فٹ بنیں اپنے لیے! کیا خود سے پیار نہیں کرتے؟


آج کل نوجوانوں میں جم کلچر کثرت سے فروغ پا رہا ہے۔ کبھی یہ جم تو کبھی وہ جم، اور جس کی پہنچ میں جم نہیں ان کے لیے یوٹیوب کے ٹوٹکے زندہ باد، غرض جس کو دیکھیں خود کو پتلا اور خوبصورت بنانے میں لگے پڑے ہیں۔ خود کو ترشنا اور نکھارنا قطعاً غلط نہیں لیکن اس بات کی تسلی ضروری ہے جو ہم کر رہے کیا وہ درست طریقہ کار ہے؟ کیونکہ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا جس کی مدد سے آپ فٹ رہ سکیں۔ نوجوانوں میں تیزی سے بڑھتے اس رجحان کی ایک وجہ ہماری فلمی و ڈرامائی شخصیات بھی ہیں جن کی ظاہری جسامت سے متاثر ہو کر ہمارے نو جوان اس نگر چل پڑے ہیں۔

ہم خود کو کیسے فٹ رکھ سکتے ہیں؟ صرف باہر سے فٹ نہیں بلکہ آپ کا اندر سے فٹ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ تاکہ ہمیں جب بھی خود اپنی ضرورت محسوس ہو اس وقت ہمارا جسم اک دم ساتھ دے، اگر ہمیں صبح سویرے اٹھنا ہے تو ہمارا دماغ اور جسم خود بہ خود ہمیں اٹھائے، بالکل ویسے ہی جیسے اگر ہمارے پیچھے کتا لگتا ہے تو ہم خود بہ خود بھاگتے ہیں۔ خود کو فٹ رکھنے کے لیے دو باتوں کو مدنظر رکھیں، ایک درست ورزش اور دوسرا درست غذا کا استعمال۔

نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں بس پتلا دکھنا ہے جس کے لیے وہ دیوانہ وار بھاگنا اس کا حل سمجھتے ہیں۔ اس لیے بعض جوان صبح و شام گھوڑے بنے دوڑیں لگاتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ ٹرینڈ سا بن گیا ہے دلہا دلہن اپنی شادی کی تصویروں میں خود کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں لڑکیاں یہ سوچتی ہیں کہ وہ لہنگے میں کیسے فٹ ہوں گی وہیں دلہا یہ سوچ کر اپنی توند کم کرنے میں لگ جاتا ہے کہ سب کہیں گے یہ دلہے کا باپ معلوم ہوتا ہے۔

بس جی پھر کیا انہیں تو ٹارگٹ مل جاتا ہے 6 ماہ کے اندر پتلا ہونا ہے، کھانوں کا بائیکاٹ اور مسلسل دوڑیں ان کی زندگی کا اہم جز بن جاتا ہے اور بالآخر وہ ان 6 ماہ میں اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیتے ہیں لیکن پھر ان 6 ماہ بعد جب اپنے نارمل روٹین پر آتے ہیں تو پھر باپ کے بھی باپ یعنی ڈبل موٹے ہو جاتے ہیں، عام زبان میں کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والے بن جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں پاگلوں کی طرح بھاگنا اور کھانے پینا بالکل ترک کر دینا درست نہیں ہے بلکہ اس عمل سے آپ خود کو اذیت دیتے ہیں۔

آپ نے یہ بات غور کی ہو گی ہم جب بھی ورزش کی شروعات کرتے ہیں پہلے دن ہمیں بہت اچھا اچھا محسوس ہوتا ہے لیکن جب دوسرے دن وہی عمل دہراتے ہیں ہمیں اتنا اچھا نہیں لگتا جس کی وجہ سے ہم ورزش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ورزش کرنے کے لیے کچھ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھیں۔ ہم جب بھی ورزش کرتے ہیں دو طرح کے درد ہوتے ہیں، ایک اچھا درد یعنی جب بھی آپ جسم کو اسٹریچ کریں گے درد محسوس ہوگا لیکن جب اسٹریچ کرنا بن کریں گے درد بھی ختم ہو جائے، دوسرا برا درد یعنی اگر آپ نے جسم کو الٹا سیدھا اسٹریچ کر دیا ہے پھر آپ اسٹریچ کرنا بن بھی کر دیں گے تو درد مسلسل ہوتا رہے گا۔

ہمارے جسم میں ہر حرکت پر تبدیلی ہوتی ہے اگر آج ہم نے کوئی ورزش کی اور فرض کریں کہ ہاتھ کے ایک حصے میں درد ہو رہا ہے تو کل دوسرے حصے میں ہو گا یعنی پہلے دن جہاں درد ہوا تھا اب وہ حصے پوری طرح کھل چکا ہے، لیکن اگر آپ سال بھر سے روز ایک ہی ورزش کر رہے ہیں اور مسلسل اسی حصے میں درد ہو رہا ہے یعنی آپ دوسرے لیول میں گئے ہی نہیں یوں سمجھے آپ وہیں گھوم رہے ہیں گول گول، (جیسے کسی گھوڑے کو کہیں با ندھ دیا جائے تو وہ چکر کاٹتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے وہ بہت آگے نکل گیا ہے لیکن وہ وہیں ہوتا ہے جہاں ایک سال پہلے تھا) یعنی درد کا ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانا ضروری ہے۔

آج کل ہمارے جوانوں میں یہ بات کثرت سے پائی جاتی ہے ایک کام ایک دن کیا دوسرے دن کسی اور کام سے منسلک ہو جاتے ہیں جو انتہائی غلط اقدام ہیں۔ اگر آپ نے ورزش کی شروعات کردی ہے، اس میں تسلسل پیدا کریں اس سوچ کے ساتھ کے کرنا ہے تو کرنا ہے۔ ہاں کبھی آپ کو بہت برا محسوس ہوگا لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ کو ورزش میں خوشی محسوس ہونے لگے گی۔ روزانہ کی ورزش کو یقینی بنائیں یہ مت سوچیں کہ آپ جم جا کر ہی کر سکتے ہیں اس کے بجائے آپ اپنے گھر کو یا قریبی پارک کو بھی ترجیح دے سکتے ہیں، نہ ہی یہ سوچیں کہ آپ کون سی ورزش کریں گے روز مختلف ورزش کریں تا کہ آپ کو بیزاری کا احساس نہ ہو۔

ورزش کے ساتھ ساتھ اچھی غذا کا استعمال ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے جسم کو پوری طرح چاق و چوبند رکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ایک مکمل غذا لینا انتہائی اہم ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی سب سے بڑی کمزوری جنک فوڈز ہیں، جس کے بغیر بمشکل ہی کوئی دن گزرتا ہو۔ اگر آپ مسلسل ورزش کرتے ہیں لیکن ساتھ مرغن کھانوں سے چھٹکارا نہیں پاتے تو یوں سمجھیں آپ کی ساری ورزشوں پر پانی پھیر گیا۔ کیونکہ آپ کے جسم کو توانا رکھنے میں غذا کا 90 فیصد عمل دخل ہوتا ہے باقی 10 فیصد ورزش کا ہوتا ہے۔

اکثریت نوجوان یہ ہی سمجھتے ہیں کہ کھانے کو کم کر دینا ڈائٹنگ ہے جو بالکل غلط ہے۔ کیونکہ اگر آپ کے جسم کو 1600 کلوریز چاہیے اور آپ 1000 یا اس سے بھی کم دے رہے تو یہ آپ کے جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ بظاہر ہمارا جسم پتلا ہوجاتا ہے اور ہم مشین پر وزن دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اتنا کلو کم ہو گیا اتنا کلو کم ہو گیا، درحقیقت ہمارے جسم کے پٹھے ختم ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وزن کم ہوجاتا ہے جبکہ چکنائی ہمارے جسم میں ویسی کی ویسی موجود ہوتی ہے، اگر آپ اپنا پیٹ پکڑ کے دیکھتے ہیں تو اس کی جلد لٹک رہی ہوتی ہے یہ جسم میں موجود چکنائی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

آپ کے جسم کو کتنی مقدار میں کاربو ہائیڈریٹ، پروٹین اور فیٹ چاہیے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چکنائی کا استعمال مکمل ختم کرنا درست ہے جبکہ یہ درست نہیں، چکنائی آپ کی جلد کے لیے انتہائی مفید ہوتی ہے جس کی مدد سے آپ کی جلد میں چمک پیدا ہوتی ہے علاوہ ازیں جسم کے اندر بھی ایک خاص عمل دخل ہوتا ہے۔ لہذا ہر چیز کی ایک درست مقدار استعمال کی جائے تا کہ پورا دن آپ کا دماغ اور جسم چاق و چوبند رہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے جسم کو ہر تین گھنٹے بعد صحت بخش غذا (دودھ بنا چینی کے، روٹی، سبزی، سلاد، پھل، پروٹین جوس وغیرہ) فراہم کریں۔

آپ نے یہ بات غور کی ہوگی کہ اکثر ہم کھانے کے لیے مر رہے ہوتے ہیں کہ جلدی سے کچھ کھانے کو مل جائے وہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم ہر 8 گھنٹے بعد جسم کو غذا دیتے ہیں اگر ہم ہر تین گھنٹے بعد غذا کے طور پر کچھ ہلکا پھلکا لیتے رہیں گے تو ہمارا دماغ خود بہ خود مطمئن رہے گا کہ یہ انسان ہمیں کبھی بھوکا نہیں مارے گا۔ ناشتہ ہمیشہ پیٹ بھر کر کریں، ظہرین میں سلاد کا استعمال لازمی کریں، جبکہ رات کا کھانا کوشش کریں جلد سے جلد کر لیں اس طرح سونے سے قبل ہاضمہ ہوجاتا ہے اور رات کا کھانا جتنا کم ہو اتنا بہتر ہوتا ہے ایک کہاوت ہے کہ ”صبح کھاؤ راجہ کی طرح اور رات کو کھاؤ بھکاری کی طرح“ اب آپ یہ مت کہہ دیجیے گا کہ ہمیں راجہ نے بھیک دی

تھی پھر تو ہو گیا کام۔ اور جتنا ممکن ہو یہ اپنی عادت بنا لیں کہ ہر نوالے کو آہستہ آہستہ چبا کر کھائیں اس طرح آپ کو ایک مکمل غذا ملتی ہے۔
حکومتی سطح پر تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں ورزش اور اس جیسی سرگرمیوں کو فروغ ملنا چاہیے تاکہ نوجوانوں میں پھرتیلی پیدا ہو اور وہ ہر میدان میں چاق و چوبند رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).