چھ ستمبر کا دن اور نئی سوچ کی ضرورت


یوم دفاع حسب معمول اسلام آباد اور پنڈی سمیت پورے پاکستان اور میڈیائی دنیا میں یہ دن جوش و خروش سے منایا گیا۔ ہر سال چھ ستمبر کے دن ہم 1965 کی جنگ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، یہ دن میں بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں، فوجی پریڈ، سپہ سالار کی تقریر اور قومی نغمے اس دن کا خاصا ہوتی ہیں۔ بچپن میں جنگ اچھی لگتی تھی، لیکن اب میرا نظریہ بدل گیا ہے، کیونکہ شاید اب میری جنگجویانہ طبعیت نہیں رہی، لیکن ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ جنگیں ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور ایٹم بم وغیرہ سے نہیں لڑی جاتی، سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے کاغذ، قلم اور کتاب کے زور پر بھی جنگیں لڑیں ہیں؟

پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور فلاحی ریاست بنانا ہے تو ہمیں کاغذ، قلم اور کتاب کو بھی اہمیت دینی ہوگی، آج یورپ، امریکہ، چین اور دنیا کے کئی ملکوں میں جنگیں کتاب اور قلم کے زور پر بھی لڑیں جا رہی ہیں، وہ جنگیں زیادہ کامیاب اور مفید ثابت ہو رہی ہیں۔ چھ ستمبر کا دن یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سپہ سالار کی تقریر میں جوش اور ولولہ تھا، لیکن یہ دن سوچ وچار کا بھی دن ہے۔ سبق سیکھنے کا بھی دن ہے۔

ہماری حکومت، سویلین لیڈرشپ، اسٹیبلشمنٹ، سول سوسائٹی اور عوام کو اب سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمیں سوچنا ہوگا انیس پینسٹھ کی جنگ کے ساتھ ساتھ ہمیں انیس سو اکہتر کی جنگ پر بھی غور کرنا ہوگا، کارگل کی جنگ کے حوالے سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان جنگوں سے کس قدر نقصان اور کتنا فائدہ ہوا؟ یہ بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سویلین قیادت کو سوچنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں اور کیسی غلطیاں ہوئیں، ان غلطیوں کو فوجی گھن گرج کے شور میں بھلا نہیں دینا چاہیے۔

چھ ستمبر کو ہمیں سچ بھی بولنا چاہیے۔ چھ ستمبر کو ہم کامیاب ہو گئے تھے، لیکن آج بھی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، چھ ستمبر کو بھی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے؟ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ امریکہ کیوں آج بھی ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ امریکہ اور یورپ والے کیوں کہتے ہیں کہ یہاں پر دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، پھر اس کے بعد برکس والوں نے بھی کچھ ایسی گروپوں پر سوالات اٹھائے جن کا تعلق ہماری ریاست سے تھا؟

چھ ستمبر کے دن اس طبقے کو بھی واضح پیغام ملنا چاہیے تھا جو جنگ چاہتا ہے، جو دنیا سے لڑنا چاہتا ہے۔ اس دن کو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امریکہ، چین، روس اور باقی دنیا ہمارے حوالے سے کیا کہہ رہی ہے؟ کیا ہم اب دنیا سے لڑنے کی پوزیشن میں ہیں؟ سول اور ملٹری قیادت کو چھ ستمبر کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا کہیں بیانیہ بدلنے کا وقت تو نہیں آ گیا؟

اب ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اچھے یا برے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے درمیان فرق ختم کریں، دہشت گرد یا انتہا پسند اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ چھ ستمبر کا دن ماضی کی غلطیوں پر غور کرنے کا بھی دن ہے۔ چھ ستمبر کا دن فارن پالیسی کے نقائص پر غور کرنے کا بھی دن ہے۔ ہمارے چاروں اطراف آگ ہی آگ ہے؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قومی اثاثے، یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کیا ہوتے ہیں، اور ان کی وجہ سے ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں، اس دن اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہماری فوج مضبوط ہے، جس پر ہمیں فخر ہے، لیکن ہمیں ذمہ دار ملک بھی بننا ہوگا، یہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ہماری پہلی ڈیفنس لائن نہیں ہیں، بلکہ یہ ہمارے دفاع کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس پر بھی اس دن غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، حقائق تبدیل ہو رہے ہیں، ہم تنہائی کا شکار ہیں۔ ملک خطرات کا شکار ہے اور یہ خطرات اندرونی ہیں، اس حوالے سے بھی جرنیلوں، سیاستدانوں، سول سوسائٹی، دفاعی تجزیہ کاروں، دانشوروں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں اب احساس کرنا ہوگا کہ کچھ اثاثے بوجھ بن گئے ہیں، یہ احساس بھی اس دن پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں جنہیں سدھارنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ دنیا اگر ہم پر دباؤ ڈال رہی ہے تو ہمیں اس دباؤ کو قبول کرنا چاہیے۔ اس دن کو ضرور منانا چاہیے لیکن خطے میں امن و سلامتی کے لئے بھارت اور افغانستان سے تعلقات بھی بہتر کرنے چاہیے، اب سویلین قیادت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی وقت کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہوگا۔

اس ملک میں ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے، ستر ہزار جانیں گئیں، دنیا بھی ہم سے فاصلہ بڑھا رہی ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس دن یہ بھی سوچیں کہ جو جنگ کی بات کرے گا، دنیا سے لڑنے کی بات کرے گا، صرف وہی محب وطن نہیں ہوتا، وہ جو امن، محبت اور ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں، وہ بھی محب وطن اور ملک کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اب اس ملک کو نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔

یہ بھی سوچیں کہ ہم ساڑھے آٹھ ارب کا قرضہ لیتے ہیں، پچاس فیصد سے زیادہ رقم بیرون ملک قرضوں کے سود کی مد میں دیتے ہیں، پھر کیسے ہم جنگ برداشت کر سکتے ہیں؟ اب ہمیں دنیا کو اپنا دوست بنانا ہوگا، ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا، صرف ایٹم بم مسائل کا حل نہیں ہے، کیا کہیں ایسا تو نہیں وہ ایٹم بم جس نے ہمارا تحفظ کرنا تھا، اب ہم سب مل کر اس کا تحفظ کر رہے ہیں، اس بارے میں بھی چھ ستمبر کے دن سوچنے کی ضرورت ہے۔ روس کے پاس بھی ایٹم بم تھا لیکن وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، ایسا کیوں ہوا، اس پر بھی چھ ستمبر کے دن سوچنے کی ضرورت ہے۔

اب ہمیں ہر دوسری بات ایٹم بم سے شروع نہیں کرنی چاہیے ہیں۔ اب بم اور جنگ کو ایک طرف رکھیں اور دنیا سے محبت، دوستی اور پیار بڑھائیں، چھ ستمبر کو یہ بھی سوچیں کہ پاکستان کی اکانومی کو کیسے ٹھیک کیا جائے، اب جنگجویانہ ریاست، معاشرے، سیاست اور روایات کا زمانہ نہیں رہا، زمانہ بدل گیا ہے، اس دن یہ بھی سوچیں؟ ہم چند انتہا پسند گروپوں کی خاطر پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ سویلین اور نہ اور فوجی مرنے کے لئے پید نہیں ہوئے، ہم سب کو زندہ رہنا ہے اور بھرپور انداز میں زندگی کو انجوائے کرنا ہے۔ پاکستان کو جن قوتوں سے خطرہ ہے وہ اندرونی ہیں اس لئے اپنے گھر کو صاف کرنا ہوگا۔ ٹھیکیداروں کو درست کرنا ہوگا، ہم بیس ارب کا مال تیار کرتے ہیں، پچاس ارب کا مال خریدتے ہیں، یہ حالت ہے ہماری اکانومی کی۔ بارش آ جائے تو شہر مفلوج ہو جاتے ہیں، یاد رکھیں خطرات بنیادی طور پر اندرونی ہوتے ہیں، اس لیے چھ ستمبر کے دن اس حوالے سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم دہشت گردی، انتہا پسندی، نان اسٹیٹ ایکٹرز کی وجہ سے تنہا ہو رہے ہیں، اس لئے اب ان سے نمٹنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ پاکستان کی فارن پالیسی سچ، حقیقت اور جدید تقاضوں سے مزین ہونی چاہیے، ہمارا ملک اندرونی طور پر مضبوط ہوگا تو کسی کو جرات نہیں ہو سکے گی کہ وہ ہمیں کمزور کرسکیں۔ معیشت مضبوط ہوگی، انصاف کا نظام بہتر ہوگا تو کوئی بھی بیرونی سازش ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ جو تشدد پسند ہیں، ان کی وجہ سے ریاست کا یہ حال ہے۔

یہ لوگ اندر بیٹھے ہیں، ان کی وجہ سے ستر ہزار پاکستانیوں کی جانیں گئی ہیں، ان کی وجہ سے ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ہیں، ان تشدد پسند اور تشدد پرست جنگجو ذہنیت کی وجہ سے دنیا ہم سے خوف زدہ ہے، اس لیے ہمیں بہتر پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ چھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو ترپن سال بیت گئے، بہت کچھ بدل گیا، اب پاکستان کو بھی بدلنا ہوگا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں، دفاعی طور پر مضبوط ہیں، لیکن روس کی مثال ہمارے سامنے ہے؟

دفاع کے لئے ایٹم بم کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت زیادہ فیکٹرز ہوتے ہیں، ہم ہمیشہ سیکیورٹی اسٹیٹ نہیں رہ سکتے، اب ہمیں فلاحی ریاست کے نظریے کی طرف تیزی سے سفر کرنا ہوگا۔ انسانوں پر فوکس کرنا ہوگا۔ پاکستان دو سو آٹھ ملین کا ملک ہے، ان کو پانی، روٹی، گھر اور اچھی زندگی دینی ہوگی، یہ ان کا حق ہے، یہ صرف مرنے اور ذلیل ہونے کے لئے پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ جب ان کے پاس روٹی کپڑا مکان تعلیم صحت اور روز گار نہیں ہوگا، تو یہ پھر ایٹم بم اور ہتھیاروں کا کیا کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج اور دفاع کا نظام مستحکم ہونا چاہیے ورنہ لیبیا کے قذافی کا انجام ہمارے سامنے ہے، لیکن اور بھی بہت عناصر ہیں۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے نظریے میں نقائص ہیں؟

جنگجو ریاست، جنگجو معاشرے، جنگجو سماج، جنگجو ماحول سے اب ہمیں عوامی سلامتی، عوامی فلاح و بہبود کی طرف آنا ہوگا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ عوام کی سلامتی کا نظریہ برباد ہو گیا ہے۔ خوراک نہیں، رہائش نہیں، تعلیم نہیں، پھر ایسی ریاست میں وہی ہوگا جو ہونا چاہیے۔ انیس سو پینسٹھ میں فوج مضبوط تھی قوم بھی مضبوط تھی، یہ سب کہتے ہیں، پھر کیوں انیس سو اکہتر میں پاکستان ٹوٹ گیا؟ چھ ستمبر کے دن سول اور فوجی قیادت کو یہ بھی سوچنا چاہیے؟

اب طاقتوروں کو انا کی قربانیاں دینی ہوں گی، جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان آج بھی اپنے بچوں کی تعلیم پر سب سے کم پیسے خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر بچے کو مفت لازمی تعلیم دی جائے گی، کیا ایسا ہورہا ہے؟ پاکستان کے آئین میں وعدہ کیا گیا تھا کہ سب کو مساوی تعلیم دی جائے گی، لیکن آج اس ملک میں کئی اقسام کے اسکول، نظام تعلیم ہیں۔ اشرافیہ کے بچوں کے لئے اور اسکول ہیں جہاں تمام سہولیات ہیں۔ متوسط طبقے کے لئے اور نظام تعلیم ہے۔ غریب بچوں کے لئے سرکاری اسکول ہیں جہاں پانی ہے، نہ فرنیچر ہے، نہ ٹیچرز ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا ڈسپلن۔

وہ جو انتہائی غریب ہیں، جو فٹ پاتھوں پر جانوروں سے بھی بدترین زندگی گزار رہے ہیں، ان کا کوئی وارث نہیں۔ یہ تو حالت اس ملک کی اور دنیا بھی ہمیں الگ تھلگ کر رہی ہے، اس لئے اب ہمیں سوچنا ہوگا، امید ہے اگلے چھ ستمبر تک ہم ان تمام باتوں پر ضرور سوچیں گے اور نئے بیانیے کے ساتھ ملک کو بہتر اور معیاری بنانے کی کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).