گرم موسم ہمارے مزاج پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے


گرمی کی لہر

کم دھوپ میں تو بہت سو ںکو آئسکریم، اور ٹھنڈے مشروبات کی سوجتی ہے، مگر شدید گرم موسم ہمارے مزاج میں شدت، چِڑچِڑاپن اور افسردگی پیدا کر دیتا ہے۔ کیوں؟

یہ جولائی کا مہینہ تھا اور سال تھا 1988۔ پورا امریکا شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں تھا۔ شہری جوک در جوک ساحلوں کا رخ کر رہے تھے، ایئرکنڈشنر چلانے کی وجہ سے بجلی کے بل آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور سڑک کے کنارے گرمی کی وجہ سے خراب ہو جانے والی گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ قلفی منہ تک پہنچنے سے پہلے پگھل جاتی تھی۔

ساتھ کچھ اور بھی چل رہا تھا۔

در حقیقت، 1988 ریکارڈ توڑ گرمی کا سال نہیں تھا، بلکہ اس برس تشدد کے بھی تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے تھے۔ یہ غیر معمولی طور پر قتل و غارتگری، ریپ، مار دھاڑ اور ڈاکہ زنی کے واقعات کا سال تھا: مجموعی طور پر 15 لاکھ 60 ہزار واقعات پیش آئے۔ کیا موسم اور تشدد کے عمومی رحجان میں کوئی ربط ہو سکتا ہے؟

صدیوں سے لوگوں کا خیال رہا ہے کہ گرم موسم ہمارے طرز عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور یہ ہی سبب ہے کہ یہ ہمارے روزمرہ محاورے کا حصہ بن چکا ہے۔ مثلاً گرمی کھانا، تپ چڑھنا، مزاج میں گرمی، پارا چڑھنا خون میں گرمی، وغیرہ۔

اس بارے میں ابتدائی تحقیق 19ویں صدی کے اواخر میں سامنے آئی جب جرائم کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار مرتب کیے گئے۔ ایک تجزیے کے مطابق لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ سے متعلق زیادہ جرائم کا ارتکاب موسم گرما میں ہوا، جبکہ چوری چکاری کے زیادہ واقعات سردیوں میں پیش آئے۔

اس تحقیق کے بعد سے اس ضمن میں شواہد کا انبار بڑھتا ہی گیا ہے۔

ہنگامہ آرائی کے لیے سازگار موسم

اچھا موسم ہنگامہ آرائی کے لیے بھی سازگار ہوتا ہے کیونکہ خراب موسم میں لوگ گھروں سے نہیں نکلنا چاہتے

ہر سال جیسے ہی پارا چڑھنے لگتا ہے ہمارے اجتماعی مزاج میں بھی تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔ اس کی کچھ علامات میں ٹریفک جام ہونے کی صورت میں ہارن کا بجانا اور عمومی بدمزاجی کا زیادہ اظہار وغیرہ شامل ہیں۔ گرمی کے موسم میں لوگ اجنبیوں کی مدد کرنے پر بھی کم آمادہ ہوتے ہیں۔

برطانیہ میں 2010 سے 2018 کے دوران درجۂ حرارت کے 10 ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں 20 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جانے کے بعد جرائم میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔ میکسیکو میں گرم موسم کے دوران منظم جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے، اور بعض محققین اس رویے کو ‘تشدد کا چسکا’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں کے مطابق ایک ڈگری درجۂ حرارت بڑھنے کے ساتھ قتل کے واقعات میں 1.5 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گرمی اور جرائم میں تعلق دیگر ممالک میں بھی مشاہدے میں آیا ہے۔

سائنسدانوں نے 1791 سے 1880 کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی شورشوں کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ ان کی بہت بڑی اکثریت موسم گرما میں وقوع پذیر ہوئی۔ مثلاً یورپ میں زیادہ تر شورشیں جولائی جبکہ جنوبی امریکا میں جنوری (جب وہاں گرمی ہوتی ہے) میں ہوئیں۔

حالیہ کئی مطالعوں میں بھی موسم اور سماجی تحریکوں کا باہمی تعلق سامنے آیا ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق پچھلے 36 برسوں کے دوران 7 ہزار ایسے واقعات پیش آئے جن میں ابتداً تشدد کا عنصر نہیں تھا مگر جیسے جیسے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا ان واقعات میں تشدد غالب آتا چلا گیا۔

اگست 2020 میں ریکارڈ گرمی پڑنے کے بعد نیدرلینڈز میں ہنگامے ہوئے جن میں ایک عمارت کو نذرِ آتش کر دیا گیا، پولیس پر پٹاخے پھینکے گئے اور 27 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

یہ واضح ہے کہ بے انصافیاں اور سماجی بدامنی کے دوسرے محرکات کسی بھی وقت موجود ہو سکتے ہیں، مگر لگتا ہے کہ ان کے خلاف ہمارے متحرک ہونے کا زیادہ امکان گرم موسم میں ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف ڈنڈی میں نفسیات کے پروفیسر ٹریور ہارلے کے مطابق ‘حدت اور ہنگامہ آرائی کے درمیان تعلق یو (انگریزی حرف) کی شکل کا ہے۔ اس لیے جب موسم زیادہ گرم یا مرطوب ہو جائے تو لوگ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ذرا سی حرکت بھی ان کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔’

اور آخر میں یہ کہ باہر کے حالات خود کو ضرر پہنچانے کے واقعات پر کتنے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بارہ ملکوں میں 13 لاکھ سے زیادہ خودکشیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ درجۂ حرارت میں خودکشی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اور یہ تعلق مغرب اور جنوبی افریقہ میں زیادہ پایا گیا۔ یہ خطرہ 27 درجہ سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کے درجۂ حرارت میں زیادہ تھا۔ آسٹریلیا میں ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس درجۂ حرارت پر ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے میں سات فیصد سے زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

موسم کا ہمارے مزاج پر اس قدر گہرا اثر ایک معمہ ہے۔ مگر عالمی درجۂ حرارت میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے، سائنسدان بھی اسی تندہی سے اس تعلق کے اسباب جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک ممکنہ توضیح یہ ہو سکتی ہے کہ گرم اور حبس آمیز موسم لوگوں اجتماعی طور پر چڑ چڑا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کے درپے آزار ہو جاتے ہیں۔ اس بات کے قوی شواہد ہیں کہ زیادہ درجۂ حرارت میں ہم خود کو اشتعال اور دباؤ میں اور غمگین محسوس کرتے ہیں۔ گرم موسم میں امریکا میں نیشنل فٹبال لیگ کے دوران جارحیت بڑھ جاتی ہے، صحافی رپورٹنگ کے دوران زیادہ منفی زبان استعمال کرتے ہیں، اور لوگ جلدی مشتعل ہو کر نوکری چھوڑ دیتے ہیں۔

اس خیال کو زیادہ تقویت اس دریافت سے ملی ہے کہ موسم ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو کر ہمارے جسم میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ سنہ 2017 میں سائنسدانوں نے فِنلینڈ میں بیرونی درجۂ حرارت اور سیروٹنین کی پیدوار میں تعلق دریافت کیا۔ سیروٹینین ہمارے دماغ میں پیدا ہونے والا ایک کیمیائی مادّہ ہے جو گھبراہٹ، خوشی اور ہمارا مزاج متعین کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اس مادّے کی پیداوار اور جرائم کے درمیان بھی اہم تعلق دریافت کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حدت سیروٹینین کی سطح میں تبدیلی لاتی ہے جس کا اثر ہماری جارحیت کی سطح پر پڑتا ہے۔

ایک اور نظریہ یہ ہے کہ گرم موسم میں ہمارے اندر ٹیسٹوسٹیرون زیادہ پیدا ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر جارحیت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وضاحت کسی قدر اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ جب دن لمبے ہونے لگتے ہیں تو جنسی جرائم اور گھریلو تشدد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ امریکا میں ان دنوں کے دوران ‘محب اور محبوب کے درمیان تشدد’ میں 12 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس میں جسمانی، جنسی اور جذباتی بدسلوکی شامل ہے۔

مگر ان باتوں کی متبادل توضیحات بھی دستیاب ہیں۔ ایک قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تحقیقات درجۂ حرارت اور جرائم کے باہمی تعلق پر ہی مبنی ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ ایک دوسرے پر براہِ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ گرمیوں کے دروان طبیعت میلوں ٹھیلوں اور عیش عشرت پر زیادہ مائل ہوتی ہے اور لوگوں میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔

کلائمیٹ چینج کا اثرات

کلائمیٹ چینج کے سبب گرمی میں شدت کا امکان ہے، اس لیے موسم اور انسانی رویے میں تعلق کو سمجھنا پہلے سے زیادہ ضروری ہے

ممکن ہے کہ کووِڈنائنٹین کی عالمگیر وبا کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں معاون ہو کیونکہ اس کے آنے کے بعد موسم گرما کی بہت سے سرگرمیاں تقریباً ناممکن ہو گئی ہیں۔ یہ وبا ہمارے بہت سے فوری جواب طلب سوالات کے ایک قدرتی تجربہ ثابت ہوئی ہے: مثلاً طویل سفر میں اچانک زبردست کمی کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں یا سمندروں میں جب شور کم ہو جاتا ہے تو وھیل مچھلیوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ جواب بھی مل جائے کہ تشدد کا تعلق واقعی موسم گرما سے ہے یا محض حدت سے ہے۔

موسم اور ہمارے رویوں میں تعلق سے قطع نظر، مستقبل پر اس کے تکلیف دہ اثرات ہو سکتے ہیں۔

سائنسدانوں کی پیش گوئی ہے کہ کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں اوسط عالمی درجۂ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ پرتشدد جرائم میں 3 فیصد اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور سے مغربی یورپ کے معتدل خطے میں۔ اس وقت زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم کلائمیٹ چینج کو روکنے کے لیے کیے گئے وعدوں کو ایفا بھی کر لیں تب بھی درجۂ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ یقینی ہے۔

ایسے میں جبکہ ہمارے مزاج پر موسمی اثرات اس وقت ایک معمہ ہیں، زیادہ اچھا ہوگا کہ ہم آنے والے حالات کے لیے خود کو تیار رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp