جنرل (ر) عاصم باجوہ نے الزامات کی مفصل تردید جاری کر دی


جنرل (ر) عاصم باجوہ نے صحافی احمد نورانی کی اپنے اثاثوں کے بارے میں خبر کی تردید کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مسٹر احمد نورانی کی جانب سے ایک غیر معروف ویب سائٹ پر 27 اگست 2020 کو میرے بارے میں جاری کی جانے والی خبر کی شدت سے تردید کی جاتی ہے کہ وہ غلط اور جھوٹی ہے۔

الف: اس خبر میں الزامات لگائے گئے ہیں کہ بطور مشیر خصوصی برائے وزیراعظم میرے اثاثہ جات جو 22 جون 2020 کو پیش کیے گئے تھے غلط ہیں کیونکہ میں نے اپنی اہلیہ کی بیرون ملک سرمایہ کاری کا اس میں ذکر نہیں کیا۔

ب: میرے بھائیوں نے امریکہ میں کاروبار کیا ہے اور ان کے کاروبار کی بڑھوتری میری فوج میں ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔

ج: مخلتف کمپنیوں، کاروباروں اور جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے جو میرے بھائیوں اور بچوں کی ملکیت ہیں، اور ان کی مالیت اور ملکیت کے بارے میں الزامات لگائے گئے ہیں۔

یہ تمام الزامات، خاص طور پر دوسرا الزام حقائق کے منافی ہیں۔

میری اہلیہ 22 جون کو بطور مشیر اثاثہ جات پیش کرنے کے وقت میرے بھائیوں کے کاروبار میں سرمایہ کار یا حصہ دار نہیں تھیں۔ انہوں نے یکم جون 2020 کو بیرون ملک تمام سرمایہ کاری نکال لی تھی۔ یہ حقیقت امریکی آفیشل ریکارڈ میں موجود ہے۔

اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر حقیقی اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ متعلقہ خبر جاری کرنے کا مقصد میری شہرت کو داغدار کرنا تھا۔

سنہ 2002 سے یکم جون 2020 تک اٹھارہ برس میں میرے بھائیوں کی امریکہ میں کمپنیوں میں میری اہلیہ کی سرمایہ کاری 19492 ڈالر تھی۔ یہ سرمایہ کاری میری اہلیہ نے میری اٹھارہ برسوں کی بچت سے کی تھی جن کا حساب کتاب موجود ہے۔ کبھی بھی سٹیٹ بینک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

جہاں تک میرے بھائیوں کے پاپا جونز کی پزا چین کے کاروبار میں مبینہ سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو مندرجہ ذیل اعداد و شمار کا ریکارڈ موجود ہے۔

خبر میں کہا گیا ہے کہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی نامی کمپنی تمام باجکو سے متعلقہ کاروباروں کی پیرنٹ کمپنی ہے۔ یہ غلط ہے۔ یہ صرف ایک مینجمنٹ کمپنی ہے جو فیس کی بنیاد پر سروس فراہم کرتی ہے۔ اس کا پاپا جونز کی امریکہ، امارات اور ڈی کیو کی چین یا کسی رئیل سٹیٹ کاروبار میں کوئی مالکانہ حصہ نہیں ہے۔

صحافی مزید الزام لگاتا ہے کہ باجکو کی ملکیت میں 99 کمپنیاں ہیں۔ صحافی نے کئی کمپنیوں کا نام اس فہرست میں بار بار درج کیا ہے۔

اٹھارہ برسوں میں میرے بھائیوں نے کاروبار میں 70 ملین ڈالر کے اثاثہ جات خریدے جن سے 60 ملین ڈالر بینک سے قرض لیے گئے۔ اس دوران اپنے ذرائع سے کی جانے والی کل سرمایہ کاری 73950 ڈالر تھی۔ اس میں سے میری اہلیہ کی سرمایہ کاری 19492 ڈالر تھی۔ میرے تمام بھائی اچھی پوزیشن پر رہے ہیں اور میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ ان کی 54458 ڈالر کی سرمایہ کاری کا پورا حساب موجود ہے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ میری اہلیہ اور بھائیوں کے علاوہ ان کاروباروں میں 50 مزید سرمایہ کار بھی ہیں۔

میرے بچوں کے کاروبار کے بارے میں الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کا جواب یہ ہے۔

الزام لگایا گیا ہے کہ میرے ایک بیٹے کی ملکیت میں ایک کمپنی سیون بلڈرز اینڈ اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ہے جو ایس ای سی پی میں رجسٹر ہے۔ اس کمپنی نے کبھی بزنس نہیں کیا اور شروع دن سے خوابیدہ ہے۔

دوسری کمپنی ہمالیہ پرائیویٹ لمیٹڈ کی صرف پچاس فیصد ملکیت میرے بیٹے کے پاس ہے۔ یہ ایک بہت چھوٹی کمپنی ہے اور تین برس میں اس نے پانچ لاکھ روپے سے کم منافع کمایا ہے۔

یہ الزام لگایا گیا ہے کہ کرپٹون نامی کاروبار میرے بیٹوں میں سے ایک نے بنایا تھا جو مائن اینڈ منرل کا کام کرتی ہے اور اس وقت رجسٹر ہوئی تھی جب میں بلوچستان میں پوسٹ تھا۔ بدقسمتی سے یہ نہیں دیکھا گیا کہ یہ کاروبار فرد واحد کی ملکیت کے طور پر 2019 میں ایف بی آر میں رجسٹر ہوا اور اس نے کوئی کاروبار نہیں کیا۔

یہ الزام لگایا گیا کہ ایڈوانس مارکیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی میرے بیٹے کی ملکیت ہے لیکن دوبارہ یہ چیک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ یہ کمپنی بھی خوابیدہ ہے اور اس نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا۔

یہ دعوی کیا گیا ہے کہ کمپنی سیون مینیجمنٹ گروپ ایل ایل سی میرے بیٹوں کی ملکیت ہے اور اس کی ملکیت میں امریکہ میں ایک گھر ہے۔ اگر صحافی نے دیانت داری سے حقائق کھوجے ہوتے تو وہ جان لیتا کہ یہ گھر 31 ہزار ڈالر میں خریدا گیا تھا اور یہ رقم میرے دو بیٹوں نے اپنے ذرائع سے حاصل کی تھی۔

میرے بیٹوں کی ملکیتی کمپنی سیون نیچرا ایل ایل سی بھی ہمیشہ سے خوابیدہ ہے۔

بے بنیاد الزام لگایا گیا ہے کہ میرے دو بھائیوں کی کمپنی سلک لائن اینٹرپرائز پرائیویٹ لمیٹڈ، سی پیک کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کمپنی نے کبھی سی پیک کا کوئی ٹھیکہ حاصل نہیں کیا۔ یہ کمپنی رحیم یار خان میں ہے اور یہ صرف رحیم یار خان کے علاقے میں صنعتوں کو مزدور اور ملازمین فراہم کرتی ہے۔

یہ الزام لگایا گیا ہے کہ میرے ایک بیٹے کا امریکہ میں گھر ہے لیکن یہ قرضے پر حاصل کیا گیا ہے جس کا 80 فیصد ابھی واجب الادا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ میرے تمام بیٹے 18 برس سے بڑے ہیں اور کوئی بھی میرے زیر کفالت نہیں ہے۔

یہ نوٹ کیا جانا چاہے کہ میرے تینوں بیٹوں نے امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے اور اچھے مشاہرے والی نوکری کرتے رہے ہیں۔

میں نے ان شرمناک طور پر عائد کردہ الزامات کی جوابدہی سے منہ نہیں چھپایا۔ یہ تمام الزامات میری شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے عائد کیے گئے ہیں۔

جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ
خصوصی مشیر وزیراعظم برائے اطلاعات و نشریات/ چیئرمین سی پیک اتھارٹی
اسلام آباد، 3 ستمبر 2020


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).