سیاست کی چند ایمان لیوا بیماریاں: کرپشن (ام الامراض)


سیاست و معاشرت کی سب سے بڑی ایمان لیوا بیماری کرپشن ہے جس کی گود میں ہزاروں مہلک بیماریاں پرورش پاتی ہیں۔ کرپشن در اصل ”ام الامراض“ ہے اور انتہائی زرخیز کوکھ کی حامل ہے۔ اسے اردو میں ”بد عنوانی“ اس لئے کہتے ہیں کہ اس ضمن کی تمام سرگرمیا ں اپنے نام و عنوان سے معیوب ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان افعال کے لئے ان کے عنوان کے ساتھ بد کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ یعنی یہ سب نام سے ہی بری ہیں۔ دنیا میں ہر سال 9 دسمبر کو اس مرض کے انسداد کا دن بھی منایا جاتا ہے۔

جیسی بھی ہو ہمارا اس سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم کرپشن کو ہر بالغ شہری کا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ یہ ہر صاحب اختیار، سرکاری ملازمین، صنعتکاروں اور چند خاص لوگوں پر فرض ہے۔ اگر کوئی نحیفی و پیری کے موجب گرگ ظالم نہ بن سکے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور فرائض میں کوتاہی سمجھتے ہیں۔ کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھونا کہاں کی دانش ہے۔ انسان لڑکپن تک کرپشن سے بے بہرہ ہوتا ہے بلکہ دیانت کا بھوت لئے مباحث میں الجھا رہتا ہے مگر کسی عہدے تک پہنچتے پہنچتے وہ بھوت منہ کے بل گر پڑتا ہے۔

پھر کرپشن مستحب سی ہوتی جاتی ہے۔ کچھ مزید غواصی و مشاقی اسے فرض تک لے جاتی ہے اور حکمرانی تک یہ فرض عین کا درجہ پا لیتی ہے۔ البتہ کرپشن کا چورن صرف اپنے مخالفین کے لئے ہی بکتا ہے۔ ہمارے اذہان کا سوفٹ ویئر ہی ایسا ہو چکا ہے کہ اپنے سوا سب بد عنوان نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے سیاستدان تو ”ہتھو ہتھ“ لئے جاتے ہیں۔ ۔ کرپشن نگاری، کرپشن پروری اور کرپشن شکنی کی تخصیص اپنے اپنے زاویوں سے کی جاتی ہے۔ سیاسی اصطلاحات کی مایہ ناز لغت ”فرہنگ انصافیہ“ کے مطابق ایسے تمام افعال و اعمال جو ان کے حریفوں سے سر زد ہوں، کرپشن شمار کیے جائیں گے۔ اک اور مشہور لغت، نون اللغویات ”میں انصرام حکومت کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات اور اخراجات کو کرپشن کے دائرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔ فرہنگ انصافیہ کے مرتبین نے چند سال قبل کرپشن کی چند علامات وضع کی تھیں جودرج ذیل ہیں۔

1۔ جن ممالک کی حکومتیں قرضے لیتی ہو۔
2۔ جہاں ڈیل اور این آر او کا رواج ہو۔
3۔ جہاں خارجہ پالیسی اغیار کے تابع ہو۔

4۔ اورجہاں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوجائیں تو سمجھ لو حکمران کرپٹ ہیں۔ انہوں نے ان حالات میں سول نافرمانی کو بھی جائز قراردیا۔

کرپشن کے فوائد

اس بیماری کے کچھ فوائد بھی ہیں جو شریف اور سادہ لوحوں کا حصہ ہیں۔ جیسے کہ کسی کام کروانے میں وقت کے ضیاع اور کوفت سے محفوظ رہنا۔ کسی سرکاری اہلکار کو اچھے اخلاق اور رویے پہ مجبور کر دینا۔ مہینوں کا کام دنوں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں ہو جانا۔ کہاوت ہے:

Corruption makes the mare go.

زندگی کے ہر کٹھن موڑ پہ کرپشن ہی رہبر کامل ثابت ہوتی ہے۔ یہ وہ ”باد موافق“ ہے جو وسعت افلاک میں شاہینوں کو مزید اونچا اڑنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ نہ ہو تو لوگ امور کی مشکل کشائی کے لئے خوار ہو جائیں۔ سب سے بڑا فائدہ بیروزگاری کا خاتمہ ہے۔ اس سے فی کس آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ”فضل ربی“ کا نزول بھی اک روحانی سعادت کم نہیں۔ کم آمدنی والے طبقات کے لئے بقا کی ضمانت ہے۔ کرپشن کی دو بڑی اقسام ہیں۔

1: RANDOM CORRUPTION

حکومت یا کسی عہدے پہ لمبے عرصے سے براجمان افراد سے سر زد ہونے والی کرپشن رینڈم کرپشن کہلائے گی کیونکہ وہ مدت سے اس کار شر میں شریک ہوکر اپنی بنیادیں مضبوط کرچکے ہوتے ہیں۔ وہ اب محض عادتا کرپشن کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ

” حصول رزق، ہر حال، عین عبادت ہے“
اور یہ عبادت قیادت سے مشروط ہو تی ہے۔
2 : FASTING CORRUPTION

مرقومہ بالا نوع کرپشن کے بر عکس فاسٹنگ کرپشن کے دھنی کسی عہدے، ذمہ داری یا حکومت میں آنے ولے نئے طالع آزما ہوتے ہیں۔ ماضی میں موقعوں کی عدم دستیابی کے موجب تاحال تہی دست اورصالح ہوتے ہیں۔ پوری عمر اغیار کو لمبے ہاتھ مارتے دیکھا اور سنا۔ حسرت و رشک سے باری کے منتظرجب منزل کو آلیتے ہیں تو لگ بھگ نہار منہ کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کی وضاحت یوں جی جاسکتی ہے کہ ایک زخمی بیل پہ کوا بیٹھا زخم سے کچھ نوچ رہا تھا۔ مالک کوے کو اڑانے لگا تو پاس بیٹھے بزرگ نے لقمہ دیا ”اسے مت اڑا بیٹے، یہ سیر ہو چکا ہے۔ نیا کوا آئے گا تو بھوکا ہو گا، زیادہ نوچے گا“ ۔ اب تو ٹرانسپریسی لیبارٹریز کی رپورٹ نے بیماری کے مزیدبڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دیگر بیماریوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سلطنت سیاست کی عام بیماریاں
ذیل میں چند قومی بیماریوں کی تفصیل دی گئی ہے۔
رشوت کی شوگر:

اس بیماری جراثیم کسی ناجائز کام کی خواہش اور تگ و دو کرنے سے پھیلتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا افراد کے ضمیر، دیانت اور ایمان میں انسولین خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے۔ اہل دانش و حکمت اس بیماری کا علاج بھی رشوت سے ہی تجویز کرتے ہیں۔ یعنی رشوت لینے کے موجب عتاب میں مبتلا حضرات کی رشوت ہی سے جاں خلاصی ہو سکتی ہے۔ یہی اس کا مجرب نسخہ ہے۔ اس بیماری میں کسی قسم کی پرہیز کی حاجت نہیں ہوتی اور مریض نقد اشیا کے ہم راہ ہر قسم کا خام مال کھانے کا روا رہتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کا سرطان:

ہر بڑا کاروباری گروہ مجموعی طور پر ذخیرہ اندوزی کے سرطان میں مبتلا ہے۔ چھاپوں سے وقتی افاقہ ممکن ہے مگر حتمی علاج کا تصور نہیں ہے۔ اس مرض کے وائرسس بڑے بڑے گوداموں میں پنپتے ہیں اور موقع دیکھ کر عوام الناس کو ذلیل و خوار کرتے ہیں۔

خوشامد کی ٹی بی:
اس با ضرر سی بیماری نے پورے معاشرے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر سطح کے لوگ اس عارضے سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس میں بچھ بچھ جانا، چاپلوسی کرنا، صدقے واری جانا، جی حضوری کرنا، کھوتے کو گھوڑا کہنا عام ہوتا ہے۔ سب سے بڑی علامت پاپوش برداری ہے۔ ان مریضوں کے ہاں مکھن اور روغن قاز کثرت سے پایا جاتا ہے۔ پرانے دور میں اس مرض کے مریض، بھاگ لگے رہن، کی آوازیں لگایاکرتے تھے۔ اب باقاعدہ ایسے مریض، سیاسی میراسی، ہوچکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے باعث دور جدید میں وہی میراسی آج سائبر میراثیت کا شکار ہیں اور اپنے آقاؤں کی مدح میں جگتیں کسا کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک موروثی مرض ہے۔ مریضوں کی ہسٹری سے ظاہر ہے کہ اکثر کے باپ دادا بھی اسی عارضے سے جہان سے گزر گئے۔

نرگسی عارضے:
ریاست میں لا تعداد افراد نرگسیت کے عوارض میں بری طرح مبتلا ہیں جن کا علاج نا ہونے کے برابر ہے۔ ہر طبقے، گروہ، سیاسی و مذہبی جماعت کے بہت سے سر کردہ لوگوں کو اس بیماری نے گھیر رکھا ہے۔ ایسے مریضوں کے پاؤں زمین پہ نہیں ٹک سکتے۔ گویا وہ اپنا وزن نہ اٹھانے کے باعث ہر وقت فضا میں لٹکے رہتے ہیں۔

وعدہ خلافی کا ڈمینشیا:
یہ مرض پورے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے۔ اس میں کسی بھی شخص کو کسی سے کیے ہوئے ء وعدے بھول جاتے ہیں۔ مرض کی شدت میں لوگ اپنی اپنی اوقاتیں بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔

گالی گلوچ کا جذام:
ویسے تو یہ مرض خاصا پرانا ہے مگر چند برس سے اس کی شدت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس بے ہودہ بیماری میں گھرے مریض ”کوڑھ“ کا شکار ہو کر نہ صرف نزدیک بلکہ دور سے بھی بد صورت لگتے ہیں۔ ان کے دماغ اور خون میں دشنام اور طعن و تشنیع کے جراثیم خوفناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ گالی ہی تکیہ کلام اور گالی ہی تہذیب بن جاتی ہے۔ اس مرض کے شکار مریضوں کا ہر جملہ ناں، اوئے، میری بات سنو سے شروع ہوتا ہے اور ان کی باتوں سے خیر کا اندیشہ یکسر خارج از امکان رہتا ہے۔

ان کے لہجے سے زہر ٹپکتا ہے۔ لہجہ ہی تو الفاظ کا DNA ہوتا ہے جس سے نظر کا فتور، نیت کا کھوٹ اور دل کا چور پکڑا جاتا ہے۔ بہت سے محکموں میں اور وزارتوں میں بہت سے لوگ پاگل بیس پہ بھرتی یا سلیکٹ کر لئے جاتے ہیں۔ ان مریضوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہمہ وقت منہ بنائے اور منہ چڑائے رکھتے ہیں۔ انہیں نہار منہ ہی منہ مارنے کی خوئے بد لگ جاتی ہے۔ اگرچہ لا علاج مرض ہے پر منہ کی کھا کر منہ بسورنے پہ کچھ افاقے کا امکان پیدا ہو سکتاہے۔

مگر اس وقت تک یہ عارضہ ”فٹے منہ“ کے مرحلے تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ سیاسی تبرہ بازی کی دوڑ ہوتی ہے۔ پہلے دیوانہ سینکڑوں میں پہچانا جاتا تھا اب توازن ایسے بگڑا کہ دیوانہ ہی دیوانے کو دیوانہ کہنے لگا۔ اب شبہ باقی نہیں کہ اس بیماری میں مبتلا دیوانہ مریض اس مقام پہ فائز ہو چکا ہے جسے لوگ ”شرم کا مقام“ کہتے ہیں۔

حکمرانی کی رے بیز:
سلطنت خداداد میں ہر ”بڑے“ کو اقتدار اور حکمرانی حاصل کرنے کی جان لیوا بیماری لا حق ہو جاتی ہے جو با لآخر جان لے کر ہی جان چھوڑتی ہے۔ یہ مرض لا علاج ہے اور اس میں مبتلا افراد ہر حال میں اور ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرکے دم لیتے ہیں۔ مگر ایسے مریض کبھی بھی نارمل اور صحت یاب نہیں ہو پاتے اور اسی کشمکش میں جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری ہوس اقتدار کی ”سگ گزیدگی“ کے موجب ہوتی ہے اور متاثرہ شخصیت قتل ہو کر، پھانسی پا کر یا دیار غیر میں عبرت ناک موت پا کر اس بیماری سے مکتی پاتا ہے۔ پنجابی میں اس مرض کو، حکومت دی ہڈک، بھی کہتے ہیں۔

پروٹوکول کا نمونیا:
یہ بیماری تقریباً ہر آنے والی حکومت کو اجتماعی طور پر چمٹ جاتی ہے۔ حا لانکہ حکومت میں آنے سے قبل وہ اس عارضے کے جراثیموں سے یکسر محفوظ اور پاک ہوتے ہیں اور اس بیماری میں مبتلا وقت کے حکمرانوں کو اس حوالے سے سینگوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ کچھ اس بیماری کو قطعاً معیوب نہیں سمجھتے بلکہ سرکار کی مجبوری سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم اور دیگر وزیر ہیلی کاپٹر پر نا جائیں تو کیا ”کھوتوں“ پہ جائیں۔ مزید یہ کہ اتنا پروٹوکول تو پنجاب کا ایک ”گجر“ بھی لے لیتا ہے۔ وہ یوں کہ دس بھینسیں آگے تو دس پیچھے اور ساری ٹریفک جام۔ ویسے ہم نے جب پروٹوکول کا لفظ پہلی بار سنا تو ہمیں، پراٹھا کھول دو، ہی لگا۔

نا اہلی کا فالج:
اس بیماری میں مبتلا شخص پہ ”کمکوسی“ کے شدید دورے پڑتے ہیں۔ یہ ہر وقت انتظامی و مالی مشکلات میں اضافے کے لئے حسب لیاقت حصہ لیتے ہیں۔ تہمت اقتدار کے متحمل نہ ہونے کے باوجود انصرام میں جکڑے رہتے ہیں مگر اقتدار کا کمبل نہ چھوڑتا ہے نہ چھٹتا ہے۔ اس صورت حال میں قدرو قیمت کا پیمانہ مناصب اور عہدے رہ جاتے ہیں نہ کہ کام کی صلاحیت، اس مرض کے مریض افسر اور حکمران اپنی گاڑی کا دروازہ تک نہیں کھول سکتے۔

امراض بل:
مملکت خداداد میں بل کی بیماریاں نہایت خطرناک اور خون آشام بنتی جارہی ہیں۔ یہ وبائی امراض ہیں اور لگ بھگ ہر شہری و دیہاتی ان امراض کا شکار ہے۔ ان میں بجلی، گیس پانی اور فون وغیرہ کے بلوں کی بیماریاں شامل ہیں۔ ان کے بل اپنی اپنی بلوں سے نکل کر عام آدمی کو یوں ڈستے ہیں کہ وہ بلبلاتا رہ جاتا ہے۔ ان کے متاثرہ افراد ہر وقت چکرائے رہتے ہیں۔ خون پیدا کم اور جلتا زیادہ ہے۔ ایسے مریض یا تو چپ سادھ لیتے ہیں یا اول فول بکنے لگتے ہیں۔ مہینے میں ایک آدھ بار ان عوارض کے شدید دورے پڑتے ہیں جن کا علاج بلوں کی ادائیگی کی صورت میں صدقات دینے سے ممکن ہے۔ ان امراض پہ کنٹرول نا ممکن ہوتا جا رہا ہے تاہم عاملین اور سرکاری اہلکاروں کی معاونت سے ان کی شدت میں کمی ممکن ہے۔

ٹرین ہیمبرج:
اگرچہ بادی النظر ریل کی ریل پیل دیدنی ہے مگر حیرت ہے کہ سات عشروں سے پٹڑی پہ چلنے کے باوجود پٹڑی پہ چلنے کے لائق نہیں ہوئی۔ گویا یہ محکمہ ٹرین ہیمبرج کے عارضے کا شکار رہا جس کی وجہ عدم توجہی اور مناسب علاج کا نہ ہونا ہے۔ اتنی بے رخی برتی گئی کہ صحت و کردار بگڑ گئے۔ اس کی دیکھ بھال کا طریقہ اب تک 1898 کا ہے جبکہ ریلوے ایکٹ 1890 میں تیارہوا۔ یاد رہے کہ فرنگی کو ریل کی صحت اور عصمت اتنی عزیزتھی کہ دفعہ 127 کے تحت ریل کی کسی بوگی یا چھکڑے کو پتھر مارنے کی سزا موت یا عمر قید تھی۔

ریلوے حادثات اور آتش زدگیاں کے معمول دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ٹرینیں کئی بار ”ستی“ ہوئیں اور متعدد مرتبہ خود سوزیاں بھی کی گئیں۔ اب تو اس کے مرض پہ انگھوٹے سمیت انگلیاں بھی اٹھنے لگیں ہیں۔ تاہم ریلوے غریب غرباء اور زندگی سے بیزار افراد کے لئے نجات دہندہ بھی رہی ہے اور سینکڑوں مایوس لوگ ریلوے کے طفیل اپنی مدد آپ کے تحت قید حیات سے آزاد ہوئے۔

سرخ فیتے کا ٹائیفائیڈ:
یہ عوام الناس کے لئے بڑی مہلک بیماری ہے۔ سرکاری دفاتر میں کام کی غرض سے جانے والے اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Red Tapism کہتے ہیں۔ اس نامراد مرض میں پھنسنے والا شخص نہائیت قابل رحم ہوتا ہے۔ اس کو سرکاری محکموں کے دفاتر کے پھیروں کی عادت پڑجاتی ہے اور وہ گھر کا رہتا ہے نہ سسرال کا : چھوٹے چھوٹے کاموں میں شب و روز اور ماہ وسال بیت جاتے ہیں مگر کام بنتا نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات تو یہ بیماری متاثرہ شخص سے اس کی اولاد میں بھی منتقل ہوجاتی ہے اور وہ باپ کے انتقال پر ملال کے بعد انہیں کاموں کی تکمیل میں عمر گزارتا ہے۔ سرکاری داماد اسے چارہ سمجھ کر برسوں چرتے رہتے ہیں۔ یہ بیماری بھی چھوت کی بیماری ہے جو، سائل بہ سائل، کلرک بہ کلرک اور دفتر بہ دفتر پھیلتی ہے۔ دفاتر میں سرخ فیتے کا استعمال اور کلرک کلچر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کچھ عرصہ بعد آفس کے باہر تختی لٹکنے کا امکان ہے کہ

”بغیر رشوت اندر آنا منع ہے۔“

کلرک کے لباس میں بے شمار جیبیں اور میز میں کئی دراز ہوتے ہیں۔ جبکہ کمرے میں صرف ایک کرسی ہوتی ہے تاکہ کسی سائل کو تشریف رکھنے کی زحمت ہی نہ کرنا پڑے۔ ایک دن کے کام کو مہینوں پر محیط کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بقول انور مسعود:

کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے
جو بے انتہا صاحب غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

میز کرسی کے اکثر سوار جمائیوں کے خمار میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اکثر درویش صفت ملازم سامنے میز پر ہی جبین شوق لگا کر سجدہ ریز رہتے ہیں۔ رشوت بسم اللہ پڑھ کر وصول کرتے ہیں اور آیت الکرسی کا ورد بھی جاری رکھتے ہیں۔ ملازمین کی نیچے کی کمائی کے ساتھ ساتھ اوپر کی کمائی کا تصور عام ہے جسے فضل ربی سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ سمیٹا جاتا ہے۔ کچھ احباب پہ نوکری کے ابتدائی دنوں میں خلوص تجربہ کاری پہ خاصا غالب رہتا ہے مگر بتدریج پرانے رفقا کی معیت اور راہنمائی کی بدولت نو وارد ملازم نوکری کے داؤ پیچ سیکھ جاتا ہے اور خلوص پہ تجربہ کاری حاوی ہونے لگتی ہے۔

پھر فرائض کی ادائیگی میں سائلین پہ احساس و شرم کی بجائے محض غصہ آتا ہے۔ اب تو عام لوگ اور سائلین اپنے حقوق سے از خود ہی دستبردار ہو رہے ہیں۔ پرانی بات ہے کہ اک غریب آدمی کے گدھے کی دم شریر بچوں نے کھینچ کر توڑ دی۔ وہ شکایت لے کر قاضی کے پاس گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ مقدمات کے ڈھیر لگے تھے۔ خاصی دیر وہ ان مقدمات اور ان کے فیصلوں کے احوال کا مشاہدہ کرتا رہا۔ جب اس کی باری آئی تو یہ کہتا عدالت سے بھاگ نکلا ”خرما از ابتدا دم نہ دارد“ یعنی میرے گدھے کی دم شروع سے ہی نہیں تھی۔

بعینہ ہمارا نظام عدل ہے کہ جو ملزم عدالت پہنچا سکھ کا سانس پایا۔ وکلاء کی کارروائیاں، دیانت، شائستگی اور خلوص کسی سے چھپا نہیں خیر اب تو لوگ باشعور ہوتے جار ہے ہیں اور وکیل کی بجائے جج کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ اب ذرا تمام محکموں کے مائی باپ، اکاؤنٹ آفس، کی بات کر لیں۔ ویسے تو دنیا کے تمام ممالک میں مالیات اور امور خزانہ کی انجام دہی کے لیے اکاؤنٹ آ فس موجود ہیں اور سرکاری محکموں اور ملازمین کے لئے اس کی حیثیت مسلم ہے مگر ہمارے والا اکاؤنٹ آفس اپنے چال چلن، حکمت عملی اور امتیازی خفیہ سرگرمیوں کے باعث نہائیت معتبر، موثر اور دبدبہ کی علامت ہے اور سرکاری ملازمین اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔

اس کا شجرۂ نسب کئی واسطوں سے قا رون کے خزانے سے ملتا ہے۔ جس کا نظام کمپیوٹرائزڈ نہ تھا اور جاہل قسم کے لوگ متولی تھے۔ جبکہ موجودہ اکاؤنٹ آ فس عالیشان عمارات کے علاوہ جدید ترین کمپیوٹرائزڈ نظام کا حامل ہے۔ قارون کے خزانے میں کام کرنے والے لوگ منکرین تھے مگر آج کے اکاؤنٹ آفس میں مومنین اور صالحین برسر پیکار ہیں جنہیں عرف عام میں کلرک ہی کہا جاتا ہے پر ان کو دیگر محکموں کے کلرکوں پر دس گو ناں زیادہ فضیلت حاصل ہے۔

لفظ کلرک چونکہ ”کافین“ یعنی دو کافوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے اہل علم و دانش اور متاثرین ان کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ قلم چھوڑ ہڑتال من پسند مشغلہ ہے جبکہ رشوت چھوڑ مہم سے یکسر نا بلد ہیں۔ ان کے لباس میں متعدد جیبیں اور میز میں کئی دراز ہوتے ہیں جن کا کام فضل ربی کے عمل میں معاونت کرنا ہے۔ اکاؤنٹ آفس میں ہر جائز و ناجائز کام کروانے کے لئے عوام الناس جدید نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں البتہ خواص اس نظام کو اچھی طرح سمجھنے کے باعث جلد کام نکلوا کر سرخ فیتے کی اذیت سے بچ سکتے ہیں۔

اکاؤنٹ آفس کی پرنٹنگ مشین (پرنٹر) اکثر خراب رہتی ہے مگر مشین کے سامنے ان کے آپریٹر اور دیگر مسکین، حق دار افراد پر چڑھاوے چڑھانے سے مذکورہ مشین معجزانہ طور پر کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہاں پر منت ماننے کا رواج عروج پر ہے لوگ دلی تمناؤں اور مرادوں کے حصول و تکمیل کے لئے اکاؤنٹ آفس میں موجود کچھ پہنچے ہوئے لوگوں کے حضور منتیں مانتے ہیں اور کام اور مرادیں برآ نے پہ منت ادا کرتے ہیں زیادہ تر منتوں کی نوعیت Prepaid ہوتی ہے جن میں کام کروانے سے قبل ہی حساب بے باک کیا جاتا ہے جبکہ د وسری قسم Postpaid ہے جو صرف تعلقات کی بنا پر مانی اور ادا کی جا سکتی ہیں۔

مذکورہ آفس کے افراد کے مزاج ور اخلاق کو معتدل رکھنے کے لئے صدقات، امداد، اور منتوں سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے۔ کہاوت ہے کہ مذکورہ آفس کے معاملات میں کوئی بڑ ے سے بڑا بھی مداخلت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ایسی مقدس اور متبرک ہستیوں کی آماجگاہ ہے جن کے پاؤں تمام محکموں کی گردنوں پرہیں۔ آ خر میں متا ثرین اکاوئنٹ آفس کی راہ نمائی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اکاوئنٹ آفس میں داخل ہونے کی مجرب دعائیں اور دوائیں اپنے پاس رکھیں۔

بیرونی دوروں کی مرگی:
ہر حکومت حاضرہ اور اس کے اراکین کو اپنے دور حکومت میں غیر ممالک جانے کی مرگی کے شدید دورے پڑتے ہیں۔ اس مرض کا ملک میں کوئی علاج نہیں ہے اور شفا کے لئے ہر حال میں بیرونی دوروں پہ جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ اکثر حکومتی وزراء کو پورے خاندان سمیت یہ امراض چمٹ جاتے ہیں۔ اس مرض کے شکار حکمران کے لئے ایک دن بھی ملک میں چین سے بیٹھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ حکومت ختم ہونے پہ مرگی کے بیرونی دوروں کا زور یک دم ٹوٹ جاتا ہے۔

بیڈ گورننس کی کور چشمی /موتیا:
خوش فہمی اور ڈھٹائی کے وائرس اس بیماری کے موجب ہیں۔ اس میں مبتلا مریض اپنے ہر عمل کو درست اور قابل فخر سمجھنے لگتا ہے اور باقی معاشرے کو بد فہم، بد چلن، بد خو اور بد سخن گردانتا ہے۔ اس کور چشمی کے لئے درکار نظر کا چشمہ نمبر کے لحاظ سے دو نمبر اور نوعیت کے لحاظ سے ہمیشہ تعصب کا ہوتا ہے۔ ترقی کی بدولت اب ہر نمبر، ہر اینگل اور مکتبہ فکر کے مخصوص لینز بھی دستیاب ہیں۔ اس کوتاہ بینی کے بباعث ایک دوسرے کو خوب آنکھیں دکھاتے ہیں۔ کچھ کی آنکھیں آ جاتی ہیں تو بعض کانا ہونے کی وجہ سے آنکھیں چراتے دیکھے جاتے ہیں۔ اس بیماری میں آنکھیں موندیں رہتی ہیں۔ جوابدہی کی صورت میں پہلے انکھیں پھیری اور آخر پہ صرف نیچی کرکے راہ لی جاتی ہے۔ آج کے اس کور چشمی کے دور میں سیاستدان توکیا، مرد مومن کو بھی عینک کی اشد ضرورت پیش آ چکی ہے۔

POSTHUMOUS DISEASE

یہ بیماری دنیا کے تمام ممالک میں پائی جاتی ہے مگر ہمارے یہاں اس کی شدت خطر ناک حد تک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں معاشرے میں موجود زندہ و حیات افراد واہیات کے زمرے میں جبکہ آنجہانی حضرات بہشتی سمجھے جاتے ہیں۔ جن لوگوں پہ عرصۂ حیات تنگ رہتا ہے وہی بعد از مرگ صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ متعدد سیاسی و مذہبی قائدین مرنے کے بعد امر ہوئے اور زندہ شمار ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں نہ کہیں دیکھے بھی جاتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ نے قابل رحم شخصیت پانے کے باوجود زندگی بھر اہمیت، عزت اور شہرت پائی۔ اگر وہ ہمارے ہاں ہوتا تو مسجدوں کے باہر بھیک مانگتا پھرتا البتہ مرنے کے بعد اللہ کا ولی کہلاتا اور اس کا شان دار میلہ بھی لگا کرتا۔ اک صاحب سے اپنے ایک ہم عصر کی موت پہ تعزیتی کلمات لکھنے کو کہا گیا تو موصوف نے کچھ یوں خامہ فرسائی فرمائی، ”مرحوم نہائیت با اخلاق، ملنسار اور با وقار انسان تھے۔ وہ ایک مثالی باپ، مثالی شہری اور غریب پرور شخصیت کے مالک تھے، بشرطیکہ، بشرطیکہ وہ مردود واقعی مر گیا ہے۔“

امراض دھرنا:
ان امراض میں مبتلا افراد سڑکوں، چوکوں اور قومی اداروں کے سامنے عجیب وغریب حرکتیں اور گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مرض کا وائرس صرف حکومت سے باہر بیٹھے افراد کو چمٹتا ہے جبکہ اہل اقتدار اس بیماری سے یکسر محفوظ رہتے ہیں۔ دھرنوں کا مریض اپنے گھر میں نہیں ٹکتا اور اسے بسوں، ٹرکوں اور کنٹینروں پر لپکنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ علاج کے طور پر حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات اور عہدوں کا لالچ موثر رہتے ہیں۔ اگر مرض کی شدت غیر معمولی ہو تو جن نکالنے والے عاملین کی خدمات لی جاتی ہیں۔ اس مرض کی اچھی بات یہ ہے کی دھرنے کی بیماری ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں لگا کرتی۔

پر اسرار امراض:
سیاست نگر کے کچھ امراض اس نوعیت کے بھی ہیں جن کی تشخیص جوئے شیر لانے سے بھی سوا ہے۔ بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون سر پکڑ کر بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں مگر بیماری کا اتا پتا معما ہی رہتا ہے۔ ان عوارض کے جرثوموں، وائرسسز یا بیکٹیریا کا سراغ بھی تا حال سیاسی طب میں ممکن نہیں ہے۔ ان امراض کا شکار افراد بستر علالت کے سہارے بہت سی سزاؤں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ایکسٹینشن کی ٹینشن:
ٹینشن خاصا اعصاب شکن مرض ہے۔ اس کی ہزاروں وجوہ اور اسباب ہوسکتے ہیں۔ جن میں اپوزیشنز، بیڈگورننس سیاسی بے چینی، مالی مسائل، میڈیا کا دباؤاور عوامی رد عمل شامل ہیں۔ اس بیماری کا ایک سبب ایکس ٹینشن بھی ہے۔ متعدد بار صاحبان جاہ و جلال کو اپنی ایکس ٹینشنوں پہ کوئی مشکل پیش نہ آئی پر کسی سیاسی حکومت کو کسی ”بڑے“ کی ایکس ٹینشن میں شدید ٹینشن کا سامنا کرنا پڑا۔ مآل کچھ کارگر جتنوں سے ایکس ٹینشن کو تاریخی عزت ملی جس کی وجہ سے ٹینشن رفو کر ہمیشہ کے لئے ex۔ tension یعنی سابقہ ہو گئی۔

انا کی جلن:
ریاست میں انا اور حسد کی جلن کافی تکلیف دہ عارضہ ہے۔ کچھ جلنے والوں کے جسم سوکھ کر تیلا ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی مرض ہے جو انسان کو باقی تمام مہلک امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ البتہ جلنے والوں کو سردیوں میں سردی بھی کم لگتی ہے۔

گیس ٹربل:
ریاست میں گیس ٹربل کے عوارض روز بروز تشویشناک ہوتے جا رہے ہیں۔ خصوصاً جاڑے میں سرد ناک سردی سے پالا پڑتے ہی اس بیماری میں شدت آجاتی ہے۔ کھپت میں اضافے اور نظم میں کمی کے باعث گیس کا خواب ”شرمندہ تبخیر“ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ریاستی حکما کے مطب میں گیس ٹربل کا تا حال کوئی شافعی علاج نہ ہے۔

بیانیوں کا ڈائریا:
سلطنت سیاست کے ہر بڑے کا اپنا بیانیہ لازم ہے۔ سیاسی نظام انہضام میں گڑبڑ کے باعث قائدین سیاست کو بیانیوں کے ڈایئریا کا مرض لا حق ہو جاتا ہے۔ راہ نماؤں کے ہاں بیانیوں کی زیادتی اس قدر ہوجاتی ہے کہ کتھارسس کے لئے ڈایئرئیے کے سوا کوئی مداوہ کار گر نہیں رہتا۔ ووٹ کو عزت دو، کوٹ کو عزت دو، بوٹ کو عزت دو، لوٹ کو عزت دو، بلڈی سویلین، جان اللہ کو دینی ہے ( ویسے تو سبھی نے جان اللہ کو ہی دینی ہے صرف ڈاکٹر فاسٹس میں جان شیطان کو دینے کا وعدہ ملتا ہے ) ، میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں، سب سے پہلے پاکستان، کبھی قرض نہیں لوں گا، پاکستان کھپے، مٹی پاؤ، کے بیانیے نمایاں ہیں۔ تاہم خاکی اطبا کے خصوصی علاج کے باعث اس مرض میں حیرت انگیز کمی دیکھی جارہی ہے۔

کوکورینا وائرس:
یہ وائرس بہت خطرناک اور لا علاج بیماریوں کا موجب ہے۔ اس میں مبتلا حضرات اخلاقیات سے عاری بلکہ اخلاقیات پہ، آری، ثابت ہوتے ہیں۔ ٹک ٹاک، فحش گوئی اور بے راہ روی کی تمام بیماریاں، کوکو رینا وائرس سے ہی پھوٹتی ہیں۔

کر کٹیریا (Cricketaria):
ہمارے ہاں کرکٹ کا کھیل کرکٹیریا نامی مرض کا باعث بنتا ہے۔ کرکٹیریا ایک سامراجی وبائی مرض ہے جو ایک فرد سے دوسرے اور پھر پورے معاشرے میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس مرض کے اگر ٹیسٹ کروائے جائیں تو نوے فی صد افراد کی رپورٹ پازیٹو آئے۔ کرکٹ کے بیکٹیریا دوسو سال قبل انگریزوں نے برصغیر میں درآمد کیے۔ بداخلاقی، کرپشن، رشوت، عریانی دہشت گردی کے خلاف جذبات اس قدر ابھارے نہیں جا سکتے جس قدر کر کٹ میچ اور خصوصاً بھارت کے خلاف میچ میں ابھر سکتے ہیں۔

حالانکہ آج کرکٹ اور جوئے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارا قومی مزاج، جذباتیت، عدم توازن، خواہشات اور مفروضات کا غیر معقول امتزاج ہے۔ ہم حقیقت سے کوسوں دور خوابوں کی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشوز بنانے کے از حد شوقین ہیں۔ اس مرض کے متاثرین کواپنی ٹیم کی شکست تسلیم نہ کرنے کا عارضہ لا حق ہو جاتا ہے۔ کرکٹ میچ ہارنے پہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں پہ عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔

ان کی سزا و جزا کے خوفناک فیصلے کیے جاتے ہیں۔ دوران میچ ناظرین کو دل کے دورے بھی پڑا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے ٹی وی سیٹ میچ ہارنے کے غم میں توڑدیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ مرض کا المیہ یہ ہے کہ ہار کی صورت میں پوری قوم دشنام طراذانہ اور طعن و تشنیعانہ احتجاجی سوگ مناتی ہے جبکہ فتح پہ بھی جیت کا جشن کئی ماہ معاملات حیات کو معطل کیے رکھتا ہے۔ گویا جیتنے پہ آتش بازی اور ہارنے پہ آتش گردی ہوتی ہے۔ اچھے حالات میں کرکٹر قوم کے سب سے بڑے ہیرو ہوتے ہیں۔

دوشیزائیں واری واری جارہی ہوتی ہیں۔ گھر میں دادی اماؤں تک کرکٹ فین کلب موجود ہوتا ہے۔ میچ ختم ہونے کے دو چار روز بعد بھی تبصروں کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ نوجوان طالب علم اپنی تعلیم اور امتحانات سے بے نیاز ہو کر کرکٹیریا کے خمار میں مدہوش نظر آتے ہیں۔ لوگوں کے کاروبار رک جاتے ہیں اور صرف اور صرف ٹیم کی فتح کی نوید کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہار کی صورت میں قوم جوتوں کے ہار سے ٹیم کا استقبال کرتی ہے۔ تحقیقاتی کمیشن بٹھائے جاتے ہیں جو بیٹھے ہی رہ جاتے ہیں۔

ڈاکٹرزکے مطابق انسان کو ہزاروں بیماریوں کے جینز تفویض کیے گئے ہیں جنہیں وہ پورے خلوص سے امانتاً محفوظ رکھتا ہے۔ بعض اوقات اپنے عادات و اطوار کے باعث ان میں اضافے کا موجب بھی بنتا ہے۔ بہت سی بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے۔ مگر تا حال انسانی فطرت، سرشت، خود غرضی، کمینگی، بے غیرتی، بے حیائی، نافرمانی اور کرپشن وغیرہ کی پیمائش، وجوہات اور علاج کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ مگر امید ہے کہ جلدہی ان بیماریوں کے ٹیسٹ بھی ہوا کریں گے اور ڈاکٹرز نسخے بھی تجویز کریں گے۔

مثلاً: طالبان اور داعش اور القاعدہ کے افراد کو ایسے انجکشن دیے جائیں کہ وہ اچھے انسان اور مسلمان بن سکیں یا پھر چور ڈاکوؤں اور منافع خوروں کے میڈیکل لیب ٹیسٹ میں ظلم اور بددیانتی کی مقداریں معلوم کر کے انہیں اصلاح کردار کی مختلف گولیاں کھلائی جائیں۔ کرپشن کا ٹیسٹ پازٹیو آنے پہ اینٹی کرپشن کیپسول تجویز کیے جائیں گے۔ اس سے قبل میڈیکل سائنس کو خلوص، ایمانداری، حب الوطنی قابلیت و اہلیت اور اخلاق و کردار کی Normal Values کا تعین بھی کرنا ہو گا۔

ہو سکتا ہے کسی سادہ لوح مریض میں ایمانداری و خلوص کے جرثومے مقررہ حد سے زیادہ نکلیں۔ اس صورت میں اعتدال قائم رکھنے کے لئے ڈاکٹرزکو بد دیانتی پر مبنی نسخے تجویز کرنا پڑیں گے تا کہ مریض بقیہ زندگی میانہ روی سے گزار سکے۔ ایلو پیتھی کے ساتھ ساتھ یونانی علاج بھی رو بہ ترقی ہوجائیں گے۔ تب دیانت اور حب الوطنی کے دعویدار سیاستدانوں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے حاذ ق حکماء کچھ ایسے نسخے تجویز کرتے دکھیں گے۔

معجون معتدلہ سیاہ حسب ضرورت و عادت
نایاب اجزائے ترکیبی

تخم خود غرضی، گل دغا بازی، برگ خیانت، ست تخم بدی، شربت خوشامد شیریں، عرق رشوت، روغن حق تلفی، خمیر ہ تنگ نظری، اطریفل گناہ کبیرہ، آب خشک جہالت، جوارش مکاری، جوہر تعصب۔ سب اجزا ء ہم وزن ملا کر استعمال کرنے سے تمام اہداف کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

خون کی کمی کے ٹیسٹوں کے مانند غیرت و حیا کی کمی کے ٹیسٹ بھی متوقع ہیں اور ثابت ہونے پہ شرم و حیا کی انسولین انجیکٹ کر نا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).