سوال کرنا بغاوت نہیں ہے!


چئیرمین سی پیک اتھارٹی اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ صاحب کے متعلق صحافی احمد نورانی نے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر ایک سٹوری ریلیز کی ہے جس میں مبینہ طور پر عاصم سلیم باجوہ صاحب کے خاندان کے نام 99 کمپنیاں اور ایک معروف پیزا برانڈ پاپا جانز کی 133 فرنچائزز، 13 کمرشل سینٹرز اور 2 گھر شامل ہیں۔ مبینہ اسی لئے لکھا ہے کیونکہ ابھی عاصم سلیم باجوہ نے اس سٹوری کی تردید تو ٹویٹ کے ذریعے کردی مگر شاید اب وہ اس بارے میں ایک تفصیلی پریس کانفرنس کر سکتے ہیں آئندہ چند روز میں۔

یہ سٹوری بہت بڑی سٹوری ہے۔ اس میں ثبوتوں کے ساتھ یہ سٹوری چھاپی گئی ہے۔ محترم عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ تمام کمپنیز میں شراکت دار ہیں اور یہ 99 کمپنیاں پاکستان، امریکہ، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ اور مبینہ طور پر پیزا آؤٹ لیٹز اور کمپنیز اور پراپرٹیز جو امریکہ اور دیگر ممالک میں ہیں ان کی مالیت 1119 کروڑ یعنی 11.19 ارب روپے بنتے ہیں۔ پاکستان میں جو مائننگ کمپنی اور جو ٹیلی کام کمپنی ہے اس کی مالیت ابھی نہیں بتائی گئی۔

اس خبر کے بعد جب سوشل میڈیا پر عاصم سلیم باجوہ سے ان کے ٹویٹر اکاونٹ پر لوگوں نے جب اس بارے میں سوال کیا اور منی ٹریل کا تقاضا کیا تو باجوہ صاحب نے تو ٹویٹ نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کے حق میں کافی افراد نے ٹرینڈز چلائے مگر اس بات پر دکھ ہوا جب جویریہ ارشد نے جنرل صاحب سے سوال کرنے کو بغاوت قرار دے دیا۔

ہمارے ملک میں ایک المیہ ہے کہ آپ صرف سیاستدان سے ہی سوال کر سکتے ہیں۔ آپ اس کی کردار کشی کر سکتے ہیں مگر آپ کسی اور سے سوال نہیں کر سکتے۔ اگر آپ دین کے متعلق سوال پوچھ لیں تو آپ کو کافر قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ عدالت سے سوال پوچھیں تو توہین عدالت کا مقدمہ چل جاتا ہے اور جنرل سے سوال کرنے سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ یہ کیا مذاق ہے؟ ایک ٹی وی چینل اور کافی افراد نے اسے بھارتی پراپiگنڈہ قرار دیا۔ وہ الگ بات ہے یہ خبر ہی نہیں چلائی کہ آپ نے احمد نورانی کو جو القابات سے نوازا ہے وہ خبر کیا تھی۔

بغاوت ایک بہت بڑا جرم ہے۔ مگر ایک فرد واحد ریاست کب سے ہو گیا؟ کہا گیا سی پیک پر حملہ ہو گیا۔ سی پیک 2015 میں مسلم لیگ ن کی حکومت لائی۔ اس سے پہلے 2013 میں پیپلز پارٹی نے گوادر پورٹ کی آپریشنز کی ذمہ داری چینی کمپنی کے حوالے کی۔ جو سی پیک کو لائے وزیر اعظم نواز شریف ان کو اقامہ پر وزارت عظمی سے فارغ کر دیا گیا مگر سی پیک چلتا رہا۔ احسن اقبال صاحب جو وزیر منصوبہ بندی تھے ان کو نیب نے گرفتار کیا۔ سی پیک کے خلاف سازش نہیں ہوئی مگر عاصم سلیم باجوہ صاحب تو نومبر 2019 میں سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین کا عہدہ سنبھلا تو سی پیک خطرے میں پڑ گیا اور ملکی سلامتی بھی۔ جن لوگوں نے سوال پوچھے انہیں ففتھ جنریشن وارفئیر کے مجاہدوں نے نہایت غلیظ گالیاں بکیں۔

اس ملک میں ایک آئین ہے۔ بڑی بات احتساب کی جاتی ہے۔ فوج بطور ادارہ بھی بہت دفعہ کہہ چکی ہے کہ ہم ملک میں احتساب کے حامی ہیں تو پھر قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے۔ سیاستدان بھی قوم کو جوابدہ ہے، ایک منصف بھی، ایک سرکاری اہلکار بھی، ایک صحافی بھی اور ایک جنرل بھی۔ مگر یہاں دہرا معیار ہے۔ بغاوت وہ تھی جو ایوب خان نے فیروز خان نون کی حکومت کے خلاف 7 اکتوبر 1958 کو کی۔ بغاوت وہ تھی جو یحیی خان نے 25 مارچ 1969 کو کی۔

بغاوت وہ تھی جو 5 جولائی 1977 کو کی اور بغاوت وہ تھی جو 12 اکتوبر 1999 کو اور 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے کی۔ جب اسی بغاوت کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس چلا اور 17 دسمبر 2019 کو جب خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا تو ان ججز کو غدار، را کے ایجنٹ قرار دیا گیا۔ تب ادارے کا مورال بھی ڈاؤن ہو جاتا ہے اور پھر وہ انسانیت اور شریعت کے خلاف فیصلہ کہا جاتا ہے۔ اور پھر مورال اپ اس وقت ہو جاتا ہے جب لاہور ہائی کورٹ اس عدالت کو ہی غیر آئینی قرار دے دیتا ہے جس نے سزائے موت کا حکم دیا۔

اس وقت عاصم سلیم باجوہ کو نا ہی سی پیک کے پیچھے چھپنا چاہیے اور نا ہی اپنے سابقہ عہدے اور ادارے کے پیچھے چھپنا چاہیے۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے اور ہر اہم عہدے پر تعینات شخص عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ آپ سے عوام صرف یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ کی بیوی اور بیٹوں نے کمپنیاں کیسے کھولیں اور ان کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا اور کن ذرائع سے آیا۔

ایک فرد واحد سے سوال کرنا بغاوت نہیں ہو سکتا۔ ہمارے دین میں حاکم وقت سے سوال کیا گیا۔ حضرت عمر والا واقعہ ہم سب کو معلوم ہے۔ اس وقت انہوں نے صحابی کو جواب دیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ یہ بازنطینی سلطنت اور سلطنت فارس کی میرے خلاف سازش ہے۔ ادھر بڑی اخلاقیات اور دین کی بات کی جاتی ہے۔ ادھر آپ اعلی اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کریں اور سوالات کے جواب دیں اور اپنے آپ کو قانون کے سامنے پیش کریں۔

آپ کو لگتا ہے کہ صحافی کی سٹوری غلط یا آپ کی کردار کشی ہے تو آپ اس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کروا دیں۔ آپ صرف ایک ٹویٹ کر کے عوامی سوالات سے نہیں بچ سکتے۔

اس ملک میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ بھی منی ٹریل دے رہی ہیں۔ وہ سب ذی شعور لوگ جانتتے ہیں وہ کیوں ہو رہا ہے مگر چلیں آج تک کسی نے عبد الوحید ڈوگر صحافی کا نام دیا جس نے اے آر یو کو قاضی صاحب کی اہلیہ کی جائیدادوں کا بتایا؟ اس سورس اور اس معلومات کی کتنی ساکھ ہے؟ مگر بالکل ایک شخص واحد سے تو عدلیہ کا وقار تو مجروح نہیں ہوا اور نا ہی ان کا مورال ڈاؤن ہو گیا۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کیس میں تب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف بھی کیمپین چلائی گئی تھی۔

اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کے بچے بھی باہر سے پڑھے۔ انہوں نے کن ذرائع سے کمپنیز بنائی اور امریکہ میں دو گھر خریدے؟ مائننگ کمپنی کیسے کھلی؟ اور یہ سارا کچھ ان کے بھائیوں کا 2002 سے ہی کیوں شروع ہوا؟ اس سے پہلے کیوں نہیں؟ پیزا ڈلیوری بوائے 75 فرینچائزز کیسے بنا سکتا ہے؟ باہر پڑھنے والے بچوں نے کمپنیز کیسے بنالیں؟ ان سے بھی سوال پوچھے جائیں جیسے حسن و حسین نواز سے پوچھے گئے اور جیسے بلاول بھٹو زرداری سے پوچھے گئے۔

یہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ احتساب کے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ انہیں اس کا عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ کرپشن اس ملک کے لئے ناسور ہے۔ وہ ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ جس پر الزام لگے اسے مستعفی ہونا چاہیے ورنہ وہ ریکارڈ ٹیمپرنگ کروا سکتا ہے۔ کیا وزیر اعظم نے ان سے استعفی طلب کیا ہے؟ کیا ان کے خلاف جی آئی ٹی بنائیں گے!

اس خبر نے میڈیا کو بری طرح ایکسپوز کیا۔ مین سٹریم میڈیا 3 دن خاموش رہا۔ شبلی فراز کے بیان کے بعد اب ذکر ہو رہا ہے۔ بڑی جماعتوں کے سیاستدان بھی خاموش رہے۔ آج مریم نواز شریف نے اس بارے میں بات کی۔ اب یہ زبان زد عام ہو رہا ہے مسئلہ۔ اور باجوہ صاحب اب زیادہ دیر کسی چیز کے پیچھے نہیں چھپ سکیں گے۔ انہیں یا تو صحافی کے خلاف مقدمہ درج کروانا ہوگا یا ہتک عزت کا دعوی دائر کرنا ہوگا یا پھر اپنے خاندان کا دفاع کرنا پڑے گا۔

باجوہ صاحب کی خدمات کی ہم قدر کرتے ہیں مگر واقعی اس دور میں بہاولپور اور رحیم یار خان میں دس دس روپے فی مرلہ زمین ملتی ہے؟ 30 لاکھ کی ٹویوٹا زیڈ ایکس ملتی ہے؟ ابھی تو جنرل صاحب نے اپنے اس بیان حلفی کا بھی جواب دینا ہے جو انہوں نے اپنے اثاثوں کی فہرست کابینہ میں جمع کروائی۔ اس بیان حلفی میں انہوں نے اہلیہ کے بیرون ملک سرمایہ کا ذکر نہیں کیا اور اگر وہ اہلیہ کے نام اثاثے ثابت ہو گئے تو غلط بیانی پر الگ قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

سوال کرنا جرم نہیں ہے۔ سوال کرنے سے کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ قانون کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے۔ عدالتوں اور عدالتی نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ ریاستی امور بہتر ہو سکتے ہیں۔ اور رہی بغاوت کی بات تو اس ملک میں جو آئین کی، قانون کی اور جمہوریت کی بات کرتا ہے اسے باغی اور غدار اور ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے اور دیا جاتا ہے۔

سیدھی بات یہ ہے فرد واحد ریاست نہیں ہوتا اور نا ہی اس سے سوال کرنا بغاوت۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ بیرونی ممالک کی سازش ہے تو قوم کے سامنے ثبوت رکھیں اس سازش کی۔ تا کہ عوام کو بھی حقائق پتا چل سکیں۔ اور اب شاید باجوہ صاحب کو بھی احساس ہوا ہوگا کہ سیاست میں آ کر عوامی سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔ میرے خیال سے اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کو جواب دینا پڑے گا ورنہ ان کی خاموشی بھی ان کی اخلاقی پوزیشن کو کمزور کر دے گی۔ اور یہ جو بھی ہو رہا ہے یہ ایک ہی صورت ممکن ہے کہ وہ منی ٹریل عوام کے سامنے پیش کریں۔

باجوہ صاحب تو حکومت کی پوزیشن مستحکم کرنے آئے تھے مگر معاون خصوصی کے عہدے نے ان کی پوزیشن کمزور کردی اور اب حکومت کو ان کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ تو یہ اب وہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے یہ معاون خصوصی والا عہدہ کیوں لیا؟  اس ملک میں کسی فرد اور کسی ادارے کو اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالاتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس ملک کے 73 سال میں ہم بہت بڑی غلطیاں کر چکے ہیں تو اب اس ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے کہ سب کے لئے قانون برابر ہو اور آئین کے تحت اس ملک کو چلایا جائے۔ اسی میں ملک کا مفاد ہے، عوام کا مفاد ہے، اداروں کا ۔۔۔مفاد ہے اور ریاست کا مفاد ہے! اور سوال کرنا بغاوت نہیں ہوتا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).