نوشابہ کی ڈائری 17: عظیم طارق کے قتل پر ہر ایک دکھی ہے


25 جولائی 1993 ء

اس شہر کی قسمت میں شاید یہی ہے، مکمل سناٹا یا پھر گولیوں کی دل دہلاتی آواز۔ کئی مہینے ایسا سکوت رہا کہ آپریشن کرنے والوں کے امن قائم کردینے کے دعوے پر یقین آنے لگا تھا۔ ہم لوگ بندوقوں کی دھائیں دھائیں اور موت کی خبروں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کچھ دن گولی نہ چلے اور کسی کے قتل کی اطلاع نہ ملے تو طبیعت بے چین ہوجاتی ہے، لگتا ہے اب کچھ زیادہ برا ہونے والا ہے۔

ذیشان کو آنے میں ذرا دیر ہو جائے تو میں اور میری ساس پریشان ہوجاتی ہیں۔ ذیشان کچھ بدلے بدلے سے لگنے لگے ہیں۔ انھیں غصہ بہت کم آتا تھا، ہر وقت ہنساتے ہنساتے رہتے تھے، بے فکر، اپنی ذات اور میری اور گھر والوں کی محبت میں مگن، مگر اب خاموش اور بے زار سے رہتے ہیں، بات بات پر چیخ پڑتے ہیں، پھر معافیاں مانگ مانگ کر مجھے مناتے ہیں۔ جب انھیں پتا چلا تھا کہ باپ بننے والے ہیں تو کتنا خوش تھے، کبھی میرے لیے پھل لا رہے ہیں کبھی ناریل کا پانی ”پیو پیو، بچہ گورا ہوگا“ مجھے زبردستی پلاتے۔ خوش تو اب بھی ہیں، میرے کھانے پینے کا خیال بھی اسی طرح رکھتے ہیں، لیکن وہ بات نہیں۔ شاید وہ واقعہ ان پر بہت اثرانداز ہوا ہے۔

آفس سے آتے ہوئے انھیں پولیس والوں نے روک لیا تھا، ”کہاں سے آ رہا ہے“ جب انھوں نے کہا ”بات تو تمیز سے کریں“ تو گال پر تھپڑ جڑ دیا گیا تھا۔ ذیشان نے میرے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا، ”اگر اس کا خیال نہ ہوتا تو آج خدا کی قسم۔ ۔ ۔“ میں نے پہلی بار ان کی آنکھوں میں نمی دیکھی، مٹھیاں بھینچتے ہوئے میرے پاس سے اٹھ کر باتھ روم چلے گئے تھے۔ حالات خراب ہونے کے بعد سے پولیس کا جوان مردوں کو روک لینا، تلاشی لینا، ان سے تو تڑاخ اور بدتمیزی کے واقعات تو اب ہر دوسرے شخص کی زبان پر ہیں۔ یہ سب بھی شاید آپریشن کا حصہ ہے۔

عظیم احمد طارق کے قتل کے بعد یہ امید بھی ختم ہو گئی کہ فوج اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور آپریشن روک دیا جائے گا۔ الطاف حسین نے یہ کہہ کر کہ ان کی طبیعت خراب ہے، اختیارات عظیم طارق کو سونپ دیے تھے۔ عظیم طارق منظر عام پر آنے کے بعد سے مسلسل متحرک تھے، کبھی سیاست دانوں سے مل رہے ہیں کبھی کور کمانڈر سندھ نصیر اختر سے ملاقات کر رہے ہیں۔ لیکن پھر الطاف حسین کے نمائندہ خاص اور ایم کیو ایم کے سینیٹر اشتیاق اظہر ان کے خلاف بیانات دینے لگے کہ عظیم طارق، الطاف حسین کی توقعات پر پورے نہیں اترے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ عظیم طارق مہاجروں کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ اشتیاق اظہر نے الطاف حسین کی ہدایت کے مطابق تمام سیکٹر انچارجز کو عظیم طارق سے رابطہ کرنے سے روک دیا۔ وہ لوگوں کی امید بندھاتے رہے ہیں کہ الطاف حسین سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان واپس لے کر جلد سیاست میں لوٹ آئیں گے اور وہ دوسرے امام خمینی ہیں، انھیں کی طرح وطن واپس لوٹیں گے۔

اس کے باوجود لوگ عظیم طارق کے گرد جمع ہوتے رہے۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، شعیب بخاری اور محمد عارف ایڈووکیٹ، عظیم طارق کا ساتھ چھوڑ کر اشتیاق اظہر کے پاس جا پہنچے۔ الطاف حسین نے اشتیاق اظہر کی قیادت میں رابطہ کمیٹی قائم کردی، جس پر عظیم طارق نے اپنی زیر قیادت مرکزی کمیٹی کو معطل کر دیا اور الطاف حسین پر تنقید کرتے ہوئے ساری ذمے داریاں ان کی رابطہ کمیٹی کے حوالے کردیں۔

عظیم طارق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہو گئے تھے، جہاں عدالت نے انھیں حراست میں لے کر جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایم کیو ایم والوں کو ان کے ضمانت کرانے پر بھی اعتراض تھا کہ اس طرح پارٹی کا فنڈ ضائع کیا۔ الطاف حسین اور عظیم طارق میں دوری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ جب عظیم طارق عدالت میں پیش ہونے کے بعد باہر آئے تو الطاف حسین کے حامی کارکنوں نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور انھیں ٹائی سے پکڑ کر کھینچا۔

اس سب کے باوجود وہ کہہ چکے تھے کہ اگر بے نظیر اور غلام اسحٰق خان کی مفاہمت ہو سکتی ہے تو میری اور الطاف حسین کی کیوں نہیں ہو سکتی۔ اپنی آخری پریس کانفرنس میں انھوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر الطاف حسین کی رابطہ کمیٹی نے سازشیں بند نہ کیں تو وہ اپنی مرکزی کمیٹی کو دوبارہ فعال کردیں گے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف سازشوں کی نگرانی لندن سے کی جا رہی ہے۔ پھر انھیں قتل کر دیا گیا۔ اور اب وہ ایم کیو ایم الطاف گروپ کے لیے بھی باعث تکریم ہیں اور ایم کیو ایم حقیقی کے لیے بھی، کہ اب ان سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔

آفاق احمد نے عظیم احمد طارق کو ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دی تھی، جو انھوں نے مسترد کردی تھی۔ عظیم طارق کی میت اٹھی تو پتا چلا کہ زمین جائیداد، وراثت، جانشینی اور عورت ہی نہیں جنازے کی ملکیت پر بھی تنازعہ ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے دونوں گروپ عظیم طارق کا جنازہ صرف اپنے کندھوں پر رکھنے کے لیے کوشاں تھے، جیسے کوئی ٹرافی جیتنے کا مقابلہ ہو۔ آخر حقیقی گروپ کی طاقت نے فتح پائی اور انھوں نے الطاف گروپ والوں کو جنازے کے قریب بھی نہیں آنے دیا۔

عظیم طارق کے قتل پر ہر ایک دکھی ہے، مزید دکھ اس بات کا ہے کہ یہ بھی نہیں معلوم کہ قاتل اپنے ہیں یا پرائے۔ بگڑتے ہوئے حالات بتا رہے ہیں کہ امن و سکون کا عارضی وقفہ ختم ہوچکا ہے۔ کبھی ایم کیو ایم کے دونوں گروہوں میں تصادم کی خبر آتی ہے، کبھی دونوں میں سے کسی کے کارکن کے قتل کی۔ اب ایم کیو ایم کو الطاف گروپ اور حقیقی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہیں دستی بموں سے حملے ہوتے ہیں کہیں جلاؤ گھیراؤ۔

طویل خاموشی کے بعد الطاف گروپ کی خواتین نے ریگل چوک مظاہرہ کیا، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل پھینکے۔ اس تشدد پر احتجاج کی جو لہر اٹھی اور جس طرح ہنگامہ آرائی ہوئی، گاڑیوں، بسوں اور پیٹرول پمپوں کو آگ لگائی گئی، وہ دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعے نے ایم کیو ایم میں جان ڈال دی ہے۔

جس حساب سے چھاپے پڑے تھے اور گرفتاریاں ہوئی تھیں، لگتا تھا پوری ایم کیو ایم جیل میں ڈال دی گئی ہے، جگہ جگہ سے چھپا ہوا اسلحہ برآمد ہورہا ہے، گلیوں میں لگے آہنی دروازے اکھاڑ دیے گئے ہیں، اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ شہر سے تشدد کا دور ختم ہوچکا ہے، لیکن فائرنگ، ہلاکتیں، بموں کے حملے، بسیں جلانے کے واقعات اس تاثر کی نفی کر رہے ہیں۔ سلیم شہزاد، عمران فاروق، انیس قائم خانی، انیس احمد ایڈووکیٹ اور کنور نوید سمیت کتنے ہی راہ نماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری پر نقد انعامی رقم رکھ دی گئی ہے۔ دنیا جہاں کا کون سا الزام ہے جو ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر نہیں لگا، قتل، بھتا خوری، اغوا، ڈرل مشینوں سے جسموں میں سوراخ کرنے جیسا تشدد، اور لڑکیوں کی آبروریزی اور اس کی وڈیو بنا کر بلیک میلنگ، اخبارات ایسے الزامات سے بھرے ہوتے ہیں۔

ہر کچھ دن بعد ایم کیو ایم کا کوئی کارکن گرفتار ہوتا ہے اور الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے مظالم کی ایک نئی کہانی اعترافات کی صورت میں سنا رہا ہوتا ہے، میں جانتی ہوں، سب جانتے ہیں کہ ان کہانیوں میں بہت کچھ سچ ہے، مگر جھوٹ تو جھوٹ کوئی سچ کو بھی سچ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لوگوں کی نظر میں ایم کیو ایم مظلوم بن چکی ہے، اور اس کے خلاف جو بھی کہا اور لکھا جا رہا ہے وہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ ایم کیو ایم تھی تو بس ایم کیو ایم کا خوف تھا، اب تو خوف کے کتنے ہی چہرے ہیں، ایم کیو ایم حقیقی، پولیس، مخبر اور اپنا وجود منوانے کے لیے تشدد کا سہارا لیتا الطاف گروپ۔

نہ جانے یہ خوف تھا، مایوسی یا الطاف حسین کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیل کا اثر کہ ایم کیو ایم کی خالی کی ہوئی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں لوگوں کی اکثریت گھروں سے نہیں نکلی۔ اتنے کم ووٹ پڑے کہ جیتنے والے جیت کر بھی شرمندہ ہیں۔ اپنی مقبولیت اور مہاجروں کی نجات دہندہ ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم حقیقی صرف چھے نشستیں جیت پائی وہ بھی چند سو ووٹ لے کر ۔

حقیقی والوں نے گھر گھر جاکر کوشش کی تھی کہ لوگ ووٹ ڈالنے جائیں، لیکن اکثریت نے ”ہاں ہاں“ اور حیلے بہانے کر کے انھیں ٹہلا دیا۔ ہماری گلی میں تو اس دن میت ہو گئی تھی، اس لیے گلی والوں کے پاس نہ جانے کا ٹھوس بہانہ تھا۔ جیلانی صاحب کے کتنے تعلقات تھے، وہ شام کو دروازے پر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے، لوگ آتے جاتے، گھر سے کرسیاں آتی جاتیں اور اندھیرا پھیلنے تک گلی کے کونے میں بنے ان کے مکان کے سامنے کی کھلی جگہ آدھی سے زیادہ بھر چکی ہوتی، لیکن ان کا جنازہ اٹھا تو بیس پچیس لوگ ہی ساتھ تھے۔ ان دنوں ایم کیو ایم والا یا اس کا کوئی عزیز مرے تو یہی حال ہوتا ہے، اور جیلانی صاحب کے تو دو بیٹے ایم کیو ایم میں تھے۔

جنازہ ظہر میں اٹھانے کا اعلان ہوا، پھر عصر کا وقت طے پایا، آخر عشاء کی اذانوں کے ساتھ میت اٹھی، تاخیر کا سبب بتایا نہیں جا رہا تھا، لیکن سب جانتے تھے کہ دونوں روپوش بیٹوں کا انتظار ہے، کیوں کہ ان تک باپ کے مرنے کی اطلاع پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی تھی۔ ان دونوں کی طرح ایم کیو ایم کے تمام کارکن جانے کہاں کہاں چھپتے پھر رہے ہیں، اور ان کے ماں باپ، بیویاں، بہن بھائی اور بچے ان کی شکل دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔ کوئی شہر میں اپنے کسی دوست رشتے دار کے گھر چھپا ہے، کوئی شہر چھوڑ گیا اور کوئی تبلیغی جماعت میں شامل ہو کر تبلیغی دوروں پر ہے۔ کارکنوں کے تبلیغی جماعت میں شامل ہونے کا ذکر تو خود اشتیاق اظہر نے ایک بیان میں کیا تھا۔

میرے سسر بتا رہے تھے کہ جیلانی صاحب ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کے کارکن تھے، صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ بنے، ایوب خان کے خلاف تحریک میں گرفتار ہوئے، ستر کے انتخابات میں پی پی پی کی مہم چلائی، لیکن 1972 میں جب سندھ اسمبلی میں لسانی بل پیش ہوا تو وہ اردو کی حمایت میں لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر تھے۔ جس دن شہدائے اردو کا جنازہ اٹھا اس روز جیلانی صاحب نے اپنے گھر کی چھت پر لگا پیپلز پارٹی کا جھنڈا اتار پھینکا تھا۔ لیاقت آباد کی وہ جگہ جہاں پولیس نے اردو کے حق میں نعرے لگاتے لوگوں پر گولیاں برسائی تھیں وہاں اب مسجد شہداء بنی ہوئی ہے، جس کے احاطے میں ان شہداء کی قبریں ہیں۔

نوشاد چچا کہہ رہے تھے، ”پیپلز پارٹی سندھ میں سندھی جماعت نہ بن جاتی تو یہ اردو اور سندھی بولنے والوں کو آپس میں جوڑ سکتی تھی۔ کبھی معراج محمد خان بھٹو کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے، جنھیں بھٹو نے اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ستر کے انتخابات میں کراچی کی کئی نشستوں سے سو فی صد مہاجر ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کے تین نمائندے حاجی قاسم عباس پٹیل، سید سعید حسن ایڈووکیٹ اور عبدالوحید عرشی جیتے تھے۔ شیعہ مہاجروں کی اکثریت تو پیپلز پارٹی کی حامی تھی ہی، سنی مہاجروں کی بہت بڑی تعداد بھی بھٹو کا دم بھرتی تھی، لیکن ممتاز بھٹو کے پیش کردہ بل نے سب بدل کر رکھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی اور مہاجر دانش وروں اور سیاست دانوں کو ساتھ بٹھا کر معاہدہ کرا دیا تھا۔

بھٹو نے بڑے پن اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہاجروں سے معافی بھی مانگی تھی اور اس پر سندھی قوم پرستوں سے بزدلی کے طعنے سنے تھے۔ لیکن بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کے دور میں ایم آرڈی کی تحریک کے دوران سندھیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے نتیجے میں سندھیوں میں مظلومیت کے احساس اور قوم پرستی کی لہر نے جنم لیا، سو انھیں قوم پرستوں کی طرف جانے سے روکنے کے لیے پیپلز پارٹی نے سندھیت کا پرچم اٹھا لیا۔ اٹھاسی کے انتخابات میں مہاجروں کے حلقوں میں ایم کیو ایم کی مکمل کام یابی اور پیپلز پارٹی کی مکمل شکست نے اس رجحان کو تقویت دی اور پیپلز پارٹی مہاجر ووٹر سے پوری طرح مایوس ہو کر صرف سندھی ووٹر کو خوش کرنے کی حکمت عملی پر گام زن ہو گئی۔ اب سندھ میں پیپلز پارٹی صرف سندھیوں کی جماعت ہے اور وہ اپنا یہ اسٹیٹس بدلنا بھی نہیں چاہتی۔“

جن دنوں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں لسانی بل پیش ہوا ان دنوں نوشاد چچا پولیٹیکل رپورٹر تھے اور سندھ اسمبلی بھی کور کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اردو بولنے والے ارکان کہہ رہے تھے ہم سندھی زبان اور سندھ سے محبت کرتے ہیں، ہم سندھی کے مخالف نہیں۔ وہ اردو کو بھی بل کا حصہ بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف پیپلز پارٹی کے بعض سندھی ارکان اس بل کی مخالفت کو سندھی سے عداوت اور سندھ سے غداری قرار دینے پر تلے تھے۔

بل کی حمایت میں سب سے ٹھوس اور قانونی دلائل کے ساتھ تقریر صوبائی وزیرخزانہ کمال الدین اظفر نے کی تھی۔ انھوں نے اپنی جماعت کے ارکان کی تقریروں پر دکھ کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا۔ ۔ ۔ میں ایک مہاجر کی حیثیت سے کہتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔ نوشاد چچا کی بات سن کر میں نے سوچا لفظ مہاجر اس وقت بھی مستعمل تھا، یہ ایم کیو ایم والوں کی ایجاد نہیں! نوشاد چچا نے یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کے مہاجر رکن سندھ اسمبلی عبدالوحید عرشی بجٹ اجلاس کے موقع پر سندھ سے محبت میں اتنے آگے چلے گئے تھے کہ انھوں نے مطالبہ کیا تھا موہن جودڑو کی تہذیب، ثقافت اور اس دور کی زبان و رسم الخط کو زندہ کرنے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جائے۔

نوشاد چچا جیسے پرانے، ذیشان کے بہ قول کھاپڑ صحافی، سے بات کر کے کتنی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ذیشان اب کتنے گم صم رہنے لگے ہیں، پہلے تو وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتے تھے۔ کچھ دنوں پہلے ابو کا پورا خاندان چھوٹے چچا کے گھر جمع تھا، سب نے محسوس کیا کہ ذیشان بہت چپ چپ رہنے لگے ہیں۔ اس دن یہ بھی انکشاف ہوا کہ فراز جہاد کے لیے کشمیر چلا گیا ہے۔ چھوٹے چچا اور چچی اکلوتے بیٹے کے اس فیصلے پر کتنے غم زدہ لگ رہے تھے۔ وہ دونوں تو فراز کی اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اور اس کی سرگرمیوں ہی پر کیا کم فکرمند تھے کہ اب یہ نئی افتاد آن پڑی۔

چچی بتا رہی تھیں ان کے علاقے کے جماعت اسلامی کے ناظم کا بیٹا سعد پڑھنے کے لیے امریکا جانے والا ہے۔ وہ راولپنڈی میں مقیم اپنی بہن سے ملنے جا رہا تھا، فراز نے ہم سے یہی کہا تھا کہ وہ سعد کے ساتھ جا رہا ہے، کچھ دن میں واپس آ جائے گا۔ تین چار دن بعد راولپنڈی سے اس کا خط آیا ”میں اللہ کی راہ میں لڑنے کشمیر جا رہا ہوں۔“ چچی کہنے لگیں میں فراز کے بارے میں پوچھنے سعد کے گھر گئی مگر پتا چلا وہ تو امریکا جا چکا ہے۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری قسط 16-کراچی پر ایم کیوایم حقیقی کا راج قائم ہو چکا ہےنوشابہ کی ڈائری 18: کراچی میں کئی خودمختار علاقے وجود میں آچکے ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).