وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے


جنگ اخبار کا شمار پاکستان کے صف اول کے اخبارات میں ہوتا ہے۔ حقائق پر مبنی خبروں اور تجزیوں کے سبب جنگ گروپ کو الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ حق گوئی کی وجہ سے مختلف ادوار میں مصائب جھیلے۔ پرویز مشرف کے مارشل لائی دور میں بھی جیو زیر عتاب رہا مگر اپنی روش ترک نہیں کی۔ جنگ گروپ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمٰن پر غداری کے فتویٰ بھی لگے مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کی پاداش میں آج بھی پابند سلاسل ہیں۔ گزشتہ دنوں کے جنگ اخبار میں کالم نگار مظہر برلاس کے کالم میں سینئر صحافی احمد نورانی کے بارے میں کچھ ایسے الفاظ پرنٹ ہو گئے جن سے صرف جنگ اخبار کی ایڈیٹوریل پالیسی کی ساکھ متاثر ہوئی۔

مظہر برلاس اپنے کالم میں احمد نورانی کا نام لئے بغیر انھیں زہریلے سانپوں سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”جو شخص کہانی کا دعویدار ہے اس کا چہرہ بتاتا ہے کہ وہ پرلے درجے کا دروغ گو اور پاکستان کے خلاف نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ میں تو عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ پاکستان کو بدنام کرنے کی آرزو میں دشمن کا آلہ کار بنتے ہیں ان کی شہریت منسوخ کر دی جائے، ان کی جائیدادیں قرق کر لی جائیں اور ان کا داخلہ اس دھرتی پر ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے“

موصوف نے جائیداد قرق کرنے کی بات کی ہے۔ کیا انھیں یہ نہیں پتا کہ احمد نورانی آج بھی ایک کرائے کے گھر میں رہتے ہیں جبکہ وہ خود اپنے محل نما ذاتی گھر میں رہتے ہیں۔ اول الذکر ہمیشہ طاقتوروں کے بارے میں حقائق لکھنے سے نہیں ڈرتے اور موخر الذکر کا کام ہی حکمرانوں کے دربار میں کورنش بجا لانا رہا ہے۔ آج جنرل باجوہ کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے جنرل راحیل شریف کے بھی ایسے ہی گن گاتے تھے۔

میری رائے میں پاکستان کو اصل خطرہ خوشامد اور چاپلوسی میں ید طولیٰ رکھنے والے ان لوگوں سے ہے جو اپنے مطلب کے لئے ہر طاقتور شخص کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ شتر بے مہار کی مانند ہے اور وہاں کوئی بھی کسی کے بارے میں کچھ بھی لکھ سکتا ہے مگر پرنٹ میڈیا میں ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا پورا نظام ہوتا ہے۔ اخبار میں چھپنے سے پہلے ایک ایک لفظ جہاندیدہ ایڈیٹر کی عقابی نگاہوں سے گزر کر جاتا ہے۔ وہاں نفرت انگیز الفاظ کا چھپ جانا لمحۂ فکریہ ہے اور وہ بھی جنگ جیسے صف اول کے اخبار میں جس کے ادارتی صفحے کی پالیسی اتنی سخت ہے کہ بعض صحافیوں کے بے ضرر سے کالم نہیں چھپ سکتے جبکہ مظہر برلاس کے قابل مذمت الفاظ بھی ان صفحات پر جگہ بنا گئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ یقیناً اس معاملے پر کچھ کوتاہی سرزد ہو گئی تھی اور جنگ اخبار نے اس پر معذرت بھی کی ہے جو ایک مستحسن قدم ہے۔

احمد نورانی اور ان کے کچھ دوستوں سے قریبی تعلق رہا ہے۔ اس لیے کچھ باتوں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں۔ احمد نورانی نے 12 سال دی نیوز میں محنت اور لگن سے کام کیا ہے۔ اس دوران انہوں نے حقائق پر مبنی لاتعداد ایسی سٹوریز بریک کیں جنہوں نے اخبار کی ساکھ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ نورانی کے کام کے بارے میں جنگ گروپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی کچھ سٹوریز کرنے کی وجہ سے وہ ایک سنگین جان لیوا حملہ میں موت کو چھو کر واپس آئے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے مشکلات برداشت کر رہے ہیں مگر حق گوئی ترک نہیں کی۔

انہوں نے اپنی حالیہ سٹوری میں عاصم سلیم باجوہ سے متعلق کچھ حقائق بتائے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگ اخبار ان کی سٹوری پر بات کرتا، اس کے پوائنٹس کو زیربحث لاتا۔ بھلے اس پوری سٹوری کو جھوٹ پر مبنی قرار دے دیتا لیکن اس کے برعکس گزشتہ چار دنوں سے وہ خبر کی بجائے صحافی کو زیربحث لا رہے ہیں۔ انھیں غدار اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔ کیا ایڈیٹر کو یہ احساس نہیں ہے کہ غداری کے الزامات سے نہ صرف صحافی کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے اہلخانہ کے لئے بھی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔

احمد نورانی کی سٹوری کی بات کی جائے تو انہوں نے سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ پر کوئی بے بنیاد الزام نہیں لگایا بلکہ سرکاری دستاویزات فراہم کر کے ان کے مندرجات بیان کیے ہیں۔ فراہم کردہ دستاویزات میں بیان کردہ حقائق درست ہوتے ہیں یا پھر غلط۔ کوئی درمیانی صورتحال نہیں ہوتی۔ حقائق سامنے آنے کے بعد جنرل صاحب نے چار صفحوں کا ایک بیان بھی جاری کیا ہے۔

بیان میں عاصم باجوہ صاحب نے تسلیم کیا کہ ان کی اہلیہ گزشتہ اٹھارہ سال سے اس کاروبار میں شراکت دار تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنرل صاحب کے اہلخانہ کی انویسٹمنٹ میں کوئی مسئلہ نہیں تھا تو انہوں نے اثاثہ جات ڈیکلیئر کرنے سے چند دن پہلے اپنی اہلیہ کے شیئرز اچانک ختم کیوں کروا دیے؟ ان کے بیٹے انہی کاموں کی کمپنیز کیوں بنا رہے تھے جہاں جہاں وہ تعینات تھے۔

ایک ویڈیو انٹرویو میں احمد نورانی بتا رہے تھے کہ انھیں پہلے دن سے پتا تھا کہ باجکو گروپ کی امریکہ اور یو اے ای کی کمپنیز میں بھارتی افراد کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں مگر انہوں نے یہ بات دانستہ نہیں اچھالی۔ بظاہر کسی بھارتی شخص کا کسی پاکستانی کمپنی میں کام کرنا کوئی جرم نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں تو شوگر ملز ٹھیک کرنے کے لئے آنے والے انجینئرز کی بنیاد پر بھی لوگوں کو غداری کے طعنے دیے جاتے رہے ہیں۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں عاصم سلیم باجوہ ٹی وی اینکر سے پوچھ رہے تھے کہ میں منی ٹریل کہاں پیش کروں۔ یہ سوال اگر وہ اینکر کی بجائے اپنے انکم ٹیکس وکیل سے پوچھتے تو وہ انھیں بہتر مشورہ دیتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنرل صاحب خود ہی دونوں عہدوں سے مستعفی ہوتے اور خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیتے پھر جس ادارے نے بھی احتساب کرنا ہوتا وہ خود ہی ان سے رابطہ کر لیتا مگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق کچھ صحافتی حلقوں کی جانب سے نہ صرف احمد نورانی کو غدار قرار دینے کا سلسلہ شروع کروا دیا گیا بلکہ اسے سی پیک پر حملہ اور ففتھ جنریشن وار کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش بھی کی گئی۔

موجودہ صورتحال میں مقتدرہ قوتوں کے افراد کے خلاف حقائق سامنے لانا شیر کے منہ میں سر ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایسے بہادر افراد کی قدر کرنی چاہیے جو تمام تر مالی مشکلات کے باوجود اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر پردے میں لپٹی اس آمریت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایسے لوگ ہی وہ سپوت ہیں جو درحقیقت اس ملک کے اصل ہیرے ہیں۔ شاید انہی کے بارے میں ارشاد عارف نے کہا ہے ہے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).