انڈین ڈاکٹر کفیل خان: متنازع شہریت کے قانون پر رائے دینے والا ڈاکٹر ملک کے لیے قومی خطرہ یا جبر کی علامت؟


ڈاکٹر کفیل خان

38 سالہ بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر کفیل خان پر گذشتہ برس ایک طلبا اجلاس میں متنازع شہریت کے قانون پر تنقیدی تقریر کرنے پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے

دو سو روز سے زیادہ دنوں تک انڈین جیل میں ایک نوجوان ڈاکٹر کو قومی سلامتی کے قانون کے تحت الزامات میں قید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ قانون حکام کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھیں تو اسے قید کر سکتے ہیں۔

38 سالہ بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر کفیل خان پر گذشتہ برس ایک طلبا اجلاس میں متنازع شہریت کے قانون پر تنقیدی تقریر کرنے پر یہ الزامات عائد کیے گئے تھے۔ انڈیا کے نئے متنازع شہریت کے قانون کو انڈیا کے مسلمانوں کے خلاف امتیازی تصور کیا جاتا ہے اور اس قانون پر انڈیا میں کافی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں ایک اجلاس میں ڈاکٹر خان نے حکمراں بی جے پی حکومت پر فرقہ وارانہ سیاست میں ملوث ہونے اور ‘اصل مسائل’ کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

انھوں نے ملک میں بچوں کی گرتی ہوئی صحت، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور کمزور ہوتی معیشت کے بارے میں بھی بات کی تھی۔

انھوں نے 600 طلبا کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم آپ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ہمیں کتنا ڈراتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ ہمیں کتنا دبائیں گے، ہم ہر بار ابھریں گے۔’

یہ بھی پڑھیے

جامعہ کی لڑکیوں نے ماتھے کے آنچل کو پرچم بنا لیا!

مائیکروسافٹ کے سربراہ کی شہریت کے قانون پر تنقید

شہریت کا متنازع ترمیمی بل، انڈیا بھر میں مظاہرے

ریاست اتر پردیش کی پولیس نے، جو اب ایک متنازع ہندو مذہبی رہنما جو مسلم مخالف بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں کی زیر حکمرانی ہے، ڈاکٹر خان کی تقریر کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔

اس خطاب کے تقریباً 45 دن بعد ڈاکٹر خان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ‘ڈاکٹر خان نے اجلاس میں موجود مسلم طلبہ کے مذہبی جذبات بھڑکانے اور (ہندو) برادری کے لیے نفرت، دشمنی اور عداوت کو بڑھانے کی کوشش کی۔’

منگل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے پولیس کے بیان سے متفق نہ ہوتے ہوئے مقدمے کو ختم کر دیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ‘ڈاکٹر خان نے نفرت اور تشدد کو بڑھاوا نہیں دیا۔’ دو ججوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے دراصل ‘شہریوں کے مابین اتحاد’ کا پیغام دیا تھا اور حکام نے تقریر کا ایک مخصوص حصہ پڑھا ہے۔

ڈاکٹر خان کے بھائی عدیل خان نے، جو ایک کاروباری شخصیت ہیں، بتایا کہ ‘پہلے وہ قربانی کا بکرا تھا اب وہ ریاست کا دشمن بن گیا ہے۔’

ڈاکٹر خان نے گذشتہ تین برس کا عرصہ زیادہ تر جیلوں میں ہی گزارہ ہے۔ انھیں اگست 2017 میں گورکھپور کے ایک سرکاری ہسپتال میں 70 سے زیادہ بچوں کی موت کے بعد مجرمانہ قتل اور غفلت کے الزامات کے تحت سات ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ جونیئر ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ہسپتال کے پرنسپل سمیت آٹھ دیگر کارکنوں کو بھی انھیں الزامات کے تحت قید کیا گیا تھا۔

ان میں سے زیادہ تر اموات مبینہ طور پر ہستپال کی آکسیجن سپلائی منقطع ہو جانے کے باعث ہوئی تھی کیونکہ اس کا ایک لاکھ ڈالر سے زائد کا بل ادا نہیں کیا گیا تھا جبکہ حکومت اس بات کو مسلسل مسترد کرتی رہی ہے۔

ڈاکٹر خان کو گذشتہ برس اپریل میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا، ستمبر 2019 میں سرکاری تحقیق میں انھیں کسی بھی غفلت برتنے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا لیکن اس پر حکومت کی جانب سے کوئی معافی نہیں مانگی گئی تھی۔

ڈاکٹر خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اس لیے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ انھوں نے حکومت کی کوتاہی پر سے پردہ اٹھایا تھا۔ گورکھپور کے ایک ہزار بستروں پر مشتمل بابا رگھا داس ہسپتال میں بطور عام ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کی زندگی اسی رات بدل گئی تھی۔

اس رات ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی بند ہو جانے اور ایمرجنسی کے صورت میں متبادل کے طور پر پڑے 50 مایہ آکسیجن سلنڈرز ختم ہو جانے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج بچے دم توڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ اگلے 54 گھنٹوں کے دوران انھوں نے پاگلوں کی طرح تلاش کر کے درجنوں آکسیجن سلنڈرز کا انتظام کیا تھا۔

انھوں نے اے ٹی ایم سے ذاتی پیسے نکلوا کر دیگر ہسپتالوں، دکانوں حتیٰ کہ نیم فوجی دستوں کے پاس جا کر آکسیجن سلنڈرز مانگے تھے۔ نیم فوجی دستوں کی جانب سے انھیں ایک درجن آکسیجن سلنڈرز کی مدد فراہم کی تھی۔ تقریباً دو دن بعد ہسپتال کی آکسیجن سپلائی بحال ہو گئی تھی۔

ہسپتال

اس رات ہسپتال میں آکسیجن کی فراہمی بند ہو جانے اور ایمرجنسی کے صورت میں متبادل کے طور پر پڑے 50 مایہ آکسیجن سلنڈرز ختم ہو جانے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج بچے دم توڑ گئے تھے

ایک ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ ڈاکٹر خان یہ جاننے کے بعد کہ ہسپتال کی آکسیجن سپلائی منقطع ہو گئی ہے قریبی ہسپتالوں سے آکسیجن سلنڈرز کے لیے بھیک مانگ رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں 24 گھنٹوں میں 250 سلنڈرز لایا تھا! 250! مجھے نہیں علم کہ کتنے بچے مرے تھے اور کتنے زندہ بچے تھے لیکن میں نے اپنی بہترین کوشش کی تھی۔

گورکھپور میں بہت سوں کا کہنا ہے کہ دیگر ڈاکٹروں نے بھی ہسپتال کے لیے آکسیجن حاصل کرنے میں مدد کی تھی مگر ڈاکٹر خان کو زیادہ توجہ ملی تھی کیونکہ انھوں نے اس کام میں پہل کی تھی اور اس وجہ سے کہ ان کی ویڈیو وائرل ہو گئی تھی۔

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ نے چند دن بعد ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔ ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سے ان کی ملاقات نے ان کی زندگی’مکمل طور پر’ بدل کر رکھ دی۔

ڈاکٹر خان کے مطابق وزیر اعلیٰ ادتیاناتھ نے ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے سلنڈرز کا انتظام کیا تھا۔ جب ڈاکٹر خان نے ہاں میں جواب دیا تو ان کا کہنا ہے کہ ادتیا ناتھ ‘غصہ میں آ گئے’ اور مجھے یہ کہتے ہوئے چپ کروا دیا کہ ‘اچھا تو تمھارا خیال ہے کہ تم سلنڈرز کا انتظام کرنے سے ہیرو بن گئے ہو؟’

ادتیا ناتھ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ بعدازاں جب ڈاکٹر خان کے اہلخانہ نے ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ادتیا ناتھ سے چند مرتبہ ملاقات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ‘انصاف ہوگا۔’

ڈاکٹر خان نے جیل سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں کہا تھا ‘وزیر اعلیٰ اس لیے غصہ میں تھے کیونکہ یہ واقعہ میڈیا میں آ گیا تھا۔’

ایک سال بعد جب وہ ضمانت پر رہا تھے، ڈاکٹر خان کو بہرائچ ضلع کے سرکاری ہسپتال میں زبردستی گھسنے کے الزام میں 45 دن کے لیے دوبارہ گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا تھا۔ جہاں ان کا کہنا ہے کہ انسیفلائٹس یعنی دماغی سوزش کے باعث بچوں کی اموات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے گئے تھے۔ایک اخبار نے لکھا تھا ڈاکٹر خان ایک ‘مستقل تفتیش کرنے والے انسان’ ہیں۔

ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس میں انھوں نے انڈیا بھر کا دورہ کیا ہے اور مون سون سے متاثرہ علاقوں میں ایک سو سے زیادہ طبی کیمپ لگائے ہیں جہاں انھوں نے دماغی سوزش کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج کیا ہے۔ یہ ایک خطرناک اور مہلک مرض ہے جو انڈیا کے مختلف علاقوں میں تیزی سے پھیلا ہے۔

ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ بالکل مختلف ہو چکے ہیں، ایک کتابی اور شرمیلے ڈاکٹر، جسے کرکٹ اور فوٹوگرافی کرنا پسند تھا سے وہ ایک متحرک، جوشیلے اور مہم جو ڈاکٹر بن چکے ہیں۔

جب گذشتہ برس دہلی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہرجیت سنگھ بھٹی کی ان سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے ڈاکٹر خان سے پوچھا تھا کہ وہ اتنا تبدیل کیسے ہو گئے ہیں۔

ڈاکٹر بھٹی نے مجھے بتایا کہ ‘جیل کے تجربے نے انھیں بدل دیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کا خوف ختم ہوگیا ہے، انھوں نے کہا کہ اب وہ اپنے لوگوں اور اپنے مریضوں کے لیے آواز اٹھائیں گے۔’

اس وقت میں جب جیل میں ان کے ساتھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ڈاکٹر خان نے خط لکھے تھے، ان کے پانچ میں سے دو خط وزیر اعظم مودی کے نام تھےآ

ان میں انھوں نے لکھا کہ ‘ میں ایک ڈاکٹر ہوں، ہمیں کورونا کی وبا کے خلاف لڑنے کے لیے مزید ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، براہ مہربانی مجھے رہائی دے دیں، مجھے لگتا ہے کہ اس وبا کے خلاف لڑنے میں، میں کچھ مدد کرسکتا ہوں۔’

ڈاکٹر خان کسی حد تک پولرائزنگ شخصیت بن گئے ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے دور اقتدار میں وہ ‘ریاستی اور مذہبی جبر’ کی زندہ علامت ہیں۔ ان کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ عوامی پلیٹ فارم شیئر کیا ہے جو حکمراں بی جے پی کے خلاف ہیں اور ان کے سیاسی عزائم ہیں۔

کفیل خان کی اہلیہ

ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ

ان کے ایک سابق ساتھی کا کہنا ہے کہ ‘ اب وہ ایک جدوجہد کرنے والے اور بہت ہی پرعزم انسان بن چکے ہیں۔’

اس ہسپتال سانحہ میں معطل ہونے والے آٹھ افراد جن میں چار ڈاکٹر بھی شامل تھے صرف ڈاکٹر خان کو دوبارہ بحال نہیں کیا گیا ہے اور وہ سرکار سے صرف آدھی تنخواہ وصول رہے ہیں۔

ان کے بھائی عدیل خان کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے خاندان کو ہراساں کیا گیا اور نشانہ بنایا گیا ہے اور ہم مختلف وزرا کے پاس بھی گئے ہیں اور متعدد پریس کانفرنسیں بھی کی ہیں۔’

ڈاکٹر خان چھ بہن بھائیوں میں سے ایک ہے، ان کی دو بہنیں ہیں۔ ان کے مرحوم والد سرکاری انجینئر تھے جبکہ ان کی پڑھی لکھی والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ایک بھائی ڈاکٹر، ایک انجینئر ہے جبکہ ایک بھائی بزنس مین ہے۔ دونوں بہنوں نے کیمسٹری کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور ان میں سے ایک عمان میں پڑھاتی ہیں۔

ڈاکٹر خان اب انڈیا کی ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں ہیں۔ جہاں ان کی اہلیہ جو دانتوں کی ڈاکٹر ہیں اور دو بچے ایک چار سالہ بیٹی اور ایک 18 ماہ کا بیٹا ان کے ساتھ ہوں گے۔ بدھ کی علی الصبح ، کنبے نے ایک کار میں سوار ہوکر گورکھپور سے 840 کلومیٹر کا سفر شروع کیا ہے۔

ڈاکٹر خان نے اپنی رہائی کی رات صحافیوں کو بتایا کہ ‘میرا ارادہ ہے کہ انڈیا کے کچھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاکر میڈیکل کیمپ لگاؤں، جہاں میں لوگوں کا علاج کروں اور انھیں وبائی امراض سے محفوظ رکھوں۔’

ایک جوشیلہ متحرک کارکن ڈاکٹر واپس آ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp