اپنا اپنا یزید


محرم ہر سال آتا ہے اور ہم میں سے کچھ یکم سے دس محرم تک اور کچھ صرف دس محرم کو ماتم یا سوگ منا کر پلٹ کر اپنے اپنے کاموں میں گم ہو جاتے ہیں کہ پھر آئندہ برس جب برسی آتی ہے تو پھر سیاہ لباس پہن کر ماتم کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت امام حسین ( رض) کی شہادت کا ماتم کرتے ہیں کہ وہ کربلا میں بے یارومددگار شہید کر دیے گئے۔ روتے ہیں سینہ کوبی کرتے ہیں زنجیر زنی کرتے ہیں اور آگ پر بھی چلتے ہیں خود کو جتنی تکلیف دے سکیں دیتے ہیں کہ حضرت جی کی تکلیف کو یاد کر سکیں مگر افسوس کہ آج تک سوائے سینہ کوبی کے ہم اور کچھ نہیں کر سکے۔

ان کی یاد مناتے ہیں ان کے درد کو یاد کر کے روتے ہیں چلاتے ہیں اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں مگر ان کی اس قربانی کے فلسفے کو نہ سمجھتے ہیں نہ کبھی اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور قربان جاؤں میں اپنے واعظین کے انہوں نے بھی صرف رلانے کا کورس کیا ہوا ہے کہ ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ سب سامعین زار و قطار رو پڑیں۔ اور وہ ہمیں رلا دیتے ہیں۔

حسینیت کیا ہے کبھی کسی نے اجاگر کرنے کا چارہ ہی نہیں کیا انہیں پتہ ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو مال سے جائیں گے۔ جو کھابے اور جو مال و زر ان کے سر اور قدموں پر نچھاور ہو رہا ہے پھر یہ کسی اور کام میں خرچ ہونے لگے گا انسان کے اندر خودی اور خود داری کا جذبہ پیدا ہو جائے گا اور وہ حریت و آزادی کا پروانہ بن جائے گا۔ حسینیت جاگے گی تو ہر مومن غلامی کی زنجیریں توڑ دے گا۔ جھوٹے ملاں کی غلامی، جھوٹے آقاؤں کی غلامی، جھوٹے نام نہاد لیڈروں کی غلامی اور سب سے بڑھ کر اپنے نفس کی غلامی۔

یہ آخری غلامی یعنی اپنے نفس کی غلامی ہی در اصل سب سے بڑی غلامی ہے اور پوری مسلمان قوم اس غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے۔ اگر سچ کہوں تو ہمارے حکمران، ہمارے ملاں اور ہمارے لیڈر چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہم اپنے نفس کی غلامی میں ہی خوش رہیں اپنے ارد گرد ہونے والے مظالم ہمیں نظر ہی نہ آئیں۔ پوری دنیا میں ہمارے مومن بھائیوں کے ساتھ جو مرضی ہو ہم خاموش رہیں۔ عیسائی یہودی جو کہ تاسیس ریاست مدینہ کے دن سے ہی سازشوں میں جتے ہیں کہ ہمارا شیرازہ ہی بکھیر دیا ہے۔

ایسا اسی لئے ممکن ہوا کہ انہوں نے ہمارے دلوں سے حسینیت ختم کر دی۔ وہ جذبہ جو امام عالی مقام نے میدان کربلا میں دکھایا اور ہمیں ایک عظیم فلسفہ کی شکل میں عملی طور پر عطا کیا یہ واعظ اس سے ہمیں اندھا بنانے میں اور اسے یکسر فراموش کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا ساتھ مذہب کے دکانداروں نے خوب دیا اور چند سکوں اور متاع دنیا کی خاطر پوری قوم کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ جو کام حضرت امام حسین ؑ نے کیا اس کی پیروی کرنے کی بجائے ہمیں اس کو بھلانے اور سرے سے فراموش کرنے کا ہنر سکھا دیا۔

حسینیت کی پیروی کی بجائے اور نوح و کناں میں لگا گئے۔ وہ جذبہ خودی اور جذبہ آزادی و حریت اپنانے کی بجائے ہم نے بہتر سمجھا کہ ایک دو دیگیں پکا کر بانٹ دیں۔ مقرر کی خوب خدمت کر دیں اور متولیان کو جھولیاں بھر کے مال و زر سے نواز دیں یہی ہماری سب سے بڑی نیکی ہے مگر دوستو یہی ہماری سب سے بڑی بھول ہے۔ یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے کہ ہم اصولوں پر جان دینے کی بجائے اصول ہی تبدیل کر دیتے ہیں۔ اپنے حق پر جان دینے کی بجائے ہم حق ہی چھوڑ دیتے ہیں یا حق کے معنی ہی بدل دیتے ہیں۔

حسینیت کا فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے اندر کے یزید کو قتل کر دیں جو غاصب ہے جو بے اصول ہے جو سہل ہو چکا ہے جو زیادتیاں کرتا ہے دوسروں کا حق کھاتا ہے اور انسانیت کے تمام اصولوں کا مخالف ہے اس کو مارنا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے اندر کا یزید اب تو کڑیل جوان بن چکا ہے۔ ہم نے اسے اتنا پالا ہے کہ وہ اب ہمیں ہی مات دے چکا ہے۔ ضرورت ہے تو اس کو مارنے کی نہ کہ امام عالی مقام سے محبت کا دکھاوا کر کے ایک دن یا دس دن سیاہ لباس پہننے اور سینے پر دو چار مکے اور تھپڑ مارنے کی۔ یہ مکے اور تھپڑ اپنے اندر کے یزید کو ماریں تو ہی ہم امام عالی مقام کے سچے پیرو کار بن سکتے ہیں۔ جس دن ہم اپنے حق پر جان دینے والے بنیں گے وہ دن حسینیت کی اصل جیت کا دن ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).