسی بحث کی بجائے کہ کیا کھائیں یا کیا کیسے کھائیں کی بجائے نفرت، بدی، برے خیالات، ناپاک ارادے اور گناہوں سے روکتی ہے نا کہ کھانے پینے سے۔

زیادہ تر لوگ کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں موجود ایک قانون (جس نے اس ملک کے ایک گورنر اور ایک وفاقی وزیر کا جان لے لی ہے) لٹکتی تلوار ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی غیر مسلم پر چل سکتی ہے اور اس قانون میں ایسا ہوا بھی ہے کہ بہت سارے لوگ الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی اپنی جان گنوا بیٹھے لہٰذا س قانون میں ترمیم ہونی چاہیے یا اسے ختم ہونا چاہیے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ ماروی سرمد کے ٹویٹ کے جواب میں فوراً سے لوگوں نے یہ کیوں ڈیمانڈ کیا کہ ماروی سرمد کے اوپر اسی قانون کے تحت مقدمہ ہونا چاہیے؟ ماوری سرمد حالیہ مثال ہے، حالانکہ ایسی کئی مثالیں روزانہ کی بنیاد پر تھانوں میں درخواستوں کی صورت میں ہوتی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم مسیحیوں نے بھی انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کے خیالات کو اپنانا شروع کر دیا اور آ نکھ کے بدلے آ نکھ کے فلسفے کو ماننا شروع کر دیا ہے۔

سوال پھر وہی ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ کو تقو یت دے کر اس ملک میں ایسی کون سی تبدیلی آ ئی ہے جس نے لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا ہے؟ تو ایسے میں کیوں ہم اس راہ پر چل رہے ہیں، جس راہ پر چار دہائیوں سے ہمارے ملک کی اکثریت نے کچھ حاصل نہیں کیا؟ فیصلہ آپ خود کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).