انصاف نہیں کیا جائے گا تو عرش الٰہی تو لرزے گا


جب سے موجودہ حکومت کی داغ بیل پڑی ہے اس وقت سے پورے ملک میں توڑا پھوڑی کے علاوہ کوئی ایک کام، کام کا دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توڑی جانے والی عمارتیں ایسی زمینوں پر تعمیر کی گئیں تھیں جس کو ناجائز یا قبضہ کی ہوئی جگہ کہا جاتا ہے۔ مزید توڑی جانے والی عمارتیں بھی یقیناً وہی ہیں جو ایسی زمینوں پر تعمیر ہیں جو قبضہ کی ہوئی جگہیں ہیں اور خصوصاً وہ عمارتیں جو قدرتی طور پر برساتی پانی کے بہاؤ کے راستوں پر بنائی گئی ہیں وہ تو ہیں ہی اس قابل کہ ان کو توڑ دیا جانا چاہیے تاکہ برساتی پانی کو قدرتی طور پر گزرنے کا راستہ مل سکے۔

ہر وہ عمارت جو غیر قانونی طور پر، خواہ سیاسی بنیاد پر بنائی جائے یا بر بنائے سیاسی انتقام، اس کو توڑ ہی دنیا نہ صرف امن و امان کے لئے ضروری ہے بلکہ بیشمار انتظامی امور بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بغیر کسی منصوبہ بندی، کوئی بھی بستی آباد نہیں ہونی چاہیے۔

قارئین سیاسی بنیاد پر بسائی جانے والی بستیوں کے متعلق تو خوب آگاہی رکھتے ہیں لیکن سیاسی ”انتقام“ کی بنیاد پر تعمیر کی جانے والی بات شاید ان کی سمجھ سے بالا تر ہو جائے تو میں عرض کروں کہ کراچی پورے پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جہاں ایوب خان کے زمانے سے ہر وارد ہونے والے فرد یا خاندان کو یہ کھلی اجازت حاصل رہی ہے کہ وہ جہاں چاہے نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ گھر تعمیر کرکے اپنی نسل کو جتنا چاہے پروان چڑھا سکتا ہے۔ چنانچہ کارخانے بنے تو ان کی دیواروں کے ساتھ دیوار جوڑی جا سکتی تھی، ریلوے لائن کے اطراف جی کھول کر بستیاں بسائی جا سکتی تھیں اور نالے تو ہر آنے والے کے لئے اس طرح کھول کر رکھ دیے گئے تھے جیسے سارے مجنوں اپنی اپنی لیلا ؤں کے لئے دلوں کے سارے دروازے و کھڑکیاں کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔

کسی بھی شہر میں سب سے خوبصورت جگہ اس کے پہاڑی علاقے اور سب سے زیادہ گندے علاقے اس کے نالے ہوا کرتے ہیں۔ کراچی بھی سطح مرتفع بلوچستان میں شامل ہونے کی وجہ سے جہاں بڑے بڑے ہموار میدانی علاقوں پر مشتمل نظر آتا ہے وہیں اس کے اطراف میں اونچی نیچی پہاڑیوں کے سلسلے بھی ہیں لیکن کراچی کی کوئی پہاڑی بھی بے ہنگم اور بے ڈھب ناجائز بستیوں سی خالی نہیں۔ ان سب آبادیوں میں ہر وہ کمیونٹی آباد ہے جو پاکستان کے دیگر صوبوں سے بسلسلہ روزگار یہاں منتقل ہوتی رہی ہے۔ یہی حال نالوں پر تعمیر کی گئی بستیوں کا ہے اور وہاں بھی 90 فیصد سے کہیں زیادہ بستیاں ایسے ہی افراد کی آبادی پر مشتمل ہیں جو کراچی سے باہر کے شہروں سے آکر اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے آباد ہو تے رہے ہیں۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان معاملات میں سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل رہا ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکاتا کیونکہ ایسا سب سے پہلے ایوب خان کے زمانے میں کیا گیا۔ اس میں بہر حال ایک انتقامانہ سوچ کا عمل دخل شامل تھا۔ ایسی سوچ کو بھٹو دور میں مزید آگے بڑھایا گیا اور اندرون سندھ کی آبادی کو یہاں لانے کی کوشش میں کراچی کے اطراف میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی اور ان آبادیوں کو لیز بھی دیدی گئی۔

جب کسی گھر یا بازار کو جس کا جہاں جی چاہے وہاں بسا سکتا ہو، اسے بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتیں بھی مل سکتی ہوں، اس کی گلیاں اور گزرگاہیں سرکاری سطح پر پختہ بھی کی جاتی ہوں، پتے بھی الاٹ ہو جاتے ہوں تو کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو لاکھوں روپے مالیت کی زمین خرید کر اس میں رہائش اختیار کرے گا چانچہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔

ایک طویل عرصے بعد ان بسی بسائی بستیوں اور جمے جمائے کار و باری مراکز کو مسمار کیا جا رہا ہے تو کیا صرف برسوں سے رہائش پذیر خاندانوں اور کروڑوں روپوں کا کاروبار کرنے والوں کو راتوں رات اجاڑ دینا انصاف کہلائے گا؟ کیا یہ سسکیاں اور آہیں مزید آفتوں کو دعوت نہیں دیں گی، کیا نوے نوے سالوں کے ریکارڈ ٹوٹتے اور بنتے نہیں رہیں گے، کیا دریاؤں کے پل اور پشتے نہیں ٹوٹیں گے، کیا زلزلے برپا نہیں ہوں گے اور کیا سمندر کبھی جوش میں نہیں آئے گا؟

یہ تعمیرات جو کراچی میں چیچک کے دانوں کی طرح چاروں جانب پھیلی ہوئی ہیں اس میں صرف بستیوں میں رہنے والے اور بازاروں میں کاروبار کرنے والے قصوروار ہیں؟ کیا سیاسی جماعتیں، مقتدر ادارے اور محکموں کا ان میں کوئی عمل دخل نہیں ہے؟ انصاف کا تقاضا ہے کہ سب کو ایک ساتھ سزا ملے اور ایوبی دور سے اب تک جو جو محکمہ، ادارہ، سیاسی پارٹیاں اور اور ان کے رہبران اس جرم میں شامل رہے ہیں، ان سب کے خلاف ایک ساتھ کارروائی ہونی چاہیے ورنہ پھر غیر معمولی بارشوں، دریاؤں کے پشتے ٹوٹنے، آندھیوں، طوفانوں، زلزلوں اور سمندر کے بپھرجانے جیسی آفتوں کے لئے تیار رہنا چاہیے اس لئے کہ مظلوموں کی آہیں اٹھتی تو فرش سے ہیں لیکن عرش ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نالوں کی تنگی نے بستیوں کو بہت نقصان پہنچایا ہوگا لیکن عقل والے اس بات سے بھی عبرت پکڑیں کہ نیا ناظم آباد اور ڈیفنس جیسے علاقوں کے نہ تو نالے کچروں سے بھرے ہوئے تھے اور نہ ہی ان پر کسی بھی قسم کی ناجائز تعمیرات کی گئیں تھیں۔ وہ علاقے جہاں کے نالے تنگ کر دیے تھے ان سب میں آج کہیں بھی پانی نہیں رکا ہوا لیکن جہاں نالے پہلے کی طرح کشادہ اور علاقے کچرے سے پاک ہیں وہاں پانی اور پورے کراچی کی گندگی کی موجودگی اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ظلم ظلم ہوتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو زمین پانی چوسنے سے انکار ہی نہیں پانی کو اگلنا بھی شروع کر سکتی ہے۔ لہٰذا حکام بالا توڑ پھوڑ ضرور کریں لیکن پہلے ان سب محکموں، اداروں، سیاسی پارٹیوں، ان کے سربراہوں اور تمام مقتدر اداروں کے سر توڑیں جو ناجائز آباد کاری کے سنگین جرم میں پوری طرح ملوث رہے ہیں ورنہ اٹھا یا جانے والا ہر قدم فرعونی تو کہلایا جا سکتا ہے موسوی کسی بھی صورت نہیں کہلایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).