ستاروں کی چال


اپنی اوقات اور بساط سے بڑھ کر کوئی شے خرید لو تو اسے استعمال کرتے ہوئے جی گھبرائے رہتا ہے۔ آج سے چند سال قبل مجھ سے بھی ایسی ہی ایک حماقت سرزد ہوگئی تھی۔اصل کہانی مگر 1990کی دہائی سے شروع ہوتی ہے۔اس کے وسط میں امریکہ گیا تو Laptop نامی مشین سے تعارف ہوا۔کمپیوٹر کے ذریعے خبر یا کالم لکھنا اگرچہ 1987سے شروع کررکھا تھا۔اس سے قبل ٹائپ رائٹر پر لکھنے کی عادت تھی۔اس عادت کی بدولت میں ہاتھ سے انگریزی زبان کی ایک سطر بھی روانی سے نہیں لکھ پاتا۔

حتیٰ کہ بینک سے رقم نکلوانے کے لئے دستخط کروں تو بسااوقات کسی اور کو دیا چیک ’’بائونس‘‘ ہوجاتا ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اُردو لکھتے ہوئے میں آج بھی مناسب حد تک خوش خط ہوں۔غالباََ بچپن میں تختی پر لکھنے کی مشق ابھی تک کام آرہی ہے۔

کمپیوٹر پرمکمل انحصارکی عادت پختہ ہونے کی وجہ سے مجھے Laptop نے بہت متاثر کیا۔ اسے خریدنے کی رقم مگر میسر نہیں تھی۔حسرت بھرے دل کے ساتھ وطن لوٹ آیا اور کامل دوبرس اپنا ذاتی لیپ ٹاپ خریدنے کے انتظار میں گزرے۔ دو تین برس استعمال کے بعد لیپ ٹاپ ’’خراب‘‘ ہوا محسوس ہوا تو اسے کسی کو ’’دان‘‘ کرکے نیا لیپ ٹاپ خریدلیا کرتا ۔آج سے چار برس قبل مگر ہر شخص نے مجھے بتانا شروع کردیا کہ ’’اصل‘‘ لیپ ٹاپ تو Apple والوں نے بنایا ہے۔یہ ہیک نہیں ہوتا۔وہ آپ کے پاس ہو تو یہ چلتی پھرتی لائبریری ہے اور کسی بھی وقت ہر نوعیت کی تحریر لکھنے میں بے پناہ سہولت میسر ہوتی ہے۔مسلسل ذکر سے مرعوب ہوکر میں نے مارکیٹ میں دستیاب Appleکا جدید ترین اور مہنگا ترین لیپ ٹاپ خریدلیا اور غالبؔ کی طرح اس کے بارے میں اِترانا شروع ہو گیا۔

یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ مشین فقط The Nationکے لئے پارلیمانی کارروائی لکھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔روزانہ صبح اُٹھ کر یہ کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے بھی اسے استعمال کرتا ہوں۔مجھے یقین رہا کہ یہ ’’محتاط‘‘ استعمال مجھے آئندہ کئی برس تک نیا لیپ ٹاپ خریدنے کی زحمت سے بچائے رکھے گا۔آمدنی کے وسائل ان دنوں پریشان کن حد تک محدود ہوچکے ہیں۔کفایت شعاری کی عادت مگر کبھی لاحق نہیں رہی۔ اب اسے بطور سزا اپنائے ہوئے ہوں۔

اس تناظر میں پیر کی صبح اُٹھ کر اخبار میں چھپے ہوئے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو پاس ورڈ لکھنے کے باوجود وہ چلنے سے انکاری تھا۔ جی اداس ہونے کے علاوہ گھبرا بھی گیا۔میری بیوی کو یقین ہے کہ میرے پاس موجود لیپ ٹاپ اب استعمال کے قابل نہیں رہا۔ذرا ہمت سے کام لیتے ہوئے مجھے کوئی نیا مگر ’’عام‘‘ سا لیپ ٹاپ خریدلینا چاہیے۔قصہ مختصر اپنی ’’اوقات‘‘ میں واپس لوٹنا ہوگا۔اپنی ’’اوقات‘‘ میں واپسی کی فکر لاحق ہوئی تو اچانک خیال آیا کہ گزشتہ ہفتے کی شب یوٹیوب کے ذریعے مجھے ایک وڈیو وصول ہوئی تھی۔اس نے خبردار کیا تھا کہ ابلاغ کا ایک سیارہ جسے انگریزی میں مرکری اور اُردو میں نہ جانے کیا پکارتے ہیں Combust ہورہا ہے۔

اس کی وجہ سے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ صارفین کو پریشان کریں گے۔ستمبر کے پورے مہینے میں ہم لوگوں کو لکھنے اور بولنے میں بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اس کی وجہ سے ایک اور سیارہ بھی تھا جسے مارس کہا جاتا ہے۔اُردو میں شاید اسے مریخ کہتے ہیں۔یہ مرکری کو ’’بری نظر‘‘ سے دیکھ رہا ہے۔مذکورہ ویڈیو میں نے فارغ بیٹھنے کی وجہ سے دیکھ تو لی مگر اس میں بیان کردہ ’’ستاروں کی چال‘‘ پلے نہیں پڑی۔ لکھنے اور بولنے کے حوالے سے ’’وارننگ‘‘ نے البتہ تھوڑی دیر کو پریشان ضرور کیا۔

بعدازاں یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ذاتی طورپر مرکری کے Combustہوئے بغیر ہی گزشتہ دو برسوں سے لکھنے میں بہت ’’احتیاط‘‘ اپنارکھی ہے۔یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھاتے ہی ذہن میں ازخود یہ خیال آجاتا ہے کہ کس موضوع پر اشاروں کنایوں میں بھی ایک لفظ نہیں لکھنا۔دوستوں سے ملنا ملانا بھی چھوڑ رکھا ہے۔اپنے کمرے تک محدود رہتا ہوں۔میرا مرکری گویا بہت عرصے سے Combustہوچکا ہے۔ کسی زمانے میں بہت باتونی،جگت باز اور ’’محفل کی رونق‘‘تصور ہوتا تھا۔

اب مگر بقول صوفی تبسم ’’دنیا کی وہی رونق-دل کی وہی تنہائی‘‘ والا معاملہ درپیش ہے۔ ’’گوشے میں قفس کے اگرچہ آرام بہت ہے۔اپنے تئیں مرکری کے Combust ہونے کا عقدہ حل کرلیا تو سونے سے قبل ٹویٹر پر حسبِ عادت نگاہ بھی ڈالی۔اس App پر میں تاریخ کے ایک پروفیسر کو بھی فالو کرتا ہوں جو @aaolomi کے اکائونٹ سے ٹویٹ لکھتا ہے۔اسلامی تاریخ اس کا پسندیدہ موضوع ہے۔وہ عموماََ مسلمانوں کے جید مفکرین کے مابین مختلف موضوعات پر ہوئے علمی مباحث کو آسان ترین زبان میں پیش کرتا ہے۔

فلسفے کا طالب علم ہوتے ہوئے مجھے اس ضمن میں اس کا تحقیقی کام بہت بھاتا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے مگر اس نے کافی توجہ یہ دریافت کرنے میں صرف کرنا شروع کردی ہے کہ اسلامی تاریخ کے جید مفکرین ’’ستاروں کی چال‘‘ کی بات کیا سوچتے تھے۔اس کی بدولت یہ علم ہوا کہ مسلم سلاطین کی اکثریت وہمی ہوا کرتی تھی۔ان کے درباری نجومی بھی تھے۔ کوئی اہم فیصلہ کرنے یا کسی جنگ کو برپا کرنے سے قبل ان کی رائے کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ۔اس ضمن میں علی الوومی نامی محقق اکثر جو ٹویٹ کرتا ہے میں انہیں نظر انداز کردیتا ہوں۔

’’ستاروں کی چال‘‘ کی بابت میرا ذاتی رویہ اقبالؔ والا ہے جو ’’ستارہ کیا میری تقدیر کی خبردے گا؟‘‘والی خود اعتمادی سے مالا مال تھے۔مجھے تو یہ خبربھی نہیں کہ میرا Zodiac سائن کیا ہے۔ رنگ محل مشن ہائی سکول لاہور میں داخلے کے وقت جو امتحا ن ہوا تھا اس نے مجھے براہِ راست تیسری جماعت میں بیٹھنے کے قابل ٹھہرایا۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ میری عمر اس وقت اس جماعت میں داخلے کے مطابق نہیں تھی۔شاید یہ گنجائش نکالنے کے لئے میری تاریخ پیدائش ’’ایجاد‘‘ ہوئی ہوگی۔

مجھ معصوم کو مگر اس کا خطاوار ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔اس کی بدولت مگر عملی فائدہ یہ ہوا ہے کہ میں کبھی اپنا ’’زائچہ‘‘ بنوانے کی فکر میں مبتلا نہیں ہوا۔ دنیا کے کئی اخبارات کی طرح ہمارے ہاں کے چند اخبار بھی ’’آج کا دن کیسا گزرے گا ‘‘ والے کالم بھی کسی گوشے میں چھاپتے ہیں۔ مجھے وہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ …‘‘ والی سوچ کے ساتھ ہر دن کا آغاز ہوتا ہے۔

گزشتہ ہفتے کی شب مگر یوٹیوب کے ذریعے موصول ہوئی ایک وڈیو جس نے ستمبر کے مہینے میں لکھنے اور بولتے وقت ’’احتیاط‘‘ کا مشورہ دیا تھا دیکھنے کے بعد ٹویٹر پرنگاہ ڈالی تو وہاں @aaolomi کا ایک Thread بھی تھا۔اس کے ذریعے وہ بتارہا تھا کہ 1258میں سقوطِ بغداد سے کئی برس قبل درباری نجوبی عباسی خلفاء کو متنبہ کرنا شروع ہوگئے تھے کہ Saturn جب Jupiter سے ملے گا تو ان کا زوال شروع ہوجائے گا۔یہاں تک پہنچنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرے کمرے میں جو لغات ہیں وہ انڈے دینے کے لئے نہیں خریدی گئیں۔ انہیں دیکھا تو ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کی مرتب کردہ ’’انگریزی اُردو لغت‘‘ میں Saturnکو ’’زحل‘‘ بتایا گیا ہے۔ Jupiterکو اُردو میں ’’مشتری‘‘ پکارتے ہیں۔

’’فیروزاللغات‘‘ نے بتایا کہ ’’زحل ایک سیارہ جو نحس خیال کیا جاتا ہے‘‘۔قومی مقتدرہ والی لغت البتہ یہ بیان کرتی ہے کہ زحل ’’زراعت کا دیوتا جو کہتے ہیں فراوانی کے عہدزرین میں غالب تھا۔‘‘ Saturn سے Saturnian بھی نکلا ہے۔قومی مقتدرہ والی لغت بتاتی ہے کہ اس کا مطلب’’سادہ،نیک  خو اور پرمسرت‘‘ ہوتا ہے۔بلھے شاہ نے درست فرمایا تھا:’’علموں بس کری اور یار‘‘۔ دو لغات دیکھی ہیں۔ایک نے زحل کو ’’نحس‘‘پکارا ہے اور دوسری اسے ’’پرمسرت‘‘ بتارہی ہے۔

’’زحل، نحس‘‘ ہے یا ’’پرمسرت‘‘اس بحث کو فی الحال بھول جاتے ہیں۔میری اصل دلچسپی کا باعث @aaolomi کی بتائی یہ ’’خبر‘‘ تھی کہ 2020کے ستمبر 21/22کے روززحل اور مشتری ایک بار پھر مل رہے ہیں۔علی الوومی نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا۔محض ایک محقق کے طورپر البتہ یاد دلایا ہے کہ اسلامی تاریخ کے مستند ستارہ شناس زحل اور مشتری کے ملاپ کو حکمرانوں کے لئے ہمیشہ ’’خطرناک‘‘ شمار کرتے رہے ہیں۔یہ حوالہ دیتے ہوئے وہ فقط ’’چسکہ فروشی‘‘ کے انداز میں تجویز یہ بھی دیتا ہے کہ ستمبر 2020 میں ہونے والے ’’ملاپ‘‘ پربھی نگاہ رکھنا ہوگی۔

اس کی چھیڑ چھاڑ نے لیکن مجھے سنجیدہ بنادیا ہے ۔ صبح اُٹھتے ہی میرا مرکری واقعتا Combust ہوا نظر آیا ہے۔علم نجوم کو جانچنا لہذا ضروری ہوگیا ہے۔میں اس کی جانب سنجیدگی سے راغب ہوگیا تو عمر کے آخری حصے میں ’’زائچہ نویسی‘‘ سے اپنی راحت کا سامان خود کو فراہم کرنے کے امکانات بھی روشن ہوجائیں گے۔ ’’صحافت‘‘ کی جس قسم سے میں واقف تھا اس کی موت کئی برس قبل واقعہ ہوچکی ۔ فقط اعلان ہونا باقی ہے۔رزق کمانے کا یقیناکوئی اور بندوبست ڈھونڈنا ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).