بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا و ملازمین کوئٹہ میں بھوک ہڑتال پر کیوں ہیں؟


بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی

چار روز سے مسلسل بھوک ہڑتال کے باعث بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طالب علم مشتاق بلوچ کے لیے بات کرنا بھی مشکل تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مطالبات کی تکمیل تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

خاران سے تعلق رکھنے والے مشتاق بلوچ یونیورسٹی کے دیگر طلباء اور ملازمین کے ساتھ جمعے کے روز سے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔

یونیورسٹی کے مجموعی طور پر 23 ملازمین اور طلبا نے تادم مرگ بھوک ہڑتال بلوچستان کے پہلے میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج کی سابقہ حیثیت کی بحالی کے لیے شروع کی جسے گذشتہ سال کے اوائل میں بولان میڈیکل یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

چار دنوں کی مسلسل بھوک ہڑتال کی وجہ سے طلبا اور ملازمین میں سے اکثر کی حالت غیر ہو چکی ہے جبکہ 16 کو طبی امداد کے لیے بار بار ہسپتال بھی منتقل کرنا پڑا۔

دو ڈاکٹروں کی حالت اس حد تک خراب ہوگئی کہ ان کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں بھی داخل کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے

نئی خواتین ڈاکٹر ہاسٹل میں کیوں نہیں رہ سکتیں؟

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا و ملازمین کا دھرنا ختم

بلوچستان میں طلبا مظاہرے: ’جہاں بجلی، پانی نہیں وہاں انٹرنیٹ کہاں سے لائیں‘

مشتاق بلوچ کا کہنا ہے کہ تادم مرگ بھوک ہڑتال ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ وہ نو ماہ سے زائد کے عرصے سے احتجاج پر ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔

مشتاق بلوچ اور دیگر ہڑتالیوں کا مؤقف ہے کہ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی میں ضم کرنے سے غریب طلباءاور ملازمین دونوں کا نقصان ہے۔

کالج کے یونیورسٹی میں انضمام کی مخالفت کیوں؟

اس احتجاج میں شریک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے ملازمین اور طلباء یہ چاہتے ہیں کہ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی سے الگ کیا جائے۔

ان ملازمین اور طلباء کا احتجاج گذشتہ نو مہینے سے جاری ہے جس کے دوران گرفتاریوں کے علاوہ ان کو لاٹھی چارج کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

پہلے ملازمین اور طلباء کا یہ احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم تھا لیکن وہاں احتجاج کو توجہ نہ ملنے پر انھوں نے وزیرِ اعلیٰ ہاﺅس کے گھیراﺅ کا اعلان کیا۔

وزیرِ اعلیٰ ہاﺅس کی جانب مارچ کے دوران پولیس نے انھیں ریڈ زون میں داخل نہیں ہونے دیا جس پر انھوں نے گورنر ہاﺅس کے ساتھ تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا۔

کوئٹہ کی تاریخ میں یہ پہلی بھوک ہڑتال ہے جس کا کیمپ گورنر ہاﺅس کے ساتھ قائم کیا گیا ہے۔

بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی

ڈاکٹر ماہ رنگ نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کے خلاف نہیں ہیں لیکن بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کے ساتھ ضم کرنے کے بجائے یونیورسٹی کے لیے الگ انفراسٹرکچر قائم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی میں ضم کرنے سے بلوچستان کے غریب طلباء کا نقصان ہوگا کیونکہ کالج میں داخلے ضلعی کوٹے کی بنیاد پر ہوتے ہیں لیکن یونیورسٹی میں یہ تمام اختیار ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وائس چانسلر کے پاس جائیں گے اور وہ یونیورسٹی کی آمدن بڑھانے کے نام پر اس کی نشستوں کو ’سیلف فنانس سکیم‘ کے نام پر امیر طلباء کو دینے کے لیے داخلہ پالیسی میں تبدیلی کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سیلف فنانس سکیم کے تحت وہ طلبا بھی اضافی فیس ادا کر کے یونیورسٹی کی نشست حاصل کر سکتے ہیں جو میرٹ لسٹ میں آ کر حکومت کی کم فیسوں والی نشستیں حاصل نہیں کر سکتے۔

احتجاجی کیمپ میں موجود ڈاکٹر صبیحہ نے بتایا کہ بلوچستان کے طلباءاکثر غریب ہیں لیکن کالج کو یونیورسٹی میں ضم کرنے کے بعد سے فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے فیس 25 ہزار روپے تھی لیکن اب اس کو بڑھا کر ایک لاکھ 25 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے انھیں یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ یہ معاملہ نو ستمبر کو کابینہ کے اجلاس میں زیر غور لایا جائے گا اور اس یقین دہانی کی بنیاد پر ان کو احتجاج ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، لیکن جب تک اس مسئلے کو کابینہ میں پیش کرکے اسے حل نہیں کیا جاتا ان کا احتجاج جاری رہے گا۔

بولان میڈکل یونیورسٹی کے ملازم اور بولان میڈیکل کالج بحالی تحریک کے جنرل سیکریٹری زیب شاہوانی نے بتایا کہ کالج کے ملازمین کی حیثیت سے وہ محکمہ صحت حکومت بلوچستان کے ملازمین تھے لیکن بیک جنبش قلم ان کو ہائیئر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت کیا گیا جو کہ وفاقی حکومت کا ادارہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت ہونے سے نہ صرف ان کی ملازمتوں کو خطرہ ہے بلکہ ان کی پینشن اور دیگر مراعات کے نہ ملنے کا بھی خطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ بولان میڈیکل کالج کی سابق حیثیت کو بحال کیا جائے۔

بولان میڈیکل یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی اس احتجاج کو بلاجواز قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کی ملازمتوں اور ان کی پینشنز وغیرہ کو کوئی خطرہ نہیں، بلکہ ان کو بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے ایکٹ 2017 کے تحت تحفظ دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی نے الزام عائد کیا کہ پہلے چند ملازمین کی اجارہ داری تھی اور وہ ڈیوٹی نہیں دے رہے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہونے دیا جا رہا جس کے باعث بعض لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے اور وہ لوگ ملازمین اور طلباء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی

انھوں نے طلباء کی فیسوں میں بہت زیادہ اضافے اور سیلف فنانس سکیم کی نشستوں کے حوالے سے دعووں سے بھی اتفاق نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بولان یونیورسٹی کی فیسیں کسی اور سرکاری یونیورسٹی کی فیسوں سے زیادہ نہیں ہیں، حالانکہ یہ ایک پروفیشنل یونیورسٹی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بولان یونیورسٹی میں سیلف فنانس سکیم کی نشستیں اتنی ہی ہیں جتنی کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کی جانب سے مقرر کی گئی ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان احتجاجیوں کے وفد کی ملاقات

بھوک ہڑتال کرنے والے طلباء اور ملازمین کی حالت خراب ہونے کے باعث سماجی رابطوں کی میڈیا پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پیر کی شب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے خود احتجاج کرنے والے ملازمین اور طلباء کے قائدین کو مذاکرات کے لیے طلب کیا۔

اس ملاقات میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے انھیں یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائینسز کا ترمیمی بل کابینہ کے نو ستمبر کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یونیورسٹی ایکٹ میں پائے جانے والے ابہام کو دور کرنے اور یونیورسٹی کے سینیٹ کے اجلاس کے فیصلے کے مطابق بی ایم سی اور کالج کے پرنسپل کے اختیارات بحال کیے جائیں گے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بی ایم سی بحالی تحریک کے تحت دھرنا اور ہڑتال ہو یا نہ ہو حکومت ترمیمی بل کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرے گی۔

اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد طلباءاور ملازمین نے تادم مرگ بھوک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس ملاقات کے فوراً بعد بولان میڈیکل کالج کی سابق حیثیت کو بحال کرنے اور اس کے ملازمین کو محکمہ صحت کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا۔

بلوچستان میڈیکل یونیورسٹی

ہڑتال جاری، ہڑتالیوں میں کمی

طلباء اور ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت ہونے کے باوجود تادم مرگ بھوک ہڑتال مکمل طور پر ختم نہیں کی گئی لیکن بھوک ہڑتال پر بیٹھنے والوں کی تعداد میں کمی کی گئی۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ طلباء میں سے چار کی بھوک ہڑتال کے علاوہ دھرنا بھی جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن ملازمین اور طلباء کی حالت تشویشناک ہوگئی تھی ان کی بھوک ہڑتال کو ختم کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ جو نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے اس میں کالج کے ملازمین کو یونیورسٹی سے نکال کر واپس محکمہ صحت کے حوالے تو کیا گیا لیکن نوٹیفکیشن میں یہ لکھا گیا ہے کہ بولان میڈیکل کالج یونیورسٹی کا Constituent کالج رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ طلباء اور ملازمین کا مطالبہ یہ ہے کہ بولان میڈیکل کالج کسی طرح بولان میڈیکل یونیورسٹی کا حصہ نہ ہو بلکہ دیگر کالجز کی طرح اس کا یونیورسٹی کے ساتھ الحاق ہو۔

انھوں نے کہا کہ جب تک بولان میڈیکل کالج کو مکمل طور پر اس کی سابقہ حیثیت میں بحال نہیں کیا جاتا وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp