نالج اکانومی اور پاکستان



نالج اکانومی (علمی معیشت) جدید دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سنگاپور رقبے کے لحاظ سے کراچی شہر سے بھی قدرے چھوٹا اور آبادی کے لحاظ سے چھٹے حصے کے برابر ملک ہے۔ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق سنگاپور کی آبادی 5850342 افراد ہے۔ سنگاپور نا تو خلیجی ممالک کی طرح تیل اور گیس جیسے قدرتی ذخائر کا مالک اور نا ہی برونائی دارلاسلام کی طرح سونے کی کانوں کے ذخائر والا ملک ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان ممالک سے کہیں زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے، وجہ صرف نالج اکانومی (علمی معیشت) پہ انحصار ہے۔

سنگاپور کی سالانہ برآمدات کا حجم 870 ارب ڈالر ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان جیسے دنیا کے چھٹے بڑے ملک کے لئے 70 ارب ڈالر کی برآمدات کا حصول بھی دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے۔ پاکستان آئی ٹی فری لانس کے شعبے میں 835 ملن ڈالرز سالانہ ریونیو کے ساتھ تیسرا بڑا ملک ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے پاکستان سالانہ 2.8 ارب ڈالرز زرمبادلہ کما رہا ہے لیکن پاکستان آئی ٹی کے شعبے کی تھوڑی سی حکومتی سرپرستی اپنی آئی ٹی ایکسپورٹس کو 28 ارب ڈالرز تک لے جاسکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ وطن عزیز میں شوگر، آٹا الغرض ہر طرف بیٹھے مافیاز ایزی منی ”Easy Money“ دو نمبری سے پیسہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

آج سے پانچ برس قبل شام کے وقت ایک نجی ٹی وی پر میں حالات حاضرہ کا پروگرام دیکھ رہا تھا تو سوات کے شاہ فیصل کی کہانی سننے کو ملی۔ جہاں مزدور ابن مزدور کی ایف ایس سی میں نمایاں کامیابی اور یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں داخلے کی خبر سن کر دل کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہیں اس خبر کے دوسرے حصے نے شرمندگی کی دلدل میں اتار دیا۔

میں یہ سوچتا رہا اور اپنے آپ سے بار بار ایک ہی سوال کرتا رہا کہ آخر کب تک وطن عزیز کا مستقبل ان میڈیا ہاؤسز اور سر شام سرخی پاوڈر لگا کر سیاپا کرنے والے دانشوروں کے لیے رونق بازار بنا رہے گا؟ آخر کب تک ریٹنگ کی دوڑ میں دوسروں سے سبقت لے جانے کے لیے غریب لیکن خوددار اور معصوم لوگوں کو ڈسپوزایبل چیزوں کی طرح استعمال کیا جاتا رہے گا۔

وزیراعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کا نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے ہوئے شاہ فیصل کے تمام تر تعلیمی اخراجات اٹھانے کا نعرہ مارا تھا لیکن اپنی تمام تر کوشش کے باوجود میں شاہ فیصل کی تعلیم سے متعلق کوئی مستند خبر حاصل نا کر سکا۔ میں اپنے حکمران طبقہ سے سوال کرنا چاہتا ہوں، ہم ایسے مسائل کا مستقل بنیادوں پر کوئی حل کیوں نہیں نکال لیتے۔ ایک ایسا ادارہ کیوں نہیں بنا دیتے جو شاہ فیصل کی طرح کے ذہین بچوں کی تعلیم کے تمام اخراجات کا بوجھ اٹھا سکے۔

جب میں شاہ فیصل جیسے لائق بچوں کو دیکھتا ہوں تو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ ہمارے بے شمار ہیرو ایسے ہیں جن پہ دنیا کی کوئی قوم فخر کر سکتی ہے۔ مجھے فخر ہے جناب فیض احمد فیض پر، عبدالستار ایدھی، حبیب جالب، لاریب عطا، اعتزاز حسن شہید، پروین رحمان، سلمان تاثیر، ڈاکٹر عبدالسلام، عمران خان (دنیائے کرکٹ کا بہترین کھلاڑی، دنیا کی واحد خیراتی کینسر ہسپتال چلانے والا) اور ایسے انگنت گمنام ہیرو جنہوں نے پاکستان کو ایک بہتر پاکستان بنانے کے لیے خدمات دیں۔

میں نے آج تک نا کبھی شہاب الدین غوری، سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم، شیر شاہ سوری اور ان کے جیسے حملہ آوروں کو اپنا سمجھا۔ اور نا کبھی ان کی جنگی فتوحات پر فخر کیا۔ مجھے آج تک کبھی بھی پاکستانی ہونے پر اس لیے فخر محسوس نہیں ہوا کہ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ بلکہ اکثر اسی خیال سے شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ ہم کیسی ایٹمی طاقت ہیں جو اپنی ضرورت کے لیے 14000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ ہم اس قدر کرپٹ لوگ ہیں کہ اپنے تھوڑے سے مفاد اور چار پیسوں کے کمیشن کے لالچ میں اس مسئلے کو حل ہی نہیں کرنا چاہتے۔

ھم حد درجہ کرپٹ اور بے ایمان لوگ ہیں۔ اپنے ایک روپیے کی خاطر دوسرے کو ننانوے کا نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ جب تک ہم اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے، اپنے اصل ہیرو کی پہچان نہیں کر لیتے نجانے کتنے شاہ فیصل ایسے ہی رونق بازار بنے رہیں گے۔

پاکستان کی ترقی و فلاح کا راستہ نالج اکانومی کے پھاٹک/گیٹ وے (Gateway) سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہمارے حکمران جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے ملک و قوم کے لئے بہتر ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کا ریاست مدینہ کا خواب بھی نالج اکانومی کے بغیر شرمندہ تعبیر نا ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).