ڈاکٹر فضل الرحمان، رجعت پسند طبقہ اور تاریخ کا جبر


عام طور پر ڈاکٹر فضل الرحمان کے نام سے جانے جانے والے اسلامی علوم کے ماہر فضل الرحمٰن ملک کے نام سے 21 ستمبر 1919ء کو برطانوی ہند کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ) کے علاقہ ہزارہ میں واقع ضلع ہری پور کے قصبے سرائے صالح میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد، شہاب الدین، ہندوستان کے مشہور دینی مدرسے دار العلوم دیوبند کے فارغ التحصیل عالم تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے کے بعد اپنے والد سے روایتی دینی علوم کی تحصیل کی۔ 1934ء میں ان کا خاندان ہزارہ سے لاہور منتقل ہو گیا۔ 1942ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی کے اختیاری مضمون کے ساتھ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فضل الرحمن نے 1944ء میں پنجاب یونیورسٹی ہی سے اعلی اعزاز کے ساتھ عربی زبان میں ایم اے کیا۔ جس کے بعد سکالر شپ پر آکسفورڈ یونیورسٹی میں ممتاز اسکالر ایچ آر گیب کی زیر نگرانی قرون وسطی کے مسلمان فلسفی بو علی سینا پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلینڈ کی ڈرہم یونیورسٹی اور کینیڈا کی میک گیل یونیورسٹی میں پڑھایا۔

ڈاکٹر فضل الرحمان نے 1961ء میں صدر ایوب خان کی درخواست پر پاکستان آ کر ادارہ تحقیقات اسلامی کی صدارت سنبھالی۔ اس کا مقصد جدید مسائل کے لئے اسلامی بنیادوں پر حل فراہم کرنا تھا۔ غیر روایتی آرا کے باعث فضل الرحمان کو روایتی علما کی طرف سے شدید تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالاخر یہ مخالفت اس حد تک بڑھی کہ 1968ء میں انھیں انسٹی ٹیوٹ سے استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا۔

دیار غیر میں رہتے ہوئے ڈاکٹر فضل الرحمان نے اسلام پر تحقیقی کام جاری رکھتے ہوئے کئی قابل قدر کتب اور مقالے تحریر کیے۔ چھبیس جولائی 1988ء کو بیسویں صدی کے برصغیر کا یہ غیر معمولی غیر روایتی عالم، امریکہ کے شہر شکاگو میں راہی عدم ہوا۔

بد قسمتی سے پاکستان میں فضل الرحمان کے بڑے ناقد روایتی علما کی اکثیرت نے ڈاکٹر فضل الرحمان کے کام جو انگریزی زبان میں تھا کو براہ راست پڑھے بغیر ہی ان پر تنقید اور فتاوی کا بازار گرم کیے رکھا۔ فضل الرحمان کے والد روایتی عالم تھے اور مشہور عالم و سیاسی مفکر عبید اللہ سندھی کے ہم عصر اور دوست بھی تھے، ڈاکٹر فضل الرحمان نے نوجوانی میں عبید اللہ جو خود بھی غیر روایتی سوچ اور غیر معمولی تنوع فکر کے حامل تھے، کی اپنی والد کے ساتھ بحث مباحثے بھی دیکھ رکھے تھے، جن میں ایک طرف اپنے ماحول میں قید، جامد اور لگی بندھی سوچ کا شخص اور دوسری طرف فکری و عملی طور پر سرگرم و جہاندیدہ آدمی تھا۔

ڈاکٹر فضل الرحمان نے پروفیسر سرور جامعی کو بتایا تھا کہ بسا اوقات جب بحث مباحثہ بڑھ جاتا تو عبیداللہ سندھی نوجوان فضل الرحمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا شہاب الدین سے کہتے تھے کہ یاد رکھو اگر مولوی لوگ سدھرو گے نہیں تو ایک دن تم اپنے ان لڑکوں کے ہاتھوں قتل ہو گے۔ فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مولانا کی مراد جسمانی قتل نہیں بلکہ جس جامد اور رجعت پسند فکر پر دینی طبقہ ڈٹا ہوا تھا، اس فکر کا نوجوان نسل کے ہاتھوں خاتمہ مراد تھا۔ چنانچہ بقول فضل الرحمان فکری طور پر جس نقطہ نظر کے وہ بعد ازاں قائل و نقیب ہوئے وہ بقول عبید اللہ سندھی کے رجعت پسند فکر کا قتل ہی تھا۔

عبیدا اللہ سندھی کی طرح فضل الرحمان کے ناقدین کی ایک بڑی تعداد بھی۔ آج چالیس پچاس سال بعد بہت سے معاملات مثلاً بینکاری وغیرہ کے بارے میں ان کی آرا پر بغیر تسلیم کیے عمل پیرا ہے، لاؤڈ سپیکر، تصویر اور ٹی وی وغیرہ تو کب کا حلال ہو چکا۔ یہی تاریخ کا جبر کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمان کے چند اقوال:

”مذہبی طبقہ جس کا منصب اخلاقی، روحانی و فکری راہنمائی ہونا چاہیے، کی بدعنوانی کسی معاشرے کے زوال کی ٓاخری سیڑھی ہوتی ہے۔“

”تمام انسانی حقوق کا جوہر پوری انسانیت کی مساوات ہے، جسے قرآن نے نہ صرف بیان کیا بلکہ اس کی تصدیق بھی کی۔ قرآن نے نیکی اور تقوی کے علاوہ خدا کے سامنے کسی بھی اور نسلی، رنگ یا خون کے امتیاز کو ختم کر دیا۔ قرآن مجید کی طرف سے انسانی مساوات پر زور دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات میں، صرف بنی نوع انسان ہی ایک جنس (سپیشی) ہے جس میں عقل، دانش اور فلفسیانہ موشگافیوں کے نام پر بنی آدم کے درمیان مجرمانہ امتیاز اپنی مکروہ شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے

”آخری تجزیے میں کسی دوسرے کے ساتھ کی جانی والی تمام برائی، نا انصافی، نقصان اور انحراف، دراصل انسان آپ ہی سے کرتا ہے، صرف استعاراتی طور پر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بھی۔“

”کامیاب انسان وہ ہے جو خود کو اپنی ہی خود غرضی سے بچا لے۔“

(معروف مسنون دعا ”نعوذ باللہ من شرور انفسنا“)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).