پرناب مکرجیــ: موجودہ دور کا چانکیہ چلا گیا


غالباً 1998میں، میں نے نئی دہلی میں پارلیمنٹ کی کارروائی کو بطور رپورٹر کور کرنا شروع کردیا۔ دو سال بعد ہر ہفتے پریس گیلری پاس کی تجدید کی کوفت سے بچنے کیلئے جب میں نے اس کو مستقل یا سالانہ کرنے کی درخواست دی، تو معلوم ہوا کہ نئے ضابطوں کے مطابق اسکے لئے پارلیمنٹری رپورٹنگ کا کورس کرنا پڑیگا۔ پارلیمنٹ ہاوس کے بغل میں ہی لائبریری کی وسیع و عریض بلڈنگ میں بیورو آف پارلیمنٹری اسٹڈیز اینڈ ٹریننگ کے تحت سال 2000کے بیچ میں ، میں نے بھی نام کا اندراج کروادیا۔

ہمارے بیچ کے تقریباً سبھی صحافی ، بس پاس حاصل کرنے کی لالچ میں کسی طرح کورس ختم کرکے سرٹیفیکیٹ لینے کی فراق میں تھے، مگر کلاس میں ایک استاد نے ایسے نقوش چھوڑے ، جو برسوں بعد بھی ذہن میں پیوست ہیں۔یہ استاد ،بھارت کے سابق صدر پرناب کمار مکرجی تھے، جن کا پچھلے ہفتے 85 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انکو موجودہ دور کا چانکیہ اور سیاست کی غلام گردشوں کا اندرونی رازدار کہنا بے جا نہ ہوگا۔

وہ ان دنوں راجیہ سبھا میں کانگریس پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بیورو آف پارلیمنٹری اسٹڈیز کی فیکلٹی کے رکن بھی تھے، جہاں وہ نئے اراکین پارلیمان اور صحافیوں کو پارلیمانی نظام کے پیچ و خم سکھاتے تھے۔ ہماری کلاس میں ان کا موضوع ،بجٹ بنانے کا فن ، اسکی قانونی اور آئینی افادیت کے علاوہ پارلیمانی ضابطہ اور کارروائی کے لئے رائج طریقہ کار تھا۔ ان کا لیکچر کچھ ایسا ہوتا تھا جیسے علم کا ایک دریا بہہ رہا ہو۔

امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کے پارلیمانی ضابط ان کی نوک زبان پر تھے۔ جنوبی امریکہ کے ممالک چلی، ارجنٹینا، یا یورپ یا ایشیا کا کوئی بھی ملک ہو، اس ملک کی پارلیمنٹ ، اس کے رولز اور طریقہ کار ان گنت قصوں کے ساتھ وہ ایسے بیان کرتے تھے، شاید ان ممالک کے جید پارلیمنٹ ممبران بھی نہ کرسکیں۔ مگرکلاس میں ان کا رویہ ایک پرائمری اسکول کے ٹیچر جیسا تھا۔ مشفق مگر سخت نظم و ضبط کے قائل۔

دیر سے آنا، یا کلاس میں کسی اسٹوڈنٹ کی عدم دلچسپی ان کا موڈ خراب کردیتی تھی۔ اور جب ان کا موڈ خراب ہوتا تھا ،تو الامان۔ ان کے پل پل بدلتے درشت اور مشفق رویہ سے ایک عرصے کے بعد جیسے اسکول کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔

2004میں اٹل بہاری واجپائی حکومت کی حیران کن شکست کے بعد جب کانگریس کی قیادت میں متحدہ ترقی پسند اتحاد کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی، تو افواہوں کا بازار گرم تھا کہ صدر ابولبرکات زین العابدین عبدالکلام نے اطالوی نژاد ہونے کی وجہ سے سونیا گاندھی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارٹی سے کسی اور کو وزارت اعظمیٰ کیلئے نامزد کریں۔ سیاسی امور کور کرنے والے رپورٹرز کیلئے یہ چوائس پرناب مکرجی یا ارجن سنگھ پر ختم ہو جاتی تھی۔ مگر سونیا گاندھی نے من موہن سنگھ کو نامزد کرکے سبھی کو محو حیرت میں ڈال دیا۔

من موہن سنگھ بطور بیوروکریٹ وزارت مالیات اور پلانننگ کمیشن میں مکرجی کے ماتحت کام کر چکے تھے۔ گاندھی کے اس قدم کی توضیح 2009 کے بعد سمجھ میں آنا شروع ہوگئی۔ دراصل انکو وزیر اعظم کیلئے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی، جو ان کے صاحبزادے راہول گاندھی کیلئے سیٹ تیار رکھے۔مکر جی کی صورت میں ایسا ناممکن تھا، گو کہ وہ بھی اس وقت پہلی بار عام انتخاب کے ذریعے مغربی بنگال کے مسلم اکثریتی حلقے جنگی پور سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہو گئے تھے، ورنہ 1969سے وہ راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کے رکن تھے۔

2012میں ان کے صدر منتخب ہونے سے قبل کئی کانگریسی لیڈروں نے سونیا گاندھی کو مشورہ دیا تھا ، کہ من موہن سنگھ کو صدراتی امیدوار نامزد کرکے مکرجی کووزیر اعظم بنایا جائے۔ وجہ یہ تھی کہ 2011کے بعد سے ہی بھارت کا کا رپوریٹ طبقہ حکومت سے بدکا ہوا تھا، اور وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو بزنس فرینڈلی وغیرہ ثابت کرواکے اسکو وزیر اعظم بنوانے پر تلا ہوا تھا۔ درون خانہ خبریں تھی کارپوریٹ گھرانوں نے پیغام بھیج دیا تھا کہ مکرجی کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں وہ مودی کی حمایت سے ہاتھ کھنچ سکتے ہیں۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی کو یہ رائے راس نہیں آئی۔

اس سے قبل یہ تجویز زور پکڑتی اورراہول گاندھی کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں آڑے آتی، مکرجی کو صدراتی امیدار نامزد کر دیاگیا۔ خیر یہ تیسری بار تھا ، جب وزارت اعظمیٰ کی کرسی ان کو چھو کر گذری تھی۔ 1982 سے 1984 تک وہ اندرا گاندھی کی کابینہ میں وزیر مالیات کے علاوہ ان کی غیر موجودگی میں کابینی میٹنگوں کو چیئر بھی کرتے تھے۔ شاید اس وجہ سے گاندھی کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے آپ کو ان کو جانشین سمجھتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ راجیو گاندھی کی نظروں سے اتر گئے ۔

انہوں نے کانگریس چھوڑدی ، مگر پانچ سال بعد واپس آگئے۔ اکثر نجی ملاقاتوں میں وہ بتاتے تھے، کہ ان پانچ سالوں کے دوران انکو احساس ہوگیا کہ وہ ممتا بنرجی کی طرح ایک عوامی لیڈر نہیں بن سکتے ہیں۔جب ان کو چھیڑتے تھے کہ منموہن سنگھ تو آپ کے ماتحت ایک افسر تھے۔ مگر اب آپ انکے وزیر ہیں۔ تو وہ بس مسکراتے تھے۔ آخر وہ وزیر اعظم کیوں نہیں بن پائے؟ تووہ کہتے “میری ہندی اچھی نہیں تھی نا، اس لیے میں وزیر اعظم نہیں بن سکا۔”

راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد 1990 میں نرسمہا راو ٰ کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی اقتدار میں واپسی ہوئی، تو جب وزراء کے ناموں کا اعلان ہوا، تو اس میں مکرجی کا نام نہیں تھا۔ بقول ان کے و ہ بار بار لسٹ دیکھ رہے تھے، کہ کہیں ان کی نظریں دھوکہ تو نہیں دے رہی ہیں۔ تعجب تو تھا کہ اس لسٹ میں من موہن سنگھ کا نام تھا، جن کو انہوں نے ہی ریزور بینک کا گورنر مقرر کیا تھا۔ خیر چند ماہ بعد راو ٗ نے انکو پلاننگ کمیشن کا ڈپٹی چیرمین مقرر کردیا۔

پہلی بار ان کا وزیر بننے کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رے نے 1969 میں اپنے کسی حریف کا پتہ کاٹنے کیلئے 38 سالہ مکرجی کو راجیہ سبھا کا ممبر بنا کر بھیجا تھا۔ 1973میں کابینہ میں توسیع ہو رہی تھی۔ آخری وقت صدارتی محل یا راشٹرپتی بھون میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بتایا گیا کہ وزیروں کی تعداد نحس ہے، یا تو اس میں ایک کم کردیا جائے یا کسی ایک اور فرد کو بھی حلف دلاکر وزارتی ٹیم میں شامل کیا جائے۔

اپنے والد جواہر لال کے برعکس اندرا گاندھی خاصی توہم پرست خاتون تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ مہمانوں میں کسی پارلیمنٹ ممبر کو تلاش کرکے اس کو بھی حلف لینے والوں میں شامل کیا جائے۔ شاید اس وقت سامعین میں مکرجی اکیلے ممبر پارلیمنٹ تھے، جو حلف برداری کی تقریب کو دیکھنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ اندرا گاندھی نے انکو ڈپٹی وزیر مقرر کردیا، مگر جلد ہی اپنی کارکردگی کی وجہ سے ان کی نظروں میں آکر وہ وزیر مملکت اور بعد میں کابینی وزیر مقرر ہوگئے۔

من موہن سنگھ کے دور اقتدار میں مکرجی گو کہ کابینی وزیر تھے، مگر عملاً وہ وزیر اعظم سے کم نہیں تھے۔ رپورٹروں کیلئے وہ خبروں کا منبع تھے۔ کیونکہ ایک وقت میں وہ مختلف امور پر بنائے گئے 58 وزارتی گروپوں کے سربراہ تھے۔ اسکے علاوہ انکو اپنی منسٹری کے ساتھ ساتھ پارٹی امور بھی دیکھنے پڑتے تھے۔ چونکہ یہ ایک مخلوط حکومت تھی، اسلئے اتحادیوں و اپوزیشن کو منانے کا کام بھی ان کی ہی ذمہ داری ہوتی تھی۔ دیر رات گئے تک ہم ٹالکٹورہ روڑ پر ان کے گھر کے باہر ڈیرا جمائے خبریں تلاش کرتے تھے۔

اپنی وزارت کا کام ختم کرنے کے بعد ان کے گھر پر سیاسی دائو پیچ کے کھیل شروع ہوتے تھے۔ ایک سیینئر وزیر ہونے کی باوجود ، انہوں نے ایک چھوٹے سے گھر میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی، جو ان کو بطور پارلیمنٹ ممبر کئی دہائی قبل رہائش کیلئے دیا گیا تھا۔ وہ اس مکان کو خوش قسمتی کی علامت سمجھتے تھے۔

رپورٹروں کی بھیڑ اور پرائیوسی میں مداخلت کی وجہ سے وہ کئی بار اپنا آپا کھو دیتے تھے۔ ایک با ر جب وہ ایک فوٹو جرنلسٹ سے ناراض ہوئے، تو ایک استاد کی طرح اس کے کان کھنچ کر اسکو گیٹ کے باہر چھوڑ کر آگئے۔ ایک رات جب ہم چند رپورٹر ان کے گھر پر اسی طرح خبر کی تلاش میں پہرہ دے رہے تھے ،تو خود باہر آکر انہوں نے سبھی کو ڈرائینگ روم میں بلاکر خوب خاطر تواضع کی۔ جس کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد ان کی بات چیت سے عقدہ کھلا، جب انہوں نے مشرقی ریاست بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کا ذکر چھوڑا اور باری باری کانگریس پارٹی کے چانسز اور لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مفاہمت کے فائدوں کے بارے میں جاننے لگے۔

2007 میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان امن مساعی عروج پر تھی، میں ان دنوں پاکستان کے ایک انگریزی جریدہ کیلئے بھی لکھتا تھا۔ ایک روز مدیر اعجاز حیدر کا فرمان ہوا کہ بھارت۔پاکستان تعلقات کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن کیلئے بھارتی وزیر خارجہ پرناب مکرجی کا انٹرویو درکار ہے۔ کئی ہفتوں تک وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر کے چکر کاٹ کر اور سوالنامہ بھیج کر بھی کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ میں نے ایک دن ان کے پرائیوٹ سیکرٹری جن کا نام بھی مکرجی تھا کو فون کرکے انٹرویو کی درخواست کی۔ انہوں نے بھی ترجمان کے دفتر سے رابط کرنے کا مشورہ دیا اور فون رکھ ہی رہے تھے، کہ میں نے درخواست کی کہ وہ بس پیغام پرناب د ا تک پہنچائیں۔

ان کا پرائیوٹ سیکرٹری سبھی افراد کے فون کالز کا ریکارڈ رکھ کر ان کو ڈنر کے وقت پیش کرتا تھا۔ رات گئے مجھے بتایا گیا کہ اگلے روز ان کے دفتر آکر انٹرویو ریکارڈ کروں۔طے ہوا تھا کہ 20منٹ میں مجھے انٹرویو ختم کرنا ہے۔ اسلئے ان کے سائوتھ بلاک دفتر میں ، میں سوال کرتے ہوئے بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سوالات کرنے کے فراق میں تھا۔ میری اس ہڑبڑاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ، پرناب مکرجی گویا ہوئے۔ـ’’نوجوان، گھڑی کی طرف مت دیکھو۔ اپنے سوالات کی طرف توجہ مرکوز رکھو۔‘‘

ایک گھنٹہ سے زائد چلنے والے ا س انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ جموں و کشمیر سمیت دیگر ایشوز پر بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ عرصے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور کافی عرصے کے بعد فریقین نے کھل کر ایشوز کو حل کرنے کی خاطر کھل کر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر مسئلہ کو ر ریفریجیٹرمیں رکھا گیا ہے اور اس کو باہر نکالنے سے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور کیا ان حالات سے نمٹا جا سکتا ہے یا کہیں اس سے خطے میں مزید عدم استحکام تو پیدا نہیں ہوگا؟ اسطرح کے خدشات ہیں، جن سے نہ صرف بھارت، بلکہ عالمی لیڈرشپ بھی خائف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر اعتماد کی فضا قائم ہوجاتی ہے، تو اسطرح کے خدشات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 26نومبر 2008کو جب ممبئی پر دہشت گردانہ حملے شروع ہوئے ، تو مکرجی، پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ہمراہ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاوس کے ہا ل میں کئی گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اگلے روز دونوں لیڈران خصوصی طیارہ کے ذریعے چندی گڑھ روانہ ہو رہے تھے۔

قریشی تو کسی کسان کانفرنس کو خطاب کرنے والے تھے، مکرجی چندی گڑھ تک ان کے ہم رقاب تھے، تاکہ جہاز میں غیر رسمی طور پر صدر پرویز مشرف کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد امن مساعی کو دوبارہ پٹری پر لانے کیلئے راہ ہموار کرلیں۔اس پریس کانفرنس کی خبر فائل کرنے جب ہم آفس پہنچے تو پورا ماحول تبدیل ہوچکا تھا۔ اس وقت بھارتی سیکرٹری خارجہ اسلام آباد میں تھے۔ انکو حکم ہوا کہ وہ فوراً دہلی واپس آ پہنچیں۔ مگر قریشی صاحب کسی بھی طور پر اپنی مصروفیات چھوڑ کر یا کم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے انکو اشارے دئے جا رہے تھے کہ وہ اپنا دورہ ختم کرکے واپس چلے جائیں۔

چندی گڈھ کے بعد ان کو دہلی واپس آکر خواتین پریس کلب میں لیکچر بھی دینا تھا۔ خیر جب و ہ خواتین پریس کلب کے چھوٹے سے ہال میں پہنچے، تو بھیڑ کی وجہ سے سیٹ نہ ملنے پر میں آگے ان کی کرسی کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ان کی تقریر شروع ہو ہی رہی تھی، کہ ان کے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ انہوں نے فون ہائی کمشنر کے سپرد کرکے ہدایت دی کہ یہ پرناب مکرجی کا فون آرہا ہے ۔ ان کو بتائیں کہ میں میٹنگ کے بعد کال کرونگا۔

چند لمحے کے بعد ہائی کمشنر نے واپس آکر بتایا کہ وہ فوراً بات کرنا چاہتے ہیں۔ کلب کی منتظم جیوتی ملہوترا نے پاس کا ایک کمرہ خالی کرواکے قریشی کو لے گئیں، جہاں انہوں نے مکرجی سے بات کی۔ واپسی پر ان کی باڈی لنگویج بالکل مختلف تھی۔ مکرجی نے ان کو بتایا کہ وہ فی الفور اپنا دورہ ختم کرنے واپس چلے جائیں اور اسلام آباد جانے کیلئے خصوصی طیارہ کی بھی پیشکش کی۔ بعد میں ایک بار مکرجی نے کہا کہ وہ فون اسلئے جلدی کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس وقت جودھ پور کے ہوائی اڈے پر تھے، اور وہ دہلی کیلئے روانہ ہونے والے تھے۔

اگلے دہ گھنٹے تک وہ پھر فون پر رابطہ نہیں کرسکتے تھے۔ وزیر اعظم نے ان کو ہدایت کی تھی کہ سفارتی آداب کا لحاظ کرکے قریشی کو واپس جانے کا مسیج دے دیں۔ اسی رات قریشی پاکستانی فضائیہ کے ایک خصوصی طیارہ کے ذریعے واپس چلے گئے۔ ان کا واپسی کا سفر بھی کچھ کم ڈرامائی نہیں تھا۔ دیر رات ، کسی نے مکرجی کے نام سے پاکستانی صدر آصف علی زردار ی کو فون پر جنگ چھیڑنے کی دھمکی دی۔ جس کے بعد پاکستانی فضائیہ کو فی الفور وزیر خارجہ کو دہلی سے واپس لانے کا حکم دیا گیا۔

مکرجی کا کہنا ہے کہ ان کا اس واقعہ کا علم اس وقت ہوا کہ جب صبح تین بجے ان کا جگا کر بتایا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس ان سے فوراً بات کرنا چاہتی ہے۔ عین پریس کانفرنس کے دوران قریشی کو کال کرنا اور بعد میں ان کے نام سے کسی کا زرداری کو فون سے کسی اسٹرائک کا پلاٹ مکمل ہوگیا تھا۔ جس سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ب

طور وزیر خارجہ علی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 2007 کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے بحث ، مباحثہ، منطق اور دلائل سے اسلام کی ترویج کی ۔ اس مذہب کی یہی خوبی ہے کہ یہ جادو ، ٹونا، اساطیری کہانیوں سے نہیں بلکہ دلائل سے پھیلا ہے اور ا پنے ماننے والوں کے دلوں میں جگہ بنایا پایا ہے۔

2012میں عہدہ صدرات پر فائز ہوگئے۔کے آر نارائینن کے بعد وہ پہلے ایسے صدر تھے، جو حکومتی ربر اسٹیمپ کے بجائے اپنا دماغ بھی استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے اس عہدہ کی ذمہ داری باوقار طریقے سے نبھائی۔ ہاں صدرکے عہدہ سے سبکدوش ہونے کے بعد جب انہوں نے ہند و قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے دفتر جانا منظور کیا تو ان کے کئی دوستوں کو جھٹکا لگا۔ابھی ان کی سوانح حیات کی تیسری جلدکا انتظا ر ہے ۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اس جلد کو انکی وفات کے بعد ہی شائع کیا جائے۔

الوداع پرناب دا۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).