سیاحت یا جھنڈے گاڑنے کی دوڑ؟


مجھے بچپن سے گھومنے پھرنے کا شوق تھا۔ اس دور میں آج کی طرح بچوں کے پاس گھر میں تفریح کے اتنے ذرائع نہیں ہوتے تھے۔ ہمارے بچپن میں تفریح کا سب سے عام ذریعہ سڑک پر گھومنا اور دوستوں سے کھیلنا ہی ہوتا تھا۔ میں جب نویں جماعت میں آیا تو ہم نارتھ ناظم آباد کے ایل بلاک میں ایک کرائے کے مکان میں منتقل ہوئے۔ اس علاقے میں بہت سے پارک تھے۔ میں اکثر پیدل پھر کر نارتھ ناظم آباد کے بلاکس گھومتا رہتا تھا۔ جب میرے ہم عمر کزن ہمارے یہاں آتے تو ہماری تفریح پارکوں اور سڑکوں پر گھومنا ہی ہوتی۔

عموماً اس چہل قدمی میں میرے پاس پیسے بہت ہی محدود ہوتے تھے، اس لیے کچھ کھانا پینا بھی بس علامتی طور پر ہی ہوا کرتا۔ یہی روکھی سوکھی تفریح کی عادت مجھے یونیورسٹی کے دور تک رہی۔ میں آرٹس فیکلٹی میں تھا، لیکن روز یہ سوچ کہ جاتا آج فلاں ڈیپارٹمنٹ دیکھ لینا ہے اور پھر وہ جا کر دیکھ آتا۔ یوں میں نے اس یونیورسٹی کی  چھوٹی سی دنیا کو چل چل کر ہی پورا دیکھ لیا۔

تب اکثر دوسرے شہروں میں بھی جانا ہو تا۔ کسی دوسرے شہر جانا میرے لئے بہت عظیم تفریح کے درجے میں تھا۔ سرمائے کی قلت کی وجہ سے دوسرے شہروں کی تفریح بھی عموماً روکھی سوکھی ہی ہوتی۔ یا تو ہم لوگ ایسے کسی شہر جاتے جہاں ہمارے والد کا تبادلہ ہوا ہوتا یا پھر کسی رشتہ دار کے گھر میں قیام ہوتا۔ شاذ و نادر ہی ہوٹل میں رکا جاتا یا کسی ریستوران میں کھایا جاتا اور ایسا بھی ہوتو وہ ہوٹل یا ریستوران بالکل عوامی ہوتا۔

مگر اس سادگی اور غربت میں بھی گھومنے میں بہت لطف تھا۔ ہمارے والد کے پاس کیمرا تو تھا لیکن ان میں سے ہر سفر کی تصویریں ہمارے پاس نہیں۔ تب کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ تصویر لینا اتنا اہم ہے۔ میں جب تھوڑا بڑا ہو گیا تو میں دوسرے شہروں میں بھی دن کا اکثر وقت سڑکوں گھومتے ہوئے گزارتا۔ تب اسلام آباد میں سیکٹرز میں گرین بیلٹ بہت تھے جو کہ چھوٹے چھوٹے جنگل ہی معلوم ہوتے۔ میں انہی کو ہر روز دریافت کرتا رہتا۔

تب کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ سڑکوں پر پھرنا کوئی بڑی بات ہے، تب کبھی یہ نہیں سوچا کہ کسی دوسرے شہر جانا کوئی بڑی چیز ہے۔ تب یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ کسی کو اپنی کسی دوسرے شہر میں کھنچی تصویر دکھائی جائے۔ تب نہ تو فیس بک تھا نہ ہی واٹس ایپ۔ یہ سب تو دور رہے تب تو ’آرکٹ‘ اور ’ہائی فائیو‘ وغیرہ بھی نہیں تھے۔ اس دور میں تو انٹر نیٹ ایک تبرک تھا اور ریل والے کیمرے کی تصویر کو اسکین کر کے کمپیوٹر پر ڈالنا بھی ایک بڑا مشکل کام۔ تب اکثریت کے لئے سیاحت بل ذات ایک تفریح تھی۔ اکثریت کے لئے سیاحت سے مقصود سیاحت تھی، اس کا اشتہار نہیں۔ خیر تب بھی کچھ لوگ یہ کام عرف عام میں ’بھرم بازی‘ کے لئے کیا کرتے تھے مگر ایسے لوگ کم تھے اور ان کے لئے ایسا کرنا مشکل تھا۔

رفتہ رفتہ انٹر نیٹ تیز ہوتا گیا اور سماجی میڈیا نام کی چیز ہر شخص کی کمپیوٹر اسکرین سے سکڑ کر اس کی جیب میں چلی گئی۔ اکثر لوگوں کے لئے پھر پہاڑ اور جنگل، شہر اور گاؤں گھومنے کے نہیں جھنڈا گاڑنے کی تیرتھ بن گئے۔ اب گھومنے جائیں تو ہر جگہ لوگ ہاتھوں میں کیمرے لئے فوٹو شوٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ کسی شہر یا پہاڑی علاقے کا نام یوٹیوب پر لکھیے، آپ کے سامنے ان گنت ’وی لاگ‘ کھل جائیں گے۔ خیر مجھے انسانوں کی آزادیوں پر سوال اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟

ایک بے ضرر کام ہے تصویر کشی یا ویڈیو بنانا جسے بنانی ہو بنائے اور اپنے خرچ پر خوش رہے۔ مگر مجھے جو چیز سیاحت کے اس ارتقا یا زوال میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ لوگ کہیں جاکر کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی نہیں پاتے۔ وہ فطرت کے حسین نظارے براہء راست دیکھنے کے بجائے اپنے کیمرے سے ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پھر جو چیز خود بھی نہیں دیکھ سکے وہ ساری دنیا کو دکھانے کے لئے سماجی میڈیا پر ڈالتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا بتانا دراصل یہ مقصود ہوتا ہے کہ ’دیکھو میں کہاں پہنچا ہوا ہوں۔‘

پھر ایسی جگہ جانا جہاں کہ لوگ جاتے ہیں رہتے ہیں، کوئی بڑی بات نہیں رہتی۔ اب نئی سے نئی جگہ جانے کی تڑپ ذہن میں اٹھتی ہے۔ نئی جگہوں کو دیکھنے، انہیں تسخیر کرنے کی خواہش تو خیر انسان کی فطرت میں ہے ہی مگر یہاں دوسری جگہ کے تجسس کے بجائے اس جگہ جانے کو ایک تمغا بنا کر اپنے سینے پر سجانے کا جوش زیادہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سماجی میڈیا کی اکثر ویب سائٹس اسی خواہش کو مد نظر رکھ کر ہی بنائی گئی ہیں۔ لوگوں کی اکثریت اس اوچھی اشتہار بازی کے نتیجے میں اب خوبصورت سے خوبصورت منظر کی تصویر سے بڑی حد تک سن ہو گئی ہے۔

لوگ چاہے توجہ دیں یا نہ دیں، چاہے جلیں یا بور ہوں لیکن وہ کوئی ردعمل دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ’سیاحتی قبیلے‘ کے تمام لوگ اپنے ہی ہم قبیلہ لوگوں کے سماجی گروہ میں چلے جاتے ہیں۔ سب مل کے ایک دوسرے کی پیٹھ کھجاتے ہیں اور انگریزی محاورے کے مصداق، اپنے ہی ‘ببل’ میں زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ’یوٹیوبر‘ کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں وہ بہت سے پاکستانی ’وی لاگرز‘ کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

وہ تمام لوگ ’وی لاگر‘ بھی تھے، فوٹوگرافر بھی تھے، ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے، مگر انہیں میرے جیسا کوئی اس شعبے کا غیر جانتا ہی نہیں۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ سیاحت کی خواہش اب آوارہ گردی اور نئی دنیا کو دیکھنے اور جاننے کی جستجو نہیں بلکہ ویب سائٹس پر کالم نگاری جیسا، میرے جیسے فارغ انا پرستوں کا کوئی کام ہے۔ جس طرح میں لوگوں کی پیٹھ کھجانے کے لئے کالم لکھتا ہوں (بس کبھی میرے ناخن بڑے ہیں)، بالکل اسی طرح اب سیاحتی قبیلے کے لوگوں کو بھی ایک دوسرے کی ٹیڑھی آنکھوں میں حسن تلاش کرنا پڑتا ہے، قصیدہ لکھنا پڑتا ہے۔ مگر انہی قصائد کے لائق ہستیوں سے آگے بڑھ کر اپنا جھنڈا گاڑ کر آنا بھی پڑتا ہے۔ آج آپ جنہیں سراہیں گے کل کو وہ آپ کی تعریف کریں گے۔

ہمارے ایسے ہی ایک سیاحتی دوست سے میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ وہ سوات تو جاتے ہوں گے تو ان کا جواب یہ تھا کہ ایک مرتبہ اسی کی دہائی میں سوات گئے تھے، اس کے بعد نہیں گئے۔ مجھ پر یہ بات حیرت کا پہاڑ بن کر ٹوٹی اس لیے کہ وہ صاحب گلگت بلتستان و ہنزہ کی خاک تقریباً ہر سال ہی چھانتے ہیں۔ اگر مقصود فطری حسن کا دیدارہے تو شمالی علاقہ جات سے بہت آسان ہے سوات جانا اور گھومنا مگر ظاہر ہے کہ سیاحتی شیروں کے لئے اتنی عام destination میں کیا کشش ہو گی؟ وہاں تو ویسے بھی ہر کوئی چلا ہی جاتا ہے۔

سیاحتی قبیلے کے ایک اور صاحب اپنی ایک مشکل ٹریکنگ کے بارے میں بیان کر رہے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ دوبارہ اس ٹریکینگ پر جائیں گے، تو انہوں نے فرمایا کہ ایسی جگہوں پر تو انسان بس ایک بار ہی جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اگر سفر بہت مشکل ہے، اتنا مشکل کہ اس میں تفریح کم اور تکلیف زیادہ ہے، تو وہ سفر کیا ہی کیوں جائے؟ اور اگر فطری حسن کو دیکھنے کی تمنا ہی اصل محرک ہے، تو بار بار جانے میں اعتراض کیا؟ مگر مسئلہ ہے جھنڈے گاڑنے کا، تو ایک مشکل سفر کے بعد دوسرا مشکل سفر کیا جائے گا، تاکہ نئی جگہ جھنڈا گاڑا جا سکے۔

نجانے کیوں اس بیان کے ساتھ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے گھر میں ہمارے ایک ’بھرم باز‘ عزیز اکثر آیا کرتے تھے۔ آپ کو کسی پرنسلی اسٹیٹ کے نواب کی ایکٹنگ کرنے کی بیماری تھی۔ ہر بات میں انائی شان بھگاری جاتی۔ ایک روز آپ ہم لوگوں کوفائیو اسٹار ہوٹل لے گئے۔ اور وہاں کڑوی کالی چائے پلائی۔ پھر بتانے لگے کہ اس جگہ پر بیٹھنے کی شان ہی الگ ہے۔ دیکھیے کیا فانوس لگا ہے، کیا روشنی ہے اور ہم بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔

میں نے دل میں سوچا کہ کہ کوئی بھی فانوس، کڑوی چائے کو میٹھا کیسے کردے گا؟ انا اور خود پسندی کے دکھاوے کی روشنی بھی اسی فانوس کی طرح ہے۔ انسان نمائش اور امیج میں ایسا پھنستا ہے کہ سنہری کیتلی میں کالی چائے بھی، اسے واڈکا معلوم ہوتی ہے۔ بے پیے ہی نشہ چڑھتا ہے۔ سفر ہوتے ہیں پر سیاحت نہیں ہوتی، تصویر کھنچتی ہے پر نظر کچھ نہیں آتا، جھنڈے گڑتے ہیں، پر تسکین نہیں ہوتی۔ اگر میں ایک سیاح ہوں تو مجھے آپ کو بتانا ہے کہ میں نے وہ دیکھ لیا جو آپ نہیں دیکھ سکے۔ آپ کو میری پیٹھ تھپکنی ہے۔ کل میں آپ کی پیٹھ تھپکوں گا۔ آج میں آپ کی پیٹھ کھجاؤں گا، کل آپ میری پیٹھ کھجائیں گے۔ اسی کھیل میں دنیا دیکھ لی جائے گی، جھنڈے گاڑ دیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).