عزت ہے تو صرف ایک کامیاب فراڈیے کی


بڑے اعتماد کے ساتھ دفتر پہنچا۔ سامنے جیٹ کی طرح میز کے پیچھے ایک محترم صاحب بڑی سی گھومتی کرسی پہ براجمان تھے۔ پہلے تو شک ہوا غلطی سے جو در چھوڑ کے ریسرچر بنے تھے۔ بھٹک کے دوبارہ اسی آٹھ سے چار والی کسی کمپنی میں آ گے ہیں۔ ہمیں عینک ضرور لگی ہے مگر داخل ہوتے ہوئے ہم نے ڈاکٹر ع غ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ دال فے عین پڑھا تھا۔ محترم مکرم کی گردن کے سریے کو دیکھ کے ہمارا تذبذب بڑھتا جا رہا تھا کہ غلط جگہ گھس گے ہوں۔

اسی دوران کڑک دار آواز آئی، جی کدھر آئے ہیں۔ ابھی جواب ہمارے حلق میں تھا، کہ صاحب نے تیزی کے ساتھ ہاتھ گھنٹی کی طرف لپکایا۔ ہمیں لگا آج تو دبا کے کٹاس ہو گی۔ خیر اللہ بھلا کرے نائب قاصد کا جس نے ہمارے حصے کی ڈانٹ کھائی۔ بلکہ ایسے موقع پہ وہ مثال یاد آ گئی۔ کہنا بیٹی کو سمجھانا بہو کو ۔ نائب قاصد ہمیں باہر لے گیا اور کہا صاحب بہت غصے کے سخت ہیں۔ آپ باہر بیٹھیں میں دس منٹ کے بعد صاحب کو آپ کے بارے میں بتاتا ہوں۔

نائب قاصد چلا گیا تو مجھے موقع مل گیا تا کہ کنفرم کر سکوں میں ایک یونیورسٹی اور ریسرچر کے پاس آیا ہوں کہ کسی کمپنی کے تھرڈ کلاس بیوروکریٹک رویے والے صاحب کے پاس۔ شکر ہے کم از کم مجھے دوبارہ ناموں کی پڑتال سے پتہ چلا کہ ہم درست جگہ پہ ہیں۔ اب یہ کنفرم کرنا باقی تھا کہ یہ سریا زدہ شخص بھی درست جگہ پہ ہے۔ انہیں خیالوں میں مجھے اپنی پی ایچ ڈی سپروائزر یاد آ گئی۔ جو ڈیپارٹمنٹ کی ڈین بھی ہے۔ پہلی دفعہ میٹنگ ہوئی تو وقت مقرر پہ جب میٹنگ پہ پہنچا تو پروفیسر نے ایک مکمل ہائی ٹی کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ جو پروفیسر صاحبہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی۔

ہماری میٹنگ بہترین طریقے سے مکمل ہوئی۔ پروفیسر نے ایک عنوان دیا اور ہفتہ وار اس پہ ڈسکشن کا وقت مقرر کر لیا گیا۔ اس کے بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب میٹنگ ختم ہونے کے بعد پروفیسر صاحبہ نے اپنے کمرے میں جھاڑو اور ڈسٹر پھیرنا شروع کیا۔ کچھ وقت میں حیرت زدہ کھڑا رہا۔ پھر میں نے پروفیسر کی مدد کے لیے آگے گیا تو انہوں کہا کہ پیچھے کھڑے رہو یہ میرا کمرہ ہے اس کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی میری ہے۔ اب تم لیب جاؤ اور کام شروع کرو۔

آخر پہ آتے وقت پروفیسر صاحبہ نے کہا۔ علی پاکستان مت جاؤ تم یہاں سیٹ ہو جاؤ۔ میرے ساتھ کام کرو مگر کرونا کی وجہ سے واپس پاکستان آ گیا۔ ہم بین الاقوامی ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ ہم نے لوکل پی ایچ ڈی کی طرح ایکس وائے کیٹیگری کی ریسرچ نہیں کی ہوتی۔ بہترین امپیکٹ میں پیپر پبلش کیے ہوتے ہیں۔ نوکری مل جائے گی۔ مگر پاکستان کے پروفیسر صاحب نے میرے ہوش اڑا دیے۔ اسی کیفیت میں تھا کہ آواز آئی جی آپ اندر جا سکتے ہیں۔ تیز قدموں کے ساتھ اندر گیا۔ اب میرا رویہ یکسر مختلف تھا ڈرا سہما ہوا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے صاحب کو عرض کی۔

سر میں علی۔ میں سر دنیا کی بہترین ایلیٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے۔
پروفیسر سریا۔ تو اب کیا کریں ہم۔
میں۔ سر میں اپنا تعارف کروا رہا تھا۔
پروفیسر سریا۔ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ، جی جی بولیں۔

میں۔ سر میں دنیا کے بہترین جرنلز میں پیپر پبلش کیے۔ سر میرا مقالہ بہترین ایوارڈ کے لیے نامزد ہوا ہے۔
پروفیسر سریا۔ یہ تو بہت سے جعلی جرنل ہوتے ہیں۔ جھوٹی ای میلز کردیتے ہیں۔

میں۔ سر یہ جرنل، جرنل آف سائٹیشن رپورٹ میں انڈیکسڈ ہیں۔ یہ جعلی نہیں ہوسکتے۔ میرے پاس یہ سرٹیفائیڈ رپورٹ ہے۔ آپ کہیں تو وٹس ایپ یا ای میل کر سکتا ہوں۔
پروفیسر سریا۔ کیا آپ نے کبھی کریٹو رائٹنگ کی ہے۔ سر میرے تین پیپر پبلشڈ، پانچ انڈر ریویو، دو سبمٹڈ ہیں۔ اس کے علاوہ میں ایک اردو بلاگز کی ویب سائٹ ”ہم سب“ میں اردو بلاگز بھی لکھتا ہوں۔

پروفیسر سریا۔ آپ نے آج تک کتنے لاکھوں کا پراجیکٹ کیا ہوگا۔ میں دس لاکھ روپے کے پراجیکٹ کر رہا ہوں۔

میں۔ سر میں نے لاکھوں کا تو نہیں مگر چار ارب کے پراجیکٹ کی پلاننگ ٹیم کا حصہ رہا ہوں۔ میری موجودہ سپروائزر مصنوعی چاند کے پروگرام کے ایک پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ جو غالباً پاکستان کے سالانہ بجٹ سے بیس گنا بڑا پروگرام ہے۔

ابھی یہ مکالمہ جاری تھا کہ ایک صاحب شدید پسینے میں شرابور دفتر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے داخل ہوتے حوالدار کی طرح سلیوٹ کر کے کہا۔ سر سٹیشنری پہنچ گئی ہے۔ ابھی کچھ فوٹو کاپیاں رہتی ہیں وہ کروا کے رسیدیں بھی آپ کو دیتا ہوں۔ اسی دوران پروفیسر سریے نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ دیکھا ڈاکٹر صاحب یہ ہمارے پروفیسر صاحب نے اے بی سی سے ڈگری کی ہے، اور ایکس کیٹیگری ایچ ای سی کے جریدے میں ایک پرچہ بھی لکھا ہے۔ ہمارے ساتھ ایک لاکھ پہ کام کر رہے ہیں۔ ساری پر چیزنگ بھی کرتے ہیں۔ لیٹر رائٹنگ، فوٹو کاپی کا کام بھی کرتے ہیں۔

اسی دوران میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا۔ سر ایک لاکھ تو بہت کم ہے۔ پروفیسر سریے نے فٹافٹ مشورہ دیا وزیٹنگ پڑھا لینا۔ بنک کی گاڑی نکلوا لو آرام سے قسط نکل آئے گی۔ بچوں کی ٹینشن نہ لو۔ ایک دفعہ پاور پوائنٹ پہ سلائیڈز بنا لو۔ ہر سمیسٹر وہی چلاتے رہو۔ ابھی میں کاغذات سمیٹ رہا تھا۔ تو پروفیسر سریے نے پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ کا ویزہ ابھی ہے کہ ختم ہو گیا۔

میں نے جواب دیا سر ابھی ویزہ تو دو سال کا ہے۔ پروفیسر سریا ایک دم سنجیدہ ہوکے کہنے لگا۔ پہلی فرصت میں واپس چلے جاؤ پاکستان میں ریسرچ کلچر نہیں۔ کبھی غلطی مت کرنا کہ ملک کی محبت میں واپس آ جاؤ۔ شدید پریشانی میں گھٹن زدہ ماحول سے باہر نکلا تو ناکے پہ دو پولیس والوں نے پکڑ لیا۔ بڑی مشکل سے جان چھڑا کے گلی تک پہنچے تو کچھ میرے پرانے طالبعلم مل گے، سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ سر ہمیں گائیڈ کریں، ہمیں انجنیئرنگ کرنے کے بعد کیا کرنا چاہیے۔

میں نے کہا ہجرت کرو۔ ابھی اگلا سوال ان کے منہ میں تھا کہ میں نے انہیں کہا بیٹا میں اس مقام سے گزر چکا ہوں جہاں آپ آئیں گے۔ اس ملک میں صرف عزت ہے تو ایک کامیاب فراڈیے کی۔ جس نے شارٹ کٹ سے مال بنایا ہے۔ یہاں انجنیئرنگ کے پراجیکٹس پروفیسر پیسے لے کے نمبر لگوا دیتے ہیں۔ یہاں ریسرچر کی عزت نہیں۔ یہاں شارٹ کٹ ڈگری، شارٹ کٹ افسر، اور بدقسمتی سے ایکسیڈینٹل شارٹ کٹ لیڈرشپ۔ جو رات کو سوئے اور صبح لیڈر بنے ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں عام آدمی کی سزا جلاوطنی ہے اور ہم عام آدمی ہیں۔ بیٹا ہم جلاوطن ہی رہیں گے۔ شاید ہمارے تابوت کو اس ملک کی مٹی نصیب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).