نچلے درجے کے ملازم کیا برابر لیبر رائٹس نہیں رکھتے؟ قسط نمبر چوبیس


ناول افسانے کی حقیقی لڑکی۔

بسمہ کافی تھک گئی تھی مگر منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے اور لیٹنے کے دوران مسلسل اس کا دماغ سوچوں سے گھرا رہا۔

بختاور نے اس کے لیے کہا کہ اس کی شخصیت مثبت زیادہ ہے۔ جبکہ اسے آج کل اپنا آپ بالکل منفی لگ رہا تھا۔ وہ اپنی شخصیت کے برعکس گھر والوں سے لڑتی جھگڑتی تھی۔ جو کما رہی تھی صرف خود پہ خرچ کر رہی تھی۔ گھر میں کوئی مسئلہ ہو کوئی بیمار ہو وہ بالکل بے حس بن جاتی تھی۔ اپنے طور پہ وہ انہیں احساس دلانا چاہ رہی تھی کہ انہوں نے اس کے ساتھ جو کیا غلط کیا۔ مگر آج وہ دوبارہ اپنے رویے کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ بڑے بھیا صرف اس کی وجہ سے الگ رہ رہے تھے۔

گھر کی ذمہ داریوں سے وہ ہمیشہ سے بھاگتے تھے کیونکہ انہیں ہمیشہ ہی بڑے ہونے کا طعنہ ملا۔ ان سے بچپن میں بھی ذمہ داری اور بردباری کی توقع رکھی جاتی تھی اور آہستہ آہستہ انہوں نے یہ آسان طریقہ سیکھ لیا کہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے۔ بسمہ کو فوراً خیال آیا یعنی بھیا نے بھی سسٹم کو اپنے فائدے کی حد تک استعمال کیا

پھر اسے خیال آیا کہ دادی کو دیکھا جائے، امی کو ، ابو کو ، اسد کو یا اسماء اور بشریٰ آپی کو سب نے یہی کیا۔ جب خود سے طاقتور کی بات آتی ہے تو وہ سب ظلم سہتے ہیں جب خود سے کوئی کمزور ملتا ہے تو اس کے لیے وہی رویہ اپناتے ہیں جو سہ چکے ہوتے ہیں۔ وہ بھی انجانے میں یہی کر رہی تھی۔ اب ابو ریٹائرڈ تھے امی کی تو ساری حیثیت ہی ابو کی وجہ سے تھی۔ جبکہ اب وہ اپنی ضرورتوں کے لیے کسی کی محتاج نہیں تھی تو وہ کوئی کام کرتے ہوئے کسی سے پوچھنا یا اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔

اب وہ امی اور دادی سے بدتمیزی کے حد تک بحث بھی کرتی تھی۔ بسمہ اندر تک کانپ گئی۔ اس نے سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ جو خود کو ابھی تک مظلوم اور کمزور سمجھ رہی تھی وہ خود بھی آہستہ آہستہ ظالموں کے طبقے کا حصہ بن رہی تھی۔ وہ اپنی ذرا سی طاقت کو خود سے کمزوروں پہ استعمال کر رہی تھی۔ یعنی وہ اگر مرد ہوتی تو یہی کرتی جو باسط نے کیا۔ یا جب وہ ساس بنے گی تو یہی سب کرے گی جو باقی ساسیں کرتی ہیں۔ یا شاید وہ بھی نازیہ بن جائے۔ بسمہ ایک دم اٹھ کے بیٹھ گئی۔ یہ خیال ہی اتنا پریشان کن تھا کہ لوگوں کے جس رویے سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوئی تھی انجانے میں وہ وہی سب کر رہے تھی اور شاید آگے بھی کرتی رہتی اگر آج بختاور سے یہ سب بات نہ ہوئی ہوتی۔

اسے کسی طرح چین نہیں آ رہا تھا۔ وہ تو ہمدرد اور فرمانبردار بیٹی ہے۔ وہ تو خود کو ایک اچھا انسان سمجھتی ہے کیا اسے یہ سب زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی نا انصافیوں کا بدلہ اب لے جب کہ وہ اس سے کمزور ہو گئے ہیں۔ کیا یہ اسے زیب دیتا ہے کہ بھائی کے نامناسب رویے کا بدلہ وہ بھابھی سے لے جس بچاری کا اس سب سے کوئی تعلق ہی نہیں؟

اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اٹھ کر کچن میں آ گئی۔ امی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ جب سے کمر اور جوڑوں میں درد شروع ہوا تھا وہ اب آہستہ آہستہ کام نپٹانے کی کوشش کرتی تھیں اسی لیے جلدی ہی کام شروع کر دیتیں۔ بس یہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے ان کا سارا ہی دن کام میں نکل جاتا تھا۔ بسمہ نے خاموشی سے دوسری چھری اٹھائی اور ساتھ سبزی کاٹنی شروع کردی۔ امی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی کیونکہ اتنا تھوڑا بہت کام تو وہ کروا ہی دیتی تھی جب موڈ ہوتا تھا۔ سبزی کٹ گئی تو بسمہ خود ہی پتیلی نکالنے لگی۔

”آپ جائیں میں پکا دیتی ہوں۔“ کہنے کو بہت چھوٹا سا عام سے جملہ تھا مگر اس جملے میں اس کی غلطی کا اعتراف پوشیدہ تھا۔ شاید اسی لیے اسے یہ کہنا بھی ایسے ہی مشکل لگا جیسے کسی بچے سے اپنی غلطی کے لیے سوری بولنا۔ چھوٹا سا لفظ ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے ہماری بہت بڑی سے انا کھڑی ہوتی ہے۔ امی کی نظروں میں حیرت جھلک مگر وہ خاموشی سے ہٹ گئیں۔ بسمہ نے سبزی بھی بنائی ساتھ ہی اسد کو کال کر کے چکن لانے کا بھی کہہ دیا۔ رات کے کھانے کے لیے اس نے کافی انتظام کر لیا۔ شام میں بھابھی اور بھائی نیچے آئے تو اس نے دونوں کو رات کے کھانے پہ روک لیا۔ یہ سب ہر کسی کے لیے ہی کچھ حیران کن تھا مگر سب اس کے بدلتے رویے دیکھتے رہتے تھے اس لیے اس تبدیلی کو بھی وقتی ہی سمجھ رہے تھے۔

اگلے دن بسمہ اپنے وقت پہ پہلے آفس اٹینڈنس لگا کر دارالامان پہنچی اور معمول کے مطابق کام بھی کیا۔ پورا ہی ہفتہ یونہی گزر گیا اور اس کی توقع کے برعکس اس کی ملاقات اسلم سے نہیں ہوئی۔ صبح کالج اور دوپہر میں جاب کی وجہ سے وہ سو فیصد کام تو نہیں کر سکتی تھی اس لیے اپنی موجودگی میں کوشش کرتی کہ صفائی کردے اور کھانا پکا دے۔ امی اس کے آ نے تک سبزیاں وغیرہ کاٹ لیتی تھیں۔ اپنے حساب سے وہ خود ہی پکانے کی تیاری کرتی تھیں مگر بسمہ آ کر کچھ کہے بغیر ہی کٹی سبزیاں چڑھا دیتی اور ساتھ ہی اگر برتن رکھے ہوتے تو دھو دیتی۔

روز ہی یا تو بھیا بھابھی کو کھانے پہ روک لیتی یا پھر سالن اوپر دے آتی۔ بسمہ گھر کے مسائل کو بھی مناسب طریقے سے مستقل حل کرنے کا سوچ رہی تھی۔ اگر گھر کے یہ حالات رہتے تو اس کی تنخواہ اور ابو کی پینشن میں اخراجات پورے نہیں ہوسکتے تھے۔ دوسری بات گھر کا ماحول یہی رہتا تو اسد کی جاب اور شادی کے بعد وہ بھی ذمہ داری سے بری الزمہ ہوجاتا کیونکہ وہ ابھی سے بہت لاپروا تھا۔ پھر جب بڑا بھائی اور اس کی بیوی کوئی ذمہ داری نہ نبھا رہے ہوں تو چھوٹا بھائی کیوں نبھاتا۔ اس نے بہت سوچ کے بھیا سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ ایک دن رات کا کھانا کھا کر اس نے بھیا سے کہہ دیا اسے کچھ اہم بات کرنی ہے۔ وہیں ہال میں امی اور ابو کو بھی روک لیا۔

”بھیا مجھے اندازہ ہے کہ گھر کا ماحول بہت کشیدہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ میرا ہے۔ مگر ایک بات جو آپ کو سوچنی چاہیے تھی اور آپ نے نہیں سوچی کہ میرے غلط رویے کا امی اور ابو سے کیا تعلق کہ آپ نے ان سے بھی ہر طریقے کا تعلق محدود کر لیا۔“

” ان کا تعلق کیسے نہیں ہے؟ تمہیں اتنا سر پہ چڑھانے کی غلطی انہی کی ہے۔ لڑکی ہو کر سارا دن باہر گھومتی ہو۔ کوئی کچھ بولے تو ٹکا سا جواب ہاتھ پہ رکھ دیتی ہو۔ اور یہ والدین ہو کر تمہیں ٹوکتے تک نہیں۔“

” اچھا تو مطلب اس وجہ سے آپ ان کی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے۔ آپ کی ساری اخلاقی ذمہ داریاں ختم؟ بھیا آپ بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو کچھ دن پہلے تک میں کر رہی تھی۔ مگر شاید آپ کی عادت اب پختہ ہو گئی ہو۔“

” کیسی عادت کون سی غلطی؟“

”اپنے رویے کا ذمہ دار امی ابو کو ٹھہرانا۔ آپ بھائی ہیں میرے، آپ کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ میں ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ اور مجھے بھی یاد ہے کہ آپ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ جب تک آپ اسکول میں تھے۔ مجھے لگتا تھا میرے بھیا جیسا بھائی کسی کا ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ مجھے گود میں لے کر گھمانے جاتے تھے۔ اپنا جیب خرچ ہم سب چھوٹے بہن بھائیوں پہ خرچ کردیتے تھے۔“

”اور اس کے باوجود یہ سننے کو ملتا تھا کہ میں غیر ذمہ دار ہوں مجھے بہن بھائیوں کی ماں باپ کی پرواہ نہیں یہ سوچے بغیر کہ میں خود ساتویں آٹھویں کا بچہ تھا۔“

بھیا بیچ میں بول پڑے ان کی مخاطب بسمہ تھی مگر نظریں امی اور ابو پہ تھیں۔ جن میں سالوں کی چھپی شکایتیں امنڈ رہی تھیں۔

”ٹھیک ہے مان لیا کہ ان کا رویہ آپ سے غلط تھا۔ مگر کب تک آپ اپنے رویے سے ان کے رویے کا بدلہ لیں گے؟ کب تک بھیا؟ آپ کو ہی سب سے زیادہ اہمیت بھی ملی۔ آپ کا کہا حرف آخر ہوتا تھا گھر میں۔ آپ کی موجودگی میں کوئی اونچی آواز میں بھی نہیں بولتا تھا۔“

” مجھے نہیں میری جاب کو میری تنخواہ کو اہمیت ملی تھی یہ۔ آج میں کچھ کمانا چھوڑ دوں کنگال ہو جاؤں کیا پتا یہ مجھے بیٹا ماننے سے ہی انکار کردیں۔“

امی ابو نے تڑپ کے نفی میں سر ہلایا۔ ان کے چہرے پہ واضح کرب کے آثار تھے۔

”یہ ٹھیک ہے کہ تمہاری جاب کے بعد تمہیں ہم نے زیادہ اہمیت دی مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تم پیسا کما کر ہمیں دیتے ہو بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں تم پہ اعتماد ہو گیا تھا کہ تم اتنے ذمہ دار ہو گئے ہو جتنا ہم تمہیں بنانا چاہتے تھے۔“

”ابو واقعی کیا بھیا صرف کمانے سے ذمہ دار ہو گئے تھے؟“
بسمہ نہ چاہتے ہوئے بھی سوال کر گئی۔ مگر اس کے جواب میں اسے امی ابو کی گہری خاموشی ملی۔

”بھیا آپ ہوں یا میں ہم نے اپنے حساب سے خود سے ہونے والی نا انصافیوں کا بدلہ لے لیا۔ آپ کو خود بھی اندازہ ہے جیسا گھر کا ماحول ہے ایسے میں کوئی کھل کے خوش نہیں ہو سکتا۔ گھر پہ ہر وقت تناؤ کی کیفیت رہتی ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم گھر کا ماحول مل کر بہتر بنا لیں۔ آپ کو زیادہ اعتراض میرے نامناسب رویے پہ ہے ناں۔ اس کی میں معذرت کرتی ہوں۔ مگر امی ابو کی کچھ ذمہ داری آپ کی بھی ہے۔“

” یہ کہو ناں کہ تم سے گھر کے خرچے نہیں سنبھل رہے۔“
” بھیا 15 ہزار میں آج کل کون سا گھر چلتا ہے؟“
”کیوں ابو کی پینشن بھی تو ہے۔“

”اگر پینشن ساری ابھی استعمال ہوتی رہے گی تو اگر کبھی بیماری وغیرہ میں ضرورت پڑی تو پیسے کہاں سے آئیں گے۔ آپ کا رویہ یہی رہا تو کیا ہم یہ امید لگا سکتے ہیں کہ آپ تب کوئی خرچہ کریں گے؟“

”کیوں نہیں کروں گا ماں باپ ہیں میرے“

”وہ تو ابھی بھی ہیں یا جب بیمار پڑیں گے صرف تب ماں باپ ہوں گے؟ اگر آپ بیٹے ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں تو ابھی دیں۔ جن نا انصافیوں کا بدلہ آپ لے رہے ہیں وہ آپ نے آج صاف الفاظ میں جتا دی ہیں۔ مزید اس کا بدلہ لینے کی کوئی منطقی وجہ نہیں بنتی جبکہ آپ یا یہ بلکہ ہم میں سے کوئی بھی کچھ بھی کر لے ہم اپنا ماضی نہیں بدل سکتے۔ صرف آنے والے وقت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔“

بھیا کے چہرے پہ گہری سوچ کے آثار تھے۔

” میں کل تمہیں فائنل بتاتا ہوں۔ میں اور فوزیہ آپس میں مشورہ کر لیں تاکہ دیکھ لیں کتنا بجٹ ہے اور اس میں سے کچھ نکل سکتا ہے یا نہیں۔“

”ٹھیک ہے آرام سے سوچیں اتنا عرصہ گزر گیا کچھ دن اور سہی۔“
بھیا اور بھابھی اٹھ کر چلے گئے تو امی فوراً بولیں

”تمہیں کیا ضرورت تھی اس سے یہ بات کرنے کی وہ گھر چھوڑ کے چلا گیا تو ؟ کم از کم شکل تو دیکھنے کو ملتی ہے روز اس کی۔“

”گھر میں تو اسماء آپی اور بشریٰ آپی بھی نہیں رہتیں امی۔ ان کی شکل بھی آپ کو ہفتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔“

”ان کی بات الگ ہے وہ بیٹیاں ہیں انہیں تو اپنے گھر کا ہونا ہی ہوتا ہے۔ بیٹا تو بڑھاپے کا سہارا ہوتا ہے۔“

”وہی تو بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ابھی تو نہیں ہیں وہ آپ کا سہارا۔ اور اگر گھر چھوڑ کے جاتے ہیں تو اچھی بات ہے اوپر والا پورشن اچھے خاصے کرائے میں جاسکتا ہے۔ ویسے بھی میرا ارادہ یہی ہے کہ اگر انہوں نے خرچے کے پیسے دینے پہ رضامندی نہیں دی تو ان کے سامنے یہی دو شرائط رکھوں گی کہ یا تو اوپر والے پورشن کا کرایہ دیں کیونکہ گھر ابو کی ملکیت ہے یا پھر گھر خالی کر دیں۔“

” پاگل ہو گئی ہو کیا۔ سگے بیٹے سے کوئی کرایہ لیتا ہے کیا؟“

”سگا بیٹا اپنی ذمہ داریوں سے ایسے بھاگتا ہے کیا؟ امی آپ سوچ لیں گھر آپ لوگوں کا ہے بیٹی ہونے کی حیثیت سے آپ نے پہلے ہی کبھی ہمیں اس گھر کو اپنا نہیں سمجھنے دیا۔ تو میرے لیے بالکل فرق نہیں پڑے گا کہ میں یہاں رہوں یا کہیں اور مگر بھیا کا یہی چلن رہا تو آپ لوگوں کو ضرور فرق پڑے گا۔ آپ تین بوڑھے ایک دوسرے کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے۔ ساتھ ہی یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اسد سے بھی آپ نے یہی رویہ رکھا ہے ابھی تک، اسے کسی ذمہ داری کا احساس نہیں دلایا گیا تھا اب جب سے ابو ریٹائر ہوئے ہیں تو آپ لوگوں کو فکر ہو گئی ہے کہ وہ بہت لاپروا ہے۔

اسے جب ذمہ داری سکھائی ہی نہیں تو خود بخود کیسے آئے گی۔ آپ لوگ ایک اولاد بلکہ میں خود کو بھی شامل کروں تو دو اولادوں کے رویے بھگت چکے ہیں اپنے نامناسب رویے کی وجہ سے۔ ابھی بھی وقت ہے کم از کم اسد کو سپورٹ کریں تاکہ وہ واقعی آپ لوگوں کا سہارا بن سکے۔ اسے وقت دیں تاکہ وہ اپنی غلط عادتوں پہ اور لاپرواہی پہ قابو پا سکے اس کے بعد اس پہ ذمہ داری ڈالیں۔ ”

”بیٹا تمہیں پتا ہے اب ہمارے پاس اس پہ اڑانے کے لیے پیسا ہے ہی نہیں۔ جب کہ وہ ہر ہفتے ہزاروں ایسے مانگتا ہے جیسے آسمان سے برس رہیں ہوں جتائیں نہیں تو اور کیا کریں؟“ اب کی بار ابو بولے ان کے لہجے میں شکستگی تھی

”ابو اسے یہ عادت بھی آپ لوگوں نے ہی ڈالی ہے۔ میٹرک کا اسٹوڈنٹ صرف دیکھنے میں بڑا لگتا ہے ذہنی طور پہ بچہ ہی ہوتا ہے اسے بڑوں کی سپورٹ چاہیے ہوتی ہے۔ نرمی سے آرام سے سمجھائیں۔ بلکہ آپ لوگ چاہیں تو میں سمجھاؤں مگر پلیز یہ انتہائی رویے ختم کریں کہ کسی کو اتنی ڈھیل دیں کہ وہ کچھ بھی غلط کرے تو اسے کچھ نہیں کہنا اور کسی پہ اتنی سختی کہ جو غلطی اس کی نا بھی ہو اس پہ بھی اسے ہی قصوروار ٹھہرایا جائے۔“

”اب یہ دن بھی دیکھنا ہی تھا کہ اولاد ہمیں سمجھائے گی کہ ہم غلط ہیں، کرو بھئی جو دل میں آئے کرو ماں باپ تو اب ناکارہ پرزہ ہیں ہماری کوئی کیوں سنے گا۔“ ابو جھنجھلا کے اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔

بسمہ ساری بات چیت سے کافی مایوس ہو گئی تھی مگر اگلے دن ایک خوش آئند بات یہ ہوئی کہ صبح آفس جاتے ہوئے بھیا نے اسے بتایا کہ اب نئے مہینے سے وہ باقاعدہ زیادہ پیسے گھر کے خرچ کے لیے دیا کریں گے۔ بسمہ نے شکر ادا کیا کہ مزید کسی بدمزگی سے پہلے ہی معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیا۔ اب دوسرا ٹاسک تھا اسد سے بات کر کے اسے سمجھانا اور اسے ذمہ داری کا احساس دلانا۔

انہی سوچوں میں مگن وہ انسٹیٹیوٹ بھی ہو کر آ گئی اور دارالامان جانے کے لیے وین میں بیٹھی تو بھی اس کے دماغ میں یہی سب چل رہا تھا۔ باقی چاروں ٹیچرز معمول کے مطابق ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سب کو اس کی خاموشی محسوس ہو گئی۔

” تم کیوں آج سہیل بھائی سے خاموشی میں مقابلہ کر رہی ہو۔ شرط باندھی ہے کوئی تو ہمیں بھی بتاؤ جو جیتے گا ہمیں ٹریٹ کھلائے گا۔“

”ارے یار یہ تم لوگ ہر بات میں اس بچارے کو کیوں گھسیٹ لیتی ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر مذاق میں اسے بھی شامل کیا جائے۔ اور تمہیں پتا ہے کہ مجھے بالکل پسند نہیں کہ کسی بھی مرد کے ساتھ میرا تذکرہ کیا جائے“ بسمہ کو ویسے ہی ان کا سہیل کا ہر بات میں مذاق اڑانا اچھا نہیں لگتا تھا ایک تو اسے آپس کی باتوں میں بلا وجہ مردوں کو زیر بحث لانا بہت برا لگتا تھا وہ بھی کسی ایسے مرد کو جو خود سن بھی رہا ہو۔

”یہ مرد کہاں ہے یہ تو ڈرائیور ہے۔ ویسے بھی مرد تو ایسا ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہی طاقت اور مضبوطی کا احساس ہو۔ ڈر لگے۔ جس کے لہجے میں غصہ ہو غرور ہو۔“ ایک ٹیچر اپنا آئیڈیل مرد بتانے لگی

”محترمہ آپ جسے مرد کی خصوصیات کہہ رہی ہیں وہ اچھا مرد نہیں ظالم مرد ہوتا ہے۔ جو عورت کی عزت نا کرسکے ایسے مرد کی مردانگی کا کیا فائدہ۔ سہیل تم لوگوں سے عزت سے بات کرتا ہے تو تم لوگ اس کی بے عزتی کرتی ہو اور خواب ہیں ایسے مرد کے جو تم پہ غصہ کرے اور غرور جھاڑے۔“

”ہاں تو اس کا کام ہے، عزت سے بات نہیں کرے گا تو ہم نکلوا دیں گے اسے۔ اس کی اوقات ہے کہ ہم سے غصے سے بات کرسکے۔ ڈرائیور ہے وہ۔ اپنی اوقات میں رہے تو بہتر ہے۔ ایسے لوگوں کو ذرا عزت دے دو تو سر پہ چڑھ جاتے ہیں۔“ ایک اور ٹیچر بولی

”مس آپ کی باقی باتیں درست ہیں میں ڈرائیور ہوں میری کوئی اوقات نہیں مگر آپ مجھے نوکری سے نہیں نکلوا سکتیں۔“ پہلی بار سہیل نے ان کی بات کاٹ کر اپنے حق میں کچھ بولا تھا۔ آواز دھیمی ہی تھی اور لہجہ بھی مؤدب۔

”یہ تو ابھی پتا چل جائے گا۔ چلو ذرا آفس میڈم بختاور کو بتاتی ہوں تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی۔ میرے بھائی میڈم بختاور کے بھائی کے دوست ہیں۔ دیکھنا کیسے بات مانتی ہیں میری وہ۔“ وہ ٹیچر تلملا گئی

آفس پہنچتے ہی وہ ٹیچر سب سے پہلے نکل کر بختاور کے آفس میں گھس گئی۔ سب سے آخر میں بسمہ اتری۔

”سہیل آپ نے اچھا کیا انہیں جواب دے کر ۔ میڈم بختاور سے بھی میں نے یہی سیکھا ہے آپ جب تک چپ رہیں گے یہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتی رہیں گی۔ آپ نے پہلے ہی شکایت کر دی ہوتی تو پہلے ہی سدھر گئی ہوتیں یہ۔“

”مس پہلے کبھی کسی نے میری حمایت ہی نہیں کی کہ مجھے ہمت ہوتی۔“ سہیل اپنے مخصوص جھجکے ہوئے لہجے میں بولا اور وین لاک کر کے گارڈ کے روم میں چلا گیا۔ بسمہ اندر گئی تو بختاور کے آفس سے اس ٹیچر کے زور زور سے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بختاور نے سب ٹیچرز کو اندر بلا لیا۔

بختاور نے سب کو مخاطب کر کے کہا

” عفت کا کہنا ہے کہ سہیل نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے۔ سہیل ہمارے ساتھ پانچ سال سے ہے اسے ہم آپ سب سے زیادہ اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر شکایت پہ مکمل کارروائی ضروری ہے تاکہ اگر واقعی سہیل کی غلطی ہے تو اسے وارننگ دی جاسکے“

” میڈم صرف وارننگ نہیں اسے ابھی اور اسی وقت نکالیں ورنہ میں یہ جاب چھوڑ دوں گی۔“
” عفت پہلی غلطی کی سزا پہ ایکسپلینیشن اور وارننگ ہی نکلتی ہے یہ ادارے کی پالیسی ہے۔“

”میڈم یہ ڈرائیور ہے یہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے کون سی پالیسی؟“
”ڈرائیور ہو یا ٹیچر ایمپلائی ہے تو پالیسی بھی ایک ہی ہوگی۔ خیر آپ لوگ بتائیں کہ ہوا کیا تھا۔“
”میڈم ہم آپس میں مذاق کر رہے تھے اس میں سہیل کا تذکرہ آ گیا تو اس نے ہم سے بد تمیزی شروع کردی۔“
بسمہ دوسری ٹیچر کی غلط بیانی پہ حیران رہ گئی۔ باقی تینوں بھی ہاں میں سر ہلانے لگیں۔
” آپ کے آپس کے مذاق میں سہیل کا ذکر کیسے آ گیا ایک دم؟“

” میڈم یہ لوگ فضول میں میرا اور سہیل کا نام ساتھ لے رہی تھیں میں نے منع کیا تو سہیل کا مذاق اڑانے لگیں جیسا یہ لوگ عموماً کرتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ اگر یہ ہم سے بدتمیزی کرے گا تو اسے نکلوا دیں گے جس پہ سہیل نے کہا کہ یہ لوگ اسے نہیں نکلوا سکتے۔“

کسی اور کے بولنے سے پہلے بسمہ بول پڑی اسے لگا اگر وہ نہیں بولے گی تو معاملے کو اور غلط توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے گا۔

”عموماً کرتی ہیں؟“
بختاور نے حیرت سے کہا

”میڈم ہم تو سہیل بھائی کو بھائی سمجھ کر ہلکا پھلکا مذاق کرتے ہیں۔ مس بسمہ کی سوچ پتا نہیں کیسی ہے انہیں لگتا ہے ہم ان سے فری ہو رہے ہیں۔ ویسے یہ مرد ہے مرد ہے کہہ کر ہمیں ان کا تذکرہ کرنے پہ ٹوکتی ہیں اور آج انہی کی سائیڈ لے رہی ہیں۔“

”بھائیوں کا مذاق اڑانے کی اجازت کون سے قانون میں ہے؟ اور اگر آپ سہیل کو بھائی سمجھتی ہیں تو یہ کہنا عجیب نہیں ہے کہ ڈرائیور ہو کر اس نے ہم سے بدتمیزی کی؟ آپ لوگ ڈسائیڈ کر لیں کہ آپ اسے بھائی سمجھتی ہیں یا ڈرائیور۔ بھائی کے رشتے سے مذاق کرتی ہیں تو اس کی بات بھی برداشت کرنی چاہیے اور پروفیشنل لمٹ رکھنی ہیں تو پہلے آپ کو خود ان لمٹ کی پابندی کرنی ہوگی۔“

بختاور نے بے لچک لہجے میں ان سب کو تنبیہ کی۔
”میڈم آپ اگر اسے نہیں نکالیں گی تو میں اپنے بھائی سے بات کروں گی“

”بیٹا آپ اپنے بھائی سے بات کریں میرے بھائی سے یا کسی بھائی لوگ سے، پالیسی پالیسی ہے غلطی آپ لوگوں کی ہے وارننگ بھی آپ لوگوں کے لیے نکلے گی۔ جسے جاب کرنی ہے کرے نہیں کرنی کسی پہ کوئی زبردستی نہیں ہے۔ مگر اخلاقیات کی پاسداری ضروری ہے۔ یہاں پہ کوئی کسی عہدے کی وجہ سے بڑا یا کم تر نہیں ہے ہم سب معاشرے کی بہتری کے مقصد پہ کام کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم کا ہر فرد اہم بھی ہے اور محترم بھی۔“ بختاور نے بیل بجا کر پیون کو بلایا

”چاچا! سہیل کو کہیے انہیں دارالامان چھوڑ آئے اور جو نہ جانا چاہیں انہیں گھر ڈراپ کردیں۔“

کچھ دیر بعد وہ پانچوں خاموشی سی دارالامان جا رہی تھیں۔ بسمہ کو دلی خوشی تھی کہ اب کم از کم سہیل ان سب کے روز کے مذاق سے بچ گیا۔ بسمہ کو جب سے اس کی کہانی پتا چلی تھی اسے سہیل سے ہمدردی ہو گئی تھی۔ پہلے وہ اس کے اتنا گھبرائے رہنے پہ چڑتی تھی مگر اب اسے اس کا رویہ منطقی لگتا تھا اتنا سب کچھ سہ لینے کے بعد اگر وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اپنا خرچ خود اٹھا رہا تھا تو یہی بہت بہادری تھی۔ اس کا پتا نہیں کیوں دل چاہنے لگا کہ وہ اعتماد بڑھانے میں سہیل کی مدد کرے۔

******۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےکیا آپ نے شادی کے وقت بیٹی کو اس کے قانونی حقوق بتائے تھے؟فقیرنیاں بڑا اچھا ڈرامہ کرتی ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima