بھنگ کی تاریخ، افادیت اور نشے کا بزنس


تمباکو آپ کے کھیتوں میں اگتا تھا۔ حقہ کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا کرتا لیکن یہ بزنس نہیں تھا۔ سگریٹ ایجاد کر کے اسے بزنس بنا دیا گیا۔ اب کسان کے تمباکو سے سگریٹ بنا کر آپ کو دس روپے کا ایک بیچا جا رہا ہے۔ 1980 میں ہیروئن متعارف کروائی گی بھنگ پر اسی دور میں پابندی لگی۔ بھنگ ایک خودبخود اگنے والی بوٹی ہے۔ ہیروئن ایک بہت بڑا بزنس۔ کھانسی کا سیرپ، نیند لانے والی ادویات بزنس ہیں۔ بھنگ مفت ہے۔ کسی کو کوئی بچت نہیں۔ شراب کے بے پناہ نقصانات ہیں۔ لیکن بزنس ہے۔ بھنگ کے نقصانات ابھی تک میڈیکل سائنس ثابت نہیں کر سکی۔ اوور ڈوز تو ہر چیز کی نقصان دہ ہے۔

بھنگ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، حشیش بھی اسی سے بنتی تھی۔ خوشگوار موڈ جو ہر بندے کی ضرورت تھی۔ ایسی چیزیں گھریلو زندگی میں عام تھیں۔ گڑ کی شراب پنجاب کے کلچر کا حصہ تھی۔ لیکن اتنا پروپیگنڈا کیا گیا کہ صرف ولائتی شراب اور ہیروئن ہی باقی بچی۔ ایک نے غریبوں کو تباہ کر دیا۔ دوسری عیاشی صرف امراء کے حصہ میں آئی۔ اب کچھ بھنگ کی تاریخ، افادیت اور نقصان پر بحث کرتے ہیں۔

بھنگ ہے کیا؟

ایک خودرو پودا جو کہ سب سے زیادہ ہمارے دارالحکومت میں نظر آتا۔ لیکن یہ کسی بھی جگہ اگایا جا سکتا ہے۔ اسکے سبز پتوں کو رگڑ کر پیسا جاتا ہے یا خشک پتے پیس کر سفوف بنا لیا جاتا ہے۔

ڈھیلیوں کی صورت بھی ملتی ہے۔ ‏زمانہ قدیم سے یہ جڑی بوٹی بطور دوا اور نشہ استعمال ہوتی آئی ہے۔ لیکن ضیا دور میں پیدا ہونے والوں کو یا برگر فیملیز کو یہ صرف ایک سستا اور گھٹیا نشہ ہی لگے گا۔

کینیڈا اور کچھ یورپی ممالک ‏میں اس کا بطور نشہ استعمال جائز ہے
بہترین مسل ریلیکسر اور بھوک لگانے والی چیز ہے۔ پرسکون کرتی ہے۔ مگر بیچاری بدنام ہو چکی۔

آپ کھانسی کا شربت پئیں، روزانہ رات سونے کے لیے دوائیوں کے پھکے ماریں، اس دیس میں مغرب کے تحفے چائے کے دس بیس کپ پی جائیں۔ کوک پیپسی جیسے مضر صحت اور انرجی ڈرنکس جیسے شدید مضر صحت غٹاغٹ پی جائیں۔ ‏نہ تو کوئی بولے گا اور نہ آپ کو روکے گا۔ بلکہ یہ سب فخریہ پیئے جاتے ہیں۔ یہ سب نشے نہیں تو کیا ہیں؟ مگر یہ سب پینے والے بھنگ کا نام آتے ہی حیران پریشان ہو جائیں گے۔

دنیا کی کل آبادی کا آدھا چار ممالک بھارت چین پاکستان بنگلہ دیش ہیں۔ اس کے ساتھ تھائی لینڈ جاپان ویت نام برما مالدیپ انڈونیشیا ملیشیا ‏ملا لیں تو یہ دنیا کی آبادی کا تقریباً 60 %ہو جائے گا۔ یہاں ہزاروں سال سے بھنگ پی جا رہی ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ گورا صاحب کیونکہ شرابی تھے۔ سو ان ملکوں پر قبضہ کے بعد انہوں نے شراب کے بزنس کی خاطر بھنگ پر پابندی لگائی۔ انڈونیشیا ملائشیا میں آج بھی مقبوضہ دور سے پابندی جاری ہے۔

”بھارت“ ‏میں تو ہر سال ہولی کے تہوار پر مرد و زن خوب بھنگ پیتے ہیں۔ شادی پر مہندی کی رسومات کی رات بھنگ انجوائے کی جاتی ہے اور ہر خوشی کا بھنگ لازمی حصہ ہے۔ یہ سب اپنے بھارتی فلمز/ڈراموں میں دیکھا ہوگا۔ بھنگ کے پیڑوں سے بنی لسی بازار میں ملتی ہے اور مندر مزار پر بھی بھنگ عام ہے۔

بھارت میں ‏بھی گورے نے کوشش کی کہ بھنگ پر پابندی لگا کر شراب متعارف کروائی جائے مگر پابندی نہ لگ سکی شاید اس کی وجہ کہ ہندو مذہب میں بھنگ کے پودے اور بھنگ کے مشروب کو ایک مقدس درجہ حاصل ہے۔

یہ سب صحت کا نہیں بلکہ کاروبار کا معاملہ تھا۔ مغل حکمران بھنگ پیتے تھے۔ بلکہ کچھ ایسا ‏بھی پڑھنے کو ملا کہ جنگ پر لڑنے جانے والے فوجیوں کو بھی بھنگ پلائی جاتی تھی۔ حشیش بھی بھنگ ہی سے بنتی ہے۔ اور حشیش پلا کر خودکش حملے کرنے والے جانبازوں کی تاریخ سے آپ واقف ہیں۔

”چائنہ“ میں بھنگ پینے اور اس کا ادویات میں استعمال تقریباً 5000 ‏سال سے جاری ہے۔ سرجری کے لیے بطور بے ہوشی کی دوا بھنگ کا استعمال بھی صدیوں سے ہے۔ اسی طرح تاریخ مصر میں بھی بھنگ کا استعمال ملتا ہے۔

”بنگلہ دیش“ میں 1980 میں بھنگ پر پابندی لگی۔ مگر وہاں بھی میلوں مزاروں پر بھنگ پی جاتی ہے۔ ایک بھنگی قسم کا میلہ فوک موسیقی بھی لگتا ہے۔
سندھ پنجاب اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بھنگ عام پی جاتی ہے۔

بلوچستان میں چائے کا قہوہ تیار کرتے ہوئے حسب ضرورت بھنگ کے پتے /سفوف ڈال کر ایک ساتھ ‏ابالے جاتے ہیں اسے سلیمانی قہوہ کہتے ہیں۔ سندھ میں شاید ”ٹھنڈیائی“ کہتے ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں لو کے موسم میں سردائی میں بھنگ کے پتے رگڑ کر عام پی جاتی ہے۔ جو کہ گرمی کا توڑ ہے۔

آج سے کوئی 30 سال پہلے ہر گاؤں کے قبرستان میں ایک جھگی اور جھگی میں ہرے یا کالے جوڑے میں ملبوس رنگ برنگے کڑے اور انگوٹھیاں پہنے بیٹھا ایک ملنگ اور وہاں موجود پتھر کا دورا (ہاون) اور گھنگھرو بندھا ڈنڈا کس کو یاد نہیں۔ شہر سے واپس آنے والا کچھ دیر جھگی پر رکتا حقے کے کش لگاتے ہوئے شہر کی خبریں سناتا اپنے حصے کا ڈنڈا چلاتا پیالہ بھرتا اور اپنے گھر کی طرف روانہ۔

دن 10 بجے سے شام عصر تک ڈنڈے پر لگے گھنگھرو کی چھن چھن جاری رہتی۔ محاورہ مشہور تھا، گھول گھول پیتیاں، تے رب نا گلاں کیتیاں۔

اب آ جائیں بھنگ کے نشہ پر۔ تو جناب یہ جو نیند کے لئے دوائیوں کے پھکے مارتے ہیں یہ کیا ہے؟ مسل ریلیکسنٹ کیا ہیں؟ کھانسی کا شربت کیا ہے؟ پین کلر کیا ہیں؟ مریض کی پرسکون نیند کے ٹیکے کیا ہیں؟ پیسے تو خرچ ہوتے ہی ہیں۔ لیکن ان کے سائیڈ افیکٹ اس قدرتی بوٹی سے بہت زیادہ ہیں۔ چائنہ کی اپنی ہربل ادویات آج پوری دنیا میں بک رہی ہیں۔

بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ مختصراً کہ اگر آپ بھنگ کے پتوں کو مناسب استعمال کرتے ہیں۔ تو یہ ایک مفید بوٹی ہے۔ نشہ کرنا بالکل غلط ہے۔ ‏لیکن اگر آپ نشہ کرتے ہیں تو شراب سے کم نقصان دہ ہے۔

نیند آور دوائیوں کی مقدار ‏آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے وہ تو کوئی نہیں روکتا بلکہ ڈاکٹر بھی لکھ لکھ دیتا ہے۔ اور آپ خود خرید کر لاتے ہیں۔

بھنگ کا نشہ کیسا ہوتا ہے؟

اب جو لوگ نہیں جانتے بھنگ کا نشہ کیسا ہوتا ہے۔ ان کے لیے جو سمجھ سکا ہوں، حاضر ہے۔

گرمیوں میں پینے کے بعد بے پناہ پسینہ آتا ہے۔ ہنسی کے دورے پڑ سکتے ہیں، ذرا سی بات بھی پرمزاح لگتی ہے، البتہ شراب کی طرح حواس بے قابو نہیں ہوتے۔ یعنی ہاتھ پاؤں وغیرہ کا دماغ سے کنیکشن بحال رہتا ہے، لڑکھڑاہٹ نہیں ہوتی۔ ہینگ اوور بالکل نہیں ہوتا۔ دوران نشہ مزاج بڑا ہشاش بشاش ہوتا ہے۔ یعنی ایسا ہوتا ہے جیسے شدید گرمی میں ٹھنڈے تروتازہ پانی کا شاور لیا ہو یا شدید سردی میں اوڑھنے کے لئے کمبل اور سینکنے کے لئے کوئلوں کی انگیٹھی ملنے پر طبیعت ہوتی ہے۔

سب سے اہم شراب سے پیدا طبیعت میں ہونے والی ترشی و تیکھے پن کی بجائے بھنگ (ہری) طبیعت میں ٹھہراؤ اور ہشاش بشاش احساس پیدا کرتی ہے۔

لیکن حاصل کلام جن سے یہ خواص سنے ہیں ان کا کہنا ہے مے کا متبادل بہرحال کوئی نہیں ہے۔ ویسے بھی ہم مرزا غالب سے دشمنی مول کیوں لیں۔ ویسے بھنگ کی بد قسمتی کہ اسے کوئی اچھا شاعر میسر نہیں آ سکا ورنہ بیچاری یوں زبوں حال نہ ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).