کراچی یاترا، بس یا ٹرین، دو مختلف سفری تجربات


ایک زمانہ تھا پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے زمینی راستے سے کراچی آنے جانے کے لئے زیادہ تر ٹرین ہی استعمال ہوتی تھی۔ بس کا سفر مختلف وجوہات کی بنا پر بہت مشکل سمجھا جاتا تھا اور کوئی ایسی ”غلطی“ کر بیٹھتا تھا تو اس کو لوگ حیرانی سے دیکھتے تھے کہ یہ بس پر کراچی جا رہا ہے۔ ان مختلف وجوہات میں سڑکوں کی ابتر صورتحال، لمبے فاصلے کی وجہ سے تھکاوٹ، وقت کا ضیاع، بسوں کا آرام دہ نہ ہونا اور راستے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کا خوف، خاص طور پر سندھ کے جنگلات میں پائے جانے والے ڈاکو اس معاملے میں دوسرے علاقوں سے زیادہ خطرناک تھے۔

ٹرین میں ڈاکا ڈالنا بس کی نسبت مشکل ہوتا ہے، اس لئے رات کے وقت کئی بار بسیں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جاتیں اور لوگ اس وجہ سے بس کے سفر سے جتنا ممکن ہو بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور یہ بھی کہ ان دنوں ٹرینوں کا انتظام نسبتاً بہتر تھا۔ ہم نے بھی کراچی کے جو چند ایک سفر کیے وہ بذریعہ ٹرین ہی کیے۔ دوست احباب کو بھی یہی مشورہ ہوتا تھا کہ اتنا لمبا سفر ٹرین ہی سے کریں تو بہتر ہے۔

اب حالات بدل چکے ہیں۔ سڑکوں کی صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے۔ پشاور اور لاہور سے سکھر تک موٹر وے کی سہولت نے بس کے ذریعے کراچی آنا اور جانا اب اور بھی آسان کر دیا ہے۔ بسیں بھی نہایت آرام دہ ہو گئی ہیں۔ کوئٹہ سے کراچی تک تو اب ایسی بسیں بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں جن میں سونے کے لئے بستر بھی مل جاتے ہیں۔ اور شہروں سے ایسی ہی بس سروس کی خبریں بھی مل رہی ہیں۔ ڈاکوؤں کے خطرات بھی اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بسوں کی بہت سی کمپنیاں رواں دواں ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات مسافروں کا بھلا بھی ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسلام آباد سے کراچی جانے والا بھی بس پر سفر کرنا کوئی مشکل نہیں سمجھتا۔

بسوں کی ان سہولیات کے باوجود ٹرینیں بھی چل رہی ہیں۔ اگر چہ ٹرینوں کا نظام وہ نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ ٹرینوں پر اب بھی سفر کرتے ہیں۔ ریلوے نے کچھ جدید اور تیز رفتار ٹرینیں بھی چلائی ہیں، جس سے لوگوں کو کافی سہولتیں ملی ہیں، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک عزیز نے ملتان سے کراچی جانا تھا۔ اس سے پہلے وہ کراچی کے دو سفر ہمارے ٹرین کے اصرار کے باوجود بس کے ذریعے کر چکے ہیں۔ اب کی بار ہم نے حسب معمول پھر ٹرین کے حق میں دلائل دیے تو وہ راضی ہو گئے۔ ریلوے نے آن لائن بکنگ کی سہولت بھی دے رکھی ہے، جو آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے۔ گھر بیٹھ کر سیٹ بک کروا لی گئی۔ سفر کو زیادہ آرام دہ بنانے کے لئے عام درجے کی بجائے تین گنا زیادہ پیسے ادا کر کے اچھے درجے کی ٹکٹ حاصل کی گئی۔

ملتان سے سفر شروع ہوا تو ہم نے دو قسم کی دعائیں شروع کر دیں : ایک تو یہ کہ وہ خیر خیریت سے کراچی پہنچ جائیں اور دوسری یہ کہ جن خدشات کی بنا پر وہ ٹرین کے سفر سے اجتناب کرتے ہیں، وہ پورے نہ ہو جائیں۔ ٹرین پنڈی سے آئی تھی اور ملتان وقت پر ہی پہنچی اور تقریباً وقت پر ہی روانہ ہوئی۔ پاکستان ریلوے نے بکنگ کی ایپ کے علاوہ ایک اور ایپ بھی متعارف کروا رکھی ہے، جس کے ذریعے لوگ آن لائن ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں کہ کون سی ٹرین اس وقت کس رفتار سے کون سے علاقے سے گزر رہی ہے، اگلا اسٹیشن کون سا ہے، وہاں کب پہنچے گی اور یہ بھی کہ یہ اپنے معمول کے وقت سے کتنی لیٹ ہے۔

یہ یقیناً ایک زبردست ایپ ہے جس کے ذریعے مسافر اور گھر والے دونوں جب چاہیں یہ معلومات لے سکتے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے بہت سے ٹرینیں بند کی ہوئی ہیں اور جو ٹرینیں چل رہی ہیں، ان کے سٹاپ بھی کم کیے ہوئے تھے۔ اس ایپ کے مطابق اس ٹرین نے لاہور کے بعد ملتان رکنا تھا، اس کے بعد روہڑی، حیدر آباد اور پھر کراچی۔ سٹاپ کم ہونے کی وجہ یہ بھی اطمینان تھا کہ سفر آرام دہ بھی گزرے گا اور ٹرین وقت پر منزل مقصود پر بھی پہنچ جائے گی۔

ہمارے عزیز خوش خوش ملتان ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے ٹھنڈے ٹھار کیبن میں بیٹھ گئے کہ ٹرین وقت پر پہنچی ہے، وقت پر روانہ ہو رہی ہے اور اسی طرح باقی سفر بھی اچھا گزرے گا۔ اسٹیشن سے نکلتے ہی ڈائننگ ٹیبل پر پانی کی بوتل نکال کر رکھی تو میز کی ایک سائیڈ ٹوٹی ہوئی ملی۔ خوش قسمتی سے مرمت کرنے والا بھی ٹرین کے ساتھ ہی تھا، اس کو بلا کر مرمت کروا لی گئی۔ اب یہ خوش کہ اگلا سٹاپ روہڑی ہو گا، لیکن اس نے بہاول پور سے ہی رکنا شروع کر دیا۔

مسافروں کو اترنے اور سوار ہونے کی سہولت اگر چہ صرف ایپ پر موجود اسٹیشنوں پر ہی تھی، لیکن روہڑی تک جاتے جاتے وہ بہت سے اسٹیشنوں پر رکتی گئی اور اپنے معمول کے وقت سے لیٹ ہوتی گئی۔ باتھ روم میں لوٹے کی جگہ پلاسٹک کی بوتل سے ملاقات رہی۔ بوگی کی عمومی صورتحال بھی کوئی تسلی بخش نہیں تھی۔ یعنی وہ خدشات جس کی وجہ سے مسافر ٹرین کے سفر سے بدکتا تھا، وہ آہستہ آہستہ سر اٹھا رہے تھے۔ ادھر ہم ٹریکنگ ایپ سے جڑے سوچ رہے تھے کہ ادھر ہمیں کوسنے کا عمل جاری ہوگا کہ موصوفہ لیٹ سے لیٹ ہوتی جا رہی تھی۔

پھر بھی تسلی تھی کہ رکتے رکتے چلی جا رہی ہے، بالآخر منزل مقصود تک پہنچ ہی جائے گی۔ لیکن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ حیدر آباد پہنچنے سے پہلے ایک گمنام سے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین جو رکی تو پھر گھنٹوں رکی ہی رہی۔ ایپ پر تمام ڈاؤن (کراچی جانے والی) ٹرینیں چیک کیں تو سب کی سب کسی نہ کسی اسٹیشن پر رکی ہوئی تھیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ حیدر آباد سے آگے کسی اسٹیشن پر کوئی مقامی ٹرین پٹڑی سے اتر گئی تھی، جس کی وجہ سے سب ٹرینیں گھنٹوں لیٹ ہو گئیں۔ قصہ مختصر مقررہ وقت سے چھ سات گھنٹے لیٹ کراچی پہنچے اور مستقبل قریب میں ٹرین کے سفر سے توبہ کی اور ٹرین کے حق میں ہمارے دلائل کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔

اب وہ ایک ماہ بعد کراچی سے بس کے ذریعے ملتان واپس آئے ہیں۔ بس کی بھی گھر بیٹھے آن لائن بکنگ ہو گئی۔ بس والوں نے ٹرین سے کم کرائے پر راستے میں کسی ہوٹل پر رک کر مسافروں کی پسند (دال، سبزی، بریانی اور قورمہ) کا رات کا کھانا بھی دیا اور ملتان کے قریب ناشتہ بھی کروایا، یعنی اسی ٹکٹ کے پیسوں میں۔ سکھر سے موٹر وے شروع ہو جاتا ہے جس سے سفر بہت آرام دہ ہو گیا ہے اور وقت بھی پہلے سے بہت کم لگتا ہے۔ یا د رہے کہ کراچی سے حیدرآباد تک بھی موٹر وے ہے۔ اب سکھر سے حیدرآباد تک موٹر وے کا منصوبہ بھی سی پیک کے تحت زیر غور ہے۔ اس کے بعد بس کا سفر اور بھی آسان ہو جائے گا۔ ٹرینوں میں سہولتوں کا معیار اگر یہی رہا تو ایم ایل ون ( ابھی آٹھ دس سال لگیں گے ) مکمل ہونے کے باوجود ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).