جمہوریت اور مذہب بیزار فلسفی، نطشے


نطشے 15 اکتوبر 1844 کو پروشیا میں پیدا ہوا۔ اس کا والد ایک مشہور پادری اور والدہ انتہائی مذہبی عورت تھی۔ نطشے کی تربیت اس کی والدہ نے کی مگر وہ اس تربیت کے مذہبی حصار سے بہت جلد ہی نکل گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اس نے اپنے والدین کے بتائے ہوئے خدا کا انکار کر دیا، اور اس کے بعد ساری زندگی اپنے تخیل میں خدا تراشتا رہا۔ اس کی ذہانت اور علمی پختگی کا یہ عالم تھا کہ اسے یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی پروفیسر کے عہدے کی پیشکش ہوئی، جسے اس نے قبول کر لیا۔

نطشے موسیقی کا اتنا دلدادہ تھا کہ اس نے کہا ”موسیقی کے بنا زندگی ایک خطا ہوتی“ ۔ اس کے ساتھ ہی وہ طاقت اور جبر کا حامی تھا۔ اس نے فوج میں شامل ہونا چاہا، مگر فوجی تربیت کے دوران ہی گھوڑے سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور گھر بھیج دیا گیا۔ وہ ویسے بھی کمزور صحت کا حامل ایک نازک شخص تھا۔ اپنی انہی محرومیوں کی وجہ سے وہ زیادہ شدت سے طاقت، بہادری، جبر اور غرور کے متعلق سوچنے لگا۔ یہ سوچ اس کو اس مقام پر لے آئی جہاں اس نے اپنے ’لاحاصل‘ کو ہی اپنا خدا بنا لیا۔

اسی لاحاصل کی پرستش میں وہ اتنا آگے نکل گیا کہ اس کے نظریات سے اتفاق کرنا مشکل ہو گیا۔ اس کا فلسفہ دلچسپ تو ہے، مگر اس کو ماننا یا اس پر عمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس کا فلسفہ دیگر فلسفیوں کی طرح پیچیدہ اور مشکل نہیں۔ اس نے سیدھا، آسان اور دو ٹوک انداز اپنایا۔

اس کی مذہب بیزاری کا دو ٹوک اظہار فقط فلسفیانہ درس تک محدود نہ تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب ایک بار وہ شدید علیل ہوا تو اسے اپنی موت صاف دکھنے لگی۔ اس نے اپنی بہن کو وصیت کی کہ ”میرے جنازے پر کم سے کم لوگوں کو بلایا جائے۔ اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کوئی پادری وہاں نہ ہو اور اگر ہو بھی تو اس کو کسی بھی قسم کی مذہبی بیان بازی سے روکا جائے۔ کیونکہ میں علی الاعلان ایک کھرے دہریے کے طور پر قبر میں اترنا چاہوں گا“

نطشے نے مذہب، بالخصوص عیسائیت، اور جمہوریت کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ نظریہ ارتقا کے اصولوں پر اخلاقیات اور معاشرت کی از سر نو تعمیر کی جائے، جس کا مقصد صرف بہترین اور کامل لوگوں کی تلاش اور تخلیق ہو، نہ کہ جمہوریت جیسے کھوکھلے نعروں سے متاثر ہو کر وسائل اور وقت کو تمام نکموں اور نالائقوں پر ضائع کیا جائے۔ یہیں سے وہ اپنے سپر مین یعنی کہ فوق البشر کا بت تراشتا ہے۔ (کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے مرد مومن کا خیال یہیں سے لیا) ۔

نطشے اخلاقیات کے دو اسباق کا ذکر کرتا ہے۔ ایک سبق وہ ہے جو ہمیں بہادر، غالب اور جنگجو قوموں اور لوگوں کی اخلاقیات نے دیا۔ یہ اخلاقیات ہمیں طاقت، شجاعت، ضرب، فخر، غرور، خود اعتمادی، تسخیر اور قابو کرنے کا درس دیتی ہیں۔ ان اخلاقیات پر عمل کرنے والے نایاب اور قابل احترام ہیں۔ دوسری اخلاقیات عام لوگوں کی ہیں جو برداشت کرنے اور رحم و انصاف کی بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسی اخلاقیات مذہبی پیشواؤں کی جھوٹی مگر شیریں باتوں اور جمہوریت کے فلسفوں سے اخذ ہوتی ہیں۔

نطشے نے دہریت کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر کہا کہ ”خدا مر چکا ہے اور کوئی نیا خدا اس وقت پنگھوڑے میں نہیں پڑا جو کل بڑا ہو کر تمہارا نظام سنبھال لے۔ اب خدا کی کرسی پر تمہیں خود بیٹھنا ہو گا۔ تم میں جو بہترین مرد آہن اور فوق البشر ہو گا، وہی اس کرسی کا حقدار ہو گا۔ خدا کو اب آسمانوں کے اس پار نہیں بلکہ دھرتی پر تلاش کرو۔ اس پر یقین کرو جو دھرتی پر جم کر کھڑا ہو، نہ کہ اس پر جو آسمانوں کے اس پار کی مافوق الفطرت کہانیاں سناتا ہو۔ ہمارا مسئلہ ’اب اور یہاں‘ کا ہے، ’تب اور وہاں‘ کا نہیں۔“

اس کے مطابق مذہب اور جمہوریت غلامانہ اخلاق کی قبولیت اور کمزوری کی علامت ہے۔ برابری، میانہ روی، مظلومیت، خوف، برداشت، غربت، عاجزی اور مغلوبیت جیسی کمزوریوں کو نیکی اور اچھائی بنا کر پیش کیا گیا۔ ہمیں تہذیب اور اخلاقیات کے نام پر جھکنا اور سر تسلیم خم کرنا سکھایا جا رہا ہے۔ ان دیکھے خداؤں اور دوزخوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دنیا اور اس کو تسخیر کرنے کو برائی بنا کر پیش کیا گیا۔ جبکہ انسان کی جبلت میں حاصل کرنا ہے۔ وہ دنیا میں شکار ہونے نہیں بلکہ شکار کرنے آیا ہے۔ یہ شکار مادی بھی ہے اور نظریاتی بھی۔

انسان کی جبلت کو مذہب کے داعی اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ انسان کی فطرت میں حاصل کرنا ہے۔ اس کی محبت اور عبادت تک حاصل و محصول کی غرض سے خالی نہیں ہوتی۔ اسی لیے مذہب کے داعی اگلے جہان کی جنتوں کا لالچ دیتے ہیں۔ اس جہان کی ان دیکھی نعمتوں کے اسیر وہی بنتے ہیں جن کو اس جہان میں اپنے زور بازو سے کچھ حاصل کرنے کا یقین نہیں ہوتا۔ جن کو اپنے زور بازو پر یقین ہوتا ہے وہ اپنی جبلت کو دبنے نہیں دیتے۔ وہ ان ان دیکھی نعمتوں کا انتظار نہیں کرتے، بلکہ یہیں اپنی جنت پیدا کرتے ہیں۔

نطشے آگے چل کر کہتا ہے کہ مذہب بالخصوص عیسائیت نے جمہوریت کے لیے راہ ہموار کی۔ جمہوریت کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ بہترین لوگوں سے ان کا حق چھین کر تمام نکمے اور بے کار لوگوں میں بانٹ دیا جائے۔ گدھوں اور گھوڑوں میں، کھروں اور کھوٹوں میں فرق ختم کر دیا جائے۔ عامیوں اور بے کاروں کی پرستش کی جائے، اور خواص سے نفرت کی جائے۔

وہ بہترین لوگوں پر مشتمل اشرافیہ کی حکومت کا قائل ہے۔ اس کے مطابق بہترین لوگ در در ووٹ نہیں مانگ سکتے، اور در در ووٹ کی بھیک مانگنے والے کبھی بہترین نہیں ہو سکتے۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو زور بازو سے حاصل کرنے کے بجائے وعدوں، دعوؤں، سازشوں اور چالاکیوں سے دولت اور اور اختیار حاصل کرنے کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس میں آزاد منڈیوں کی طرف داری کی جاتی ہے لیکن درحقیقت اجارہ داریوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ یہ آزاد منڈیوں کی معیشت ایک دن دنیا کو مال اور وسائل کی ہوس میں جنگ کے دہانے پر لے آئے گی۔ جنگجو لوگ جو کبھی عزت، وقار اور دھرتی کے لیے جنگیں لڑتے تھے، اب ہوس پرستوں کی منڈیوں کے لیے لڑیں گے۔

افلاطون کی طرح نطشے بھی بہترین لوگوں کی خصوصی دیکھ بھال اور پرورش کے نظام کا ذکر کرتا ہے۔ بہترین مرد صرف بہترین عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں۔ بہترین انسان پہلے محبت نہیں کرتا۔ وہ پہلے اپنے جیسا بہترین پیکر تلاش کرتا ہے اور پھر اس سے محبت کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اولاد کی خاص تربیت کی جانی چاہیے۔ ان کو ارادے پر گرفت کرنا سکھایا جائے، بہادری، بے خوفی اور اپنے اہداف پر یکسوئی سکھائی جائے۔ نیکی، بدی، اچھائی، میل ملاپ اور آزادی جیسے لوازمات ان کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیے جائیں۔ یہ صرف عام لوگوں کو سکھائے جائیں۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ نطشے کی آزاد منڈیوں اور ان کی تباہ کاریوں کے متعلق پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ مگر اخلاقیات کے متعلق اس کا فلسفہ دنیا اور انسانیت کو کئی سو سال پیچھے لے جانے کی بات کرتا ہے۔ یہ فلسفہ ذاتی زندگی کے حصار سے ہی نہیں نکلتا اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس اجتماعی زندگی اور اس سے جڑے امن (چاہے مصنوعی ہی سہی) تک پہنچنے کے لیے کئی صدیوں اور صدموں سے گزرنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).