محسن داوڑ کو کوئٹہ ہوائی اڈے سے ’حفاظتی تحویل‘ میں لے لیا گیا


علی وزیر اور محسن

رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ کو آج کوئٹہ میں حکام نے ’حفاظتی تحویل‘ میں لے لیا ہے اوو انھیں شہر کے ایک سرکاری ریسٹ ہاﺅس میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

محسن داوڑ بلوچستان کے مختلف علاقوں کے دورے پر جمعے کی شام اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے تھے لیکن انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کوئٹہ ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا جس کے باعث ان کے استقبال کے لیے آنے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کو طویل انتظار کے باعث واپس لوٹنا پڑا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر محسن داوڑ کو ان کے تحفظ کے پیش نظر حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔

تاہم پشتون تحفظ موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے محسن داوڑ کو حراست میں لینے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدام قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

محسن داوڑ چند گھنٹے کی حراست کے بعد رات گئے رہا

محسن داوڑ اور علی وزیر جیل سے ضمانت پر رہا

محسن داوڑ،علی وزیر کے معاملے پر کابینہ کا ’یو ٹرن‘

پشتین کی خاطر جیل جانے والے ’انقلابی‘ کون

منظور پشتین کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ

محسن داوڑ بلوچستان کے کن کن علاقوں کے دورے پر جانا چاہتے تھے؟

پشتون تحفظ موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کے رکن سید زبیر شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ محسن داوڑ شام کو اسلام آباد کی پرواز سے کوئٹہ پہنچے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ محسن داوڑ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کیچ اور چمن کے دورے پر جانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ چمن میں ان لوگوں کے خاندانوں سے ملنا چاہتے تھے جو کہ عید سے قبل چمن میں سیکورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ کیچ میں فرنٹیئر کور کے اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے طالب علم حیات بلوچ کے اہلخانہ سے ملاقات کے علاوہ نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی دو خواتین کے لواحقین سے بھی ملنا چاہتے تھے۔

زبیر شاہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کی بڑی تعداد محسن داوڑ کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پہنچی تھی لیکن انہیں ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماﺅں نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محسن داوڑ کو حکومتی تحویل میں لیے جانے کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر حیران ہیں کہ قومی اسمبلی کے رکن کے آزادانہ نقل و حمل پر بھی پابندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے رکن کے ساتھ اس سلوک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کتنی جمہوریت ہے۔ انہوں نے محسن داوڑ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

دیگر سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے رہنماﺅں کا رد عمل ؟

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے ان کی مبینہ گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انہیں فون کیا تھا کہ وہ کیمپ آکر لواحقین سے ملیں گے۔

ماما قدیر نے بتایا کہ جب ہم بولتے تھے کہ بلوچستان میں لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی ہے تو لوگ ہماری بات کو نہیں مانتے تھے لیکن آج لوگوں نے خود دیکھ لیا کہ ایک رکن قومی اسمبلی بھی بلوچستان نہیں آسکتے۔

بلوچستان حکومت کا موقف؟

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ محسن داوڑ کے خلاف بلوچستان میں کوئی کیس نہیں ہے تاہم سیکورٹی خدشات کے باعث ان کے تحفظ کے پیش نظرانہیں حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعے کو بھی کوئٹہ میں بم دھماکے کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے واقعات کے پیش نظر ان کو ایئرپورٹ سے ضلعی انتظامیہ کے حکام نے ایک ریسٹ ہاﺅس منتقل کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں ان کے تحفظ کے پیش نظر بلوچستان سے واپس بھیجا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رکھا گیا ہے اس لیے لوگ منفی اور بے بنیاد پروپیگینڈہ کی جانب کان نہ دھریں ۔

محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان نے اس سے قبل 29 جولائی کو پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔

اس سلسلے میں جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق ان پر یہ پابندی نقص امن کے تحت عائد کی گئی تھی۔

اس پابندی کے تحت وہ بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں 90 دن کے لیے داخل نہیں ہوسکتے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp