گوگل کے سندر پچائی اور رومالی روٹی


جہاز کا اندرونی منظرکسی خلائی شٹل کا تھا۔ غزنوی کی تڑپ رکھنے والے خطوط کی مالکن تمام فضائی میزبان سفید رنگ کے کاغذی پیرہن میں ملبوس تھیں۔ چہرے پر حفاظتی شیلڈ، منھ پر ماسک کا ڈھاٹا اور چشم بے باک پر آویزاں چشمہ جس کی جھری کو بائی پاس کرکے مہلک جرثومے تو کیا پاکستان کے کس مولوی کی بری سے بری گستاخ نظر بھی پار نہ جا سکے۔ آپ نے اگر بزنس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خریدا ہو تو دوران پرواز ایسے خیال رکھتی ہیں جیسے سیالکوٹ میں نکاح سے پہلے جیجا جی پر سالیاں صدقے واری جاتی ہیں۔

حماد انٹرنیشنل ایرپورٹ پر سناٹے بولتے تھے۔ اکا دکا، بے یقینی کے مارے مسافر، زیادہ تر گورے گھر لوٹتے تھے۔ ورنہ پار سال تو چینیوں کی بھرمار تھی۔ چینی ڈرے ہوئے ہیں، امریکہ نہیں آ رہے۔ سفری پابندیاں ہیں۔ پاکستانیوں کو کیسے اتنی جلدی سفر کی اجازت دی، ہم حیران تھے۔ سب کو سمجھاتے ہیں، ٹرمپ، نیتن یاہو اور مودی اچھے ہیں، مانتے ہی نہیں۔ شدت پسندوں اور ری پبلکنزسے ڈیل کرنا آسان ہوتا ہے۔

ہم بزنس لائونج میں آئے تو لگا کہ گوگل کا دفتر ہے۔ ٹوائلٹ کا دروازہ قریب آنے پر ایسے پاٹم پاٹ خود سے ایسے کھل گیا جیسا سیلکٹرز کی آمد پر وزیر اعظم ہائوس کا کھل جاتا ہے۔ یہ فائدہ ہوتا ہے اپنا کوئی بڑے عہدے پر ہو۔ کھیل کو سمجھتا ہو۔ میرٹ کی قدر اور پرانے کھلاڑیوں کا ایسا احترام کرتا ہو۔

سنک پر لگے بڑے آیئنے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی بمشکل جسارت کی تو پس آئینہ آں جہانی شسانت سنگھ راجپوت، ریحا چکرورتی کے بغیر دکھائی دیے۔ چار سو قمقمے روشن نہ ہوتے تو ہم بھی انجم خیالیؔ کی طرح کہتے کہ

اندھیری رات ہے، سایہ تو ہو نہیں سکتا

یہ کون ہے جو مرے، ساتھ ساتھ چلتا ہے

صفائی کے عملے کی وردی اور سینے پر آویزاں نام سراج۔ معلوم ہوا دیناج پور۔ بنگلہ دیش سے ہیں۔ ہم نے تصویر بنانا چاہی کہ ہمارے من پسند بے باک مصنف خلیل الرحمن قمر کو دے دیں گے تاکہ وہ ماروی سرمد پر کوئی ڈرامہ بنائیں تو حافظ احمد یا مفتی کفایت کی جگہ اسے ہیرو کاسٹ کر لیں۔ نہ مانا۔ کہتا تھا کسی نے ماں کو دکھا دی تو بہت روئے گی۔ میں نے اس سے جھوٹ بول رکھا ہے کہ میں قطر کے کسی شیخ کے باز اور کاروں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ دونوں ہی اڑتے ہیں۔

ناشتہ میں سب کچھ اچھا تھا بس چائے ویسی تیز دم اور کڑک نہ تھی جو روح کو گرما دے اور قلب کو تڑپا دے۔ از رہ عنایت ویٹر نے جب تیسری دفعہ بھی اسے ہماری منشا کے برعکس پایا تو جونئیر شییف کوشک کو بلا لایا۔ کوشک بھارتی سے ہم نے پوچھا کہ منے کہاں کا ہے؟ بتانے لگا “کھرگ پور۔ مغربی بنگال کا”۔ پوچھا “ٹھیک سے چائے بنا لیتا ہے یا قطریوں کو ماموں بنا رکھا ہے؟”۔ مسکرا کر کہنے لگا کہ میرا ماموں بپاشا باسو کا شیف ہے.

بپس جیسا کہ اسے اپنے غیر سب ہی پکارتے ہیں اس سے اپنی چائے میں ذائقے کا یہ ان ہوتا کنکشن ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ ہم نے دل چسپی قائم رکھنے کے لیے پوچھ لیا کہ تونے بھی کبھی بپس کودیکھا ہے؟ تو کہنے لگا۔ کئی دفعہ۔ مردانہ تجسس سے مجبور ہوکر پوچھا کیسی ہے؟ خود گورا چٹا نہ تھا مگر بپس کے بارے میں ہرزہ سرائی کی کہ” ڈارک ہے؟” ہمارے تجسس کو قرار نہ آیا تو مزید پوچھا” اور؟ “

 شرما کے کہنے لگا

Toned and Sexy۔ ہم نے کہا “جا جلدی جا اور بپس جیسی چائے لے کر آ۔ تو جاتے جاتے لہجے میں مشترکہ محرومی کی گھٹی گھٹی گت بجا کر کہنے لگا  Toned and Sexy۔ ہم نے کہا “چائے اچھی ہوئی تو سیدنا اکبر الباقر جو قطر ایرویز کے سی ای او ہیں انہیں تیری تعریف کی ای میل ڈال دیں گے۔ چائے بہت اچھی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ تیرا کھرگ پور کیوں مشہور ہے؟ بتانے لگا پہلےIndian Institute of Technology Kharagpur کی وجہ سے مشہور تھا اور اب یہ مادر علمی اور شہر دونوں ہی گوگل کے چیف سندر پچائی کی وجہ سے ہاٹ اسپاٹ ہیں۔ “

بتارہا تھا کہ گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹس کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جب وہ اپنی مادر علمی تشریف لائے تو مصر تھے کہ خاموشی سے گیارہ بجے دوپہر کی کلاس میں خود پہنچ جائیں گے۔ کوئی تکلف، پروٹوکول، سواگت کرنے کی چنتا نہیں کرنی۔ ادارے کی پرانی بس جب احاطے میں آن کر رکی تو خاموشی سے ایک سیاہ جینز اور نیلی پتلون میں ایک چوالیس برس کا ڈاڑھی والا مرد اترا تو منتظر مجمع کو علم ہوا کہ یہ تو اپنے سن ترانوے کے metallurgical engineering کے گریجویٹ سندرجی ہیں۔

کوشک اس پر بھی نازاں تھا کہ بھارت کے سب سے پرانے انجئنیرنگ انسٹی ٹیوٹ نے نہرو ہال ہاسٹل میں اپنے اس whip-smart( برق رفتار ذہانت)کے مالک کا گٹار سجا کر رکھا ہے جو انہوں نے بعد میں دان کیا تھا۔ ان کے اسی کالج کے ایک اور ساتھی نے بھی کسی اور میدان میں بہت نام کمایا ہے اور وہ ہے راج نیتی۔ ہم نے پوچھا جواب ملا” اروند کیجری وال “عام آدمی پارٹی کے سربراہ۔ وہ انجینرئنگ کرکے سول سروس اور وہاں سے سیاست میں چلے گئے تھے۔

ہم نے پوچھ لیا کہ کیا انڈین انسٹی ٹیوٹس کے Joint Entrance Examination میں کوالیفائی کرنا بہت مشکل ہے۔ کہہ رہا تھا پہلی شرط تو یہ ہے کہ آپ بورڈ میں پچھتر فیصد نمبر لیں اس کے بعد تیئس انسٹی ٹیوٹس میں داخلے کے لیے دس میں سے ایک امیدوار منتخب ہوتا ہے۔

ہمارے جگر جان پروفیسر ہود بھائی کا خیال ہے کہ پاکستان میں جو کٹ۔ کاپی۔ پیسٹ قسم کے پی ایچ ڈیز کی بھر مار ہے ان کی اکثریت پر انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی کے داخلے کے مشترکہ امتحان J. E. E یا کسی بھی امریکی یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں شامل ہونے کی شرط لاگو ہو جائے تو ان میں بمشکل ایک آدھ فیصد ہی داخلے کےمقررہ معیار پر پورا اتریں گے۔ سوچیں جس ملک میں چانسلر ہی میٹرک فیل گورنر یا ادارے کے بااثر مالکان ہوں، وہاں تعلیم نالائقی کے دروازے پر تو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی مستحق ہے۔

جب کہ سندر پچائی جب گوگل کے سربراہ بنے تو ایک بہت بڑے بزنس گروپ کے سربراہ آنند مہندرا نے ٹویٹ کیا تھا کہ “بھارت کی سب سے مایہ ناز ایکسپورٹ اس کا گلوبل کمپنی کا سربراہ ہے جو کارپوریٹ لیڈرشپ کا جوہر خاص ہے”

ہم نے چھیڑا تو بھی محنت کرکے IIT Khargpur چلا جاتا تو کہنے لگا کہ پھر آپ کو بیس جیسی چائے کون بنا کر پلاتا۔ سندر پچائی اور اپنے کھرگ پور کے ایک ادارے پر یہ تفاخر وہ بھی ایک جونئیر شیف کے منہ سے سن کر ہمیں بہت حسد ہوا۔ پاکستانیوں نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ جن دنوں لداخ کے معاملے میں بھارت کو چین کے ہاتوں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ ان کی مقبولیت میں جب کمی آنے لگی تو سندر جی نے جولائی کے مہینے میں ان الفاظ میں اعلان کیا کہ ان کا ادارہ گوگل بھارت میں 10 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ گوگل جانتا ہے کہ دنیا کیdigital economy  میں بھارت کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ اس سے مودی جی کو جنتا کو یہ جتانے میں آسانی ہوئی کہ چین نے بھلے ایک چوتھائی لداخ گھٹکا لیا ہو، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال اور برما جیسے طفیلی ممالک بھی آنکھیں دکھانے لگے ہوں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بات بھارت سے پیوستہ ری پبلکن پارٹی کی نکی ہیلی سے بڑھ کر ڈیموکریٹ پارٹی کی نائب صدر کی امیدوار کملا ہیرس تک آگئی ہے۔ اوباما اگر امریکہ کے صدر بن سکتے ہیں تو غزوہ ہند والے جان لیں کہ کوئی دن جاتا ہے کہ وہائٹ ہائوس 7۔ لوک کلیان مرگ پر واقع بھارتی وزیر اعظم کے جاتی امرا “پنچاوتی” کی فرنچائز بن جائے گا۔

ہم ایک علیحدہ مضمون اس پر لکھیں گے کہ بھارتی امریکہ میں کیا اودھم مچا رہے ہیں مگر محکمہ زراعت کو چاہیئے کہ ہماری نگرانی میں وہ ایک ایسا ونگ قائم کرے جسے خفیہ ایجنسیوں کی زبان میں Divergent – Investigators کہا جاتا ہے۔ اس کا کام main-issues سے ہٹ کر تفتیش اور معلومات اکھٹی کرنا ہوتا ہے۔

ناشتے سے فارغ ہوکر ایک کونے میں اپنا آئی فون چارج کرنے کی درک میں تھے کہ چارجر تھامے گلڈا آگئی۔ گلڈا کا تعلق ٹاکلوبان۔ فلپائن سے ہے۔ بتا رہی تھی اس کے ملک کا برا حال ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ان کے صدر Duterte ڈوٹرٹے جو منیلا کے مئیر بھی رہے ہیں وہ تو بہت دلیر ہیں۔ منشیات فروشوں کی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے، پولیس مقابلے زوروں پر ہیں۔ ہراساں ہوکر کہنے لگی کہ مجھے فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ماں اور بہن کا خرچہ چل رہا ہے کہ نہیں۔ مجھے اس کی فکر نہیں کہ کون ہیرؤین پی رہا ہے کون کوکین۔

اس نے تو ان الفاظ میں نہیں سمجھایا مگر ہمیں لگا جیسے وہ کہہ رہی ہو کہ ہماری ڈوٹرٹے حکومت تمہاری پی ٹی آئی سرکار سے ایک قدم آگے ہے اس لیے کہ ہمارے ہاں نہ صرف فوج بلکہ پولیس بھی سرکار کے ساتھ ایک ہی اسکرٹ میں موجود ہے۔ ہم نے کہا اسکرٹ نہیں پیج۔ کہنے لگی میرا ملک میری مرضی۔ اس نے کالج ایجوکیشن اور انفرااسٹرکچر پر بہت زور دیا۔ کرپشن کا بھی بہت خاتمہ ہوا۔ منشیات فروشوں کے پاس بہت مال ہے مگر ہمارا صدر ان کو پھڑکانے میں آسرا نہیں کرتا۔۔ اس سے مگراکانومی نہیں سنبھل رہی اور یہ چین کے آگے بھی لیٹ گیا ہے۔ ہمارے جزائر میں چین دندناتا پھر رہا ہے اور یہ کچھ نہیں کہہ رہا۔

نیویارک کے علاقے کوئینز جس کی آدھی آبادی غیر ملکی نژاد ہے۔ جہاں بنگالی بیوہ کا کرایہ دار چینی خواجہ سرا ہے، جہاں حیدرآبادی ہندوستانی مولوی کو اپنا گھر کسی ہم جنس پرست جوڑے کو کرائے پر دینے میں کوئی عار نہیں۔ گروسری کی خریداری کے وقت ونود پٹیل نے دو مہربانیاں کیں۔ ایک تو بتا دیا کہ لذیز ڈھوکلے کہاں ملتے ہیں۔ ڈھوکلے مودی جی کی پسندیدہ ڈش ہے۔ میمن گجراتی کا اس ڈش سے ویسا ہی بندھن ہے جیسا لاہور والوں کا پٹیالہ والوں سے پیگ کے علاوہ لسی سے ایک مشترکہ سمبندھ ہے۔ کہنے لگا اب کوئینز میں رومالی روٹی بھی ملتی ہے۔ ایک پیکٹ ٹرالی میں رکھا تو ہم نے چھ پیکٹ رکھنے کو کہا۔ ونود نے ہمارے سمجھانے پر پاکستانی پراڈکٹس بھی رکھنا شروع کی ہیں۔ سو کرنل کی بیوی باسمتی، صوفیوں کا صابن، عسکری سیرئیل سب ملتے ہیں۔ پٹیل کی دکان کے سے ذرا ہٹ کر سامنے پاپا جونز کا پٹزا بھی ملتا ہے مگر وہاں سے پٹزا خریدو تو وہ Money Trail مانگتے ہیں۔

ہماری ساری خریداری چوں کہ گھروالوں سے عطیے میں ملے اشک بلبل جتنے ڈالرز سے ہوتی ہے سو پٹزا ہم پڑوس میں حلیمہ سلطان کی الفت میں ترکوں کے حلال گوشت والے ریستوراں سے منگواتے ہیں۔ کوئینز کے ونود باپو سے ہم نے پوچھا تیرے انڈین کسٹمرز ہماری پاکستانی پراڈکٹس کی موجودگی پر اعتراض نہیں کرتے۔ بے رحم و بے باک گجراتی ہیومر کو نوک زباں پر رکھ، آنکھ مار کر کہنے لگا۔ “سیٹھ ادھر اپن کے امریکہ میں خوشی صرف ڈالر کی اور پیار صرف ڈیوریکس کی جبان (زبان) بولتا ہے۔ دھندہ دھرم ہے اور ڈیوریکس بھی دھندے کا آئٹم ہے۔ “

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 96 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan